1۔ عورت کو اغواہ کرکے لا کراس سے شادی کرنا ، Rakshasa
2۔ طاقت ورصاحب حثیت، سردار، بادشاہ کو عورت پسند آگئی ہے۔۔ تو اس سے شادی کرنا۔ اس طرح کی بیویوں کو بہرحال ایک خاص مراعاتی حثیت مل جاتی تھی۔
3۔ ایک ایسی شادی جس میں عورت اپنے والدین کے گھر رہتی ہے، اور خاوند کبھی کبھار اس کے پاس آ کررہ لیتا ہے۔۔ اور اس سے بچے بھی ہوجاتے ہیں۔
4۔ پھر درباری courtesan خواتین ہوتی تھی، جو بادشاہں، راجوں، نوابوں اشرافیہ کے لئے خوشی و مسرت کا سبب بنتی تھی۔ یہ فنون لطیفہ میں ماہر ہوتی تھی۔۔ آرٹ، رقص، گائیکی۔۔ شاعری۔۔
5۔ پھر لونڈیاں concubines ہوتی تھی۔۔ ان سے کبھی کبھی اولاد بھی پیدا ہوجاتی تھی۔
6۔ شادی صرف اپنی کمیونٹی کے اندرہی کرنی ہے، وہ کمیونٹی مذہب کی بنیاد پر ہو یاجغرافیائی، نسل کی بنیاد پر۔۔ جیسے پارسی۔۔ پارسی صرف پارسیوں میں ہی شادی کرتے ہیں۔ Endogamy
7۔ جہاں ایک عورت کی شادی ایک سے زیادہ بھائیوں سے ہوجاتی ہے۔ Polyandry
8۔.جہاں ایک مرد ایک سے زیادہ بیویاں ایک وقت میں رکھ سکتا ہے۔ اور طلاقیں بھی لامحدود دے کر لامحدود تعداد میں بیویاں بدل سکتا ہے۔
9۔ عیسائیت میں یہ ہوا، کہ شادی عمربھر کا بندھن قرار پائی۔ جس میں طلاق کا تصور نہی تھا۔
– ہندووں میں بھی طلاق نہیں تھی۔ اسی لئے قدیم ہندو سماج میں بیوی کو اپنے سردار، بادشاہ، راجہ خاوند کے ساتھ وفاداری نبھانے کے لئے اسے مرد کی موت پر ستی ہونا پڑتا تھا۔ عام مرد کی بیوہ ہونے کی شکل میں اس کی دوسری شادی ممکن نہ تھی۔ بلکہ بطور بیوہ اسے ایک نحوست زدہ عورت سمجھ کر سلوک کیا جاتا تھا۔۔
زمانہ جدید تہذیب شادی غیرضروری کردی ہے، آپ باقاