دو فٹ،
چار فٹ،
پانچ، سات۔۔۔۔نو۔۔۔بارہ۔۔۔۔پندرہ۔۔۔۔بیس۔۔۔
جب آدھی بستی تہہ آپ ہوگئی تو زندہ بچ جانے والوں نے دیکھا کہ وہ اس لمبی اور اونچی سڑک پر ہیں جو پوری بستی کو دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے اور جو بستی کے دونوں ہی حصے کے لوگوں کو اپنی جان سے عزیز ہے۔
سڑک؟۔۔۔۔لمبی،چوڑی، اونچی، صاف، شفاف، کشادہ، مضبوط اور چمکیلی سڑک۔۔۔۔اس سڑک کی کہانی بہت پرانی ہے۔ اتنی ہی پرانی جتنی یہ بستی اور اتنی ہی متنوع جتنے اس بستی کے لوگ۔ یہ سڑک کب بنی؟ کیوں بنی؟ کیسے بنی؟ کس نے بنائی؟ کوئی نہیں جانتا۔وہ معمر شخص بھی نہیں جو اس بستی کے لوگوں کے لئے خضر کا درجہ رکھتا ہے اور جو مصیبت اور مسرت دونوں ہی موقعوں پر لوگوں کی رہنمائی کے فرائض انجام دیتا رہا ہے۔ دودھ جیسی سفید اور لمبی داڑھی، جھریوں سے اٹا ہوا چہرہ، جھکی ہوئی کمر، رعشہ زدہ ہاتھ اور گردن مگر پاٹ دار آواز اور چمکیلی آنکھوں والے بوڑھے بابا کے بارے میں مشہور ہے کہ جب وہ پیدا ہوا تو اس کی دادی اماں نے اس کے حلق میں شہد کی بوند نہیں، آب حیات کا قطرہ ٹپکادیا تھا۔ تبھی تو بستی کے لوگوں نے اس بوڑھے بابا کو نہ کبھی بیمار پڑتے ہوئے دیکھا، نہ تھکا ہواپایا اور نہ کبھی فکر و تردد کی پرچھائیاں ہی اس کے چہرے پر نظر آئیں۔ اس کے ہونٹوں پر ہمیشہ پر اسرار مسکراہٹ پھیلی رہتی۔ بستی کے لوگوں میں یہ بوڑھا ”گدھ بابا“ کے نام سے مشہور تھا۔ بستی والوں نے سن رکھا تھا کہ گدھ کی عمر بہت لمبی ہوتی ہے۔ اتنی لمبی کہ پیغمبروں اتاروں کے وقت کے کچھ گدھ آج بھی موجود ہیں۔ شاید اسی لئے یہ بوڑھا گدھ بابا کے نام سے مشہور ہوگیا۔ بابا کی زبان میں عجیب تاثیر تھی۔ جو کہہ دیتے وہ ہوجاتا۔ اگر نہیں کہہ دیا تو وہ ہاں نہیں ہوسکتا تھا اور اگر ہاں کہہ دیا تو اسے یقینا ہاں ہونا تھا۔ فجر کی نماز کے وقت جب کہ مندروں میں گھنٹیوں کی آواز گونجنے لگتی ہے، گدھ بابا کی کٹیا کے آگے حاجت مندوں اور سوالیوں کی بھیڑ جمع ہونا شروع ہوتی تو رات گئے تک یہ سلسلہ چلتا رہتا۔ بابا کی کٹیا کا دروازہ ہر مذہب و ملت اور عقیدے کے لوگوں کے لئے کھلا ہوا تھا۔
اس بستی کے لوگوں کو جتنی عقیدت گدھ بابا سے ہے اتنی ہی محبت اس سڑک سے ہے جو اس بستی کے درمیان سے گزرتی ہے اور جس کے بارے میں بابا کاخیال ہے کہ اس بستی کے ہر آدمی کے اندر یہ سڑک موجود ہے اور جس دن یہ سڑک ان کے دلوں سے نکل جائے گی، یہ بستی خالی ہوچکی ہوگی اور شاید۔۔۔۔۔بستی کے لوگوں کو اس سڑک سے عجیب عقیدت ہے اور عقیدت کا یہ رشتہ اتنا گہرا ہے کہ وہ اسے کسی بھی قیمت پر کھونا نہیں چاہتے ہیں۔ یہ سڑک ان لوگوں کی روح ہے ان کی زندگی کی ضامن اور شخصیت کی پہچان ہے۔
لیکن آج یہ بستی عجیب صورت حال سے گزر رہی ہے۔
سڑک کے ایک طرف کی ساری بستی سیلاب کی زد میں تھی۔ کئی دنوں سے مسلسل بارش کسی فاحشہ کی طرح بستی کے گلی کوچوں میں یوں دندناتی رہی کہ شریف زادوں کا گھر سے نکلنا دشوار ہوگیا۔دریا کا پانی اژدہے کی طرح اپنا خوف ناک جبڑہ کھولے ہوئے بستی کی ہر شے کو نگلتا جارہا تھا۔ اونچے اونچے مکانوں کی لمبی لمبی دیواریں ریت کے گھروندوں کی طرح مسمار ہوچکی تھیں۔ بڑے بڑے تناور درخت زمین بوس ہوچکے تھے، کھیت کھلیان، مال و اسباب، گھر بازار، اسکول کالج، دفتر اور اسپتال سب کے سب پانی پر لکھی ہوئی تحریر نظر آرہے تھے۔ سطح آپ پر تیرتی ہوئی جانور اور آدمی کی لاش میں فرق کرنا مشکل ہوگیا تھا۔ اور اگر کسی لاش کی شناخت ہوبھی جاتی تو اس کا کوئی وارث نہ ملتا۔ ماؤں نے خوف کے مارے اپنے بچوں کو اسکول بھیجنا بند کردیا اور نوجوانوں کی تیز رفتار زندگی یکایک تھم سی گئی۔ پانی کے اژدہے نے اپنی زبان سے تمام احتیاطی تدابیر کی سرخ لکیروں کو چاٹ لیا تھااور {جو} اس کی زد سے محفوظ رہ گئے تھے ان کے لئے اب یہ سڑک ہی آخری پناہ گاہ تھی۔ کہ یہ سڑک اب بھی پہلے کی طرح چمک دار اور پائیدار تھی۔
ایک طرف تو یہ روح فرسا منظر تھا کہ جدھر نگاہیں اٹھتی تھیں پانی کا لشکر اپنے ہاتھوں میں فتح کا پرچم بلند کئے کھڑا تھا اور سڑک کی دوسری طرف کی پوری بستی کے لوگ باگ پانی کی ایک ایک بوند کے لئے تڑپ رہے تھے۔ ان کی زبانیں سوکھ کر کانٹا ہوگئی تھیں۔ہونٹوں پر پپڑیاں جم گئیں تھیں اور آنکھوں میں ویرانی خیمہ زن تھی۔ ان کے کھیت جل رہے تھے اور خاک آلود چراگاہوں میں جانوروں کی لاشوں کا بازا لگا ہوا تھا۔ بھیڑوں، بکریوں، گایوں اور گھوڑوں کی لاش سے سڑانڈ پوری بستی میں پھیلنے لگی تھی۔ دھرتی کی طرح لوگوں کے جسم و جان بھی سوکھ کر چٹخنے لگے تھے اور صدیوں کا پیاسا سورج ان کے خون کے ایک ایک قطرے کو اپنی سرخ زبان سے چاٹ رہا تھا۔ شیر خوار بچے اپنی ماؤں کی چھاتیوں میں دودھ کے ایک قطرے کے لئے منہ رگڑتے رہتے مگر انھیں کیا معلوم کہ خشک ندی میں کنکر اچھالنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔۔۔دوشیزاؤں کے چہرے کا پانی اترنے لگا تھا اور ان کے چاہنے والوں کی جوانی وقت کی آنچ میں جھلسنے لگی تھی۔ بوڑھوں نے اپنی ناتواں انگلیوں سے ماضی کی سخت مٹی کرید کرید کر دیکھنے کی کوشش کی کہ آخر اس قہر و غضب کے پس پردہ خدا کی کون سی مصلحت پوشیدہ ہے، مگر ناکام رہے۔ وید قرآن، بائبل، گیتا اور گرنتھ سب خاموش تھے۔ صرف آدمی کی چیخ و پکار سنائی دے رہی تھی یا پھر اندھیری راتوں میں کتوں اور بلیوں کے رونے کی وحشت ناک آوازیں آتی رہتیں یا الو اور چمگادڑ اپنے پر پھڑ پھڑا تے رہتے۔
دونوں ہی طرف کی بستی کے لوگ پریشان حال تھے۔ بیمار تھے۔ بھوکے تھے۔ ننگے تھے۔ بے روزگار اور بے یارو مددگار تھے۔ آدھی بستی سیلاب اور آدھی خشک سالی کے عفریت کا شکار ہوچکی تھی۔ بستی کا سردار اپنی رعایا میں روٹی بانٹ رہا تھا۔ کپڑے اور دوائیاں تقسیم کر رہا تھا۔ لیکن ان کی ضرورتیں اور مصیبتیں کم نہیں ہوتی تھیں۔ رسد کم او ضرورتیں لاتعداد تھیں۔ کہیں پر بلیوں کے جھگڑے میں بندر پوری روٹی ہڑپ کر جاتا۔ اور کہیں کہیں تو آدمی ہڈی کے ایک ٹکرے کے لئے کتوں سے لڑنے پر آمادہ نظر آتا تھا۔
”آخر ہم یہ زلت بھری زندگی کب تک جیتے رہیں گے؟“ سڑک پر پناہ گزیں ایک نوجوان نے لوگوں سے مخاطب ہوکر کہا۔
”ہم اس سڑک کو داغ دار کر رہے ہیں ہماری وجہ سے سڑک پر ہر طرف گندگی اور غلاظت پھیل گئی ہے۔ بو، تعفن اور سڑانڈ نے اس کے چمکیلے اور خوب صورت جسم کو بد نما کردیا ہے۔ ایشور ہماری رکشا کرے۔ ہماری نجات کی راہ نکالے۔۔۔“
”رکشا؟ نجات؟۔۔۔نہیں، یہ خدا کا قہر ہے۔ کسی کا شراپ! ہم کچھ نہیں کرسکتے۔۔۔ہم۔۔۔“ دوسرے نوجوان کی آواز پر سب چونک پڑے۔
”ہاں! ہاں! ہم کچھ نہیں کرسکتے، ہم کچھ نہیں کرسکتے ہیں۔ ہم کچھ نہیں۔۔۔۔۔ہم۔۔۔“ لوگ بے تحاشہ چیخ رہے تھے۔ ان کی آواز سے پوری بستی گونج رہی تھی کہ معاً ایک کرخت آواز ان کے کانوں میں پگھلے ہوئے سیسے کی طرح اترتی چلی گئی۔
”خاموش ہوجاؤ! ہم سب کچھ کر سکتے ہیں۔ مجھے یہ سڑک اپنی زندگی سے پیاری نہیں۔ جب ہم ہی نہیں رہیں گے تو یہ سڑک کس کام کی۔ ہمیں اس اونچی سڑک کو درمیان سے توڑنا ہوگا۔ ایک طرف بستی کا پانی دوسری طرف کی بستی میں پہنچانا ہوگا۔ ورنہ۔۔۔دونوں طرف کی بستیاں تباہ ہوجائیں گی اور۔۔۔اور۔۔۔۔“ اس کے قبل کہ وہ نوجوان کچھ اور کہتا لوگوں نے اسے اپنے قابو میں کر لیا۔ اس کے منہ میں کپڑے ٹھونس دیے گئے اور اسے رسیوں میں جکڑ کر ایک طرف ڈال دیا گیا۔ بستی کے ہر آدمی کی انگلی اس نوجوان کی طرف اٹھی ہوئی تھی اور ان کی آنکھوں سے چنگاریاں اُڑ اُڑ کر اس نوجوان کے جسم پر پڑ رہی تھیں۔ نوجوان کے جسم کا ہر عضو پھپھولوں سے بھر گیا تھااور درد کی شدت سے اس کی کراہ حلق کے اندر گھٹ کر رہ گئی تھی۔
اگلے ہی لمحہ دونوں طرف کی بستی کے لوگوں نے متفقہ فیصلہ کیا کہ کل صبح جب مسجد سے اذان اور مندر سے گھنٹیوں کی آواز بستی میں گونجنے لگے گی، وہ لوگ گدھ بابا کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور اس ناگہانی آفت سے نجات کی سبیل دریافت کریں گے۔ گدھ بابا یقینا ہمارے لئے کوئی ایسا حل تلاش کریں گے جس سے اس سڑک کا وقار بھی قائم رہے اور ہماری مصیبتوں کا بھی خاتمہ ہوجائے۔
ہر رات کی طرح اس رات بھی کتوں اور بلیوں کے رونے کی منحوس آواز بستی کا طواف کرتی رہیں۔ الو اور چمگادڑ اپنے پر پھڑپھڑاتے رہے۔ مائیں اپنے بچوں کو سینے سے چمٹائے خو ف و دہشت کا ایک ایک لمحہ جھیلتی رہیں۔ بوڑھے مشکوک انداز میں ایک دوسرے کو دیکھا کئے اور نوجوان اپنے سروں پر عدم تحفظ کی ایک انوکھی انجانی سی تلوار لٹکی ہوئی محسوس کرتے رہے۔
ہر صبح کی طرح اس صبح بھی مسجد سے اذان اور مندر سے گھنٹیوں کی آواز سن کر بستی کے لوگ اپنے اپنے گھروں سے نکل پڑے۔ ہر کوئی گدھ بابا کی کٹیا پر سب سے پہلے پہنچنے کا شرف حاصل کرنا چاہتا تھا۔ لوگوں میں عجیب جوش اور مسرت کا جذبہ تھا گویا ان کی مصیبتوں کا آج ہی آخری دن ہے۔ قریب تھا کہ یہ قافلہ بابا کی کٹیا تک پہنچ جائے، اچانک سب کے قدم جم کر رہ گئے۔ بستی والوں نے اپنی پھٹی پھٹی حیران آنکھوں سے دیکھا کہ سڑک درمیان سے ٹوٹی ہوئی ہے اور پانی کا ایک تیز ریلا دوسری طرف بستی میں بڑی سرعت سے داخل ہورہا ہے۔ حیرت کی تصویر بنے اور غم و غصہ میں ڈوبے ہوئے لوگوں نے جب گدھ بابا کی کٹیا کی طرف اپنی نگاہیں اٹھائیں تو{یہ} دیکھ کر ان پر سکتہ سا طاری ہوگیا کہ پانی کے تیز ریلے میں بابا کی کٹیا بھی بہی جارہی ہے اور اب وہاں دور دور تک سورج کی کرنوں سے چمکتی ہوئی سطح آب کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...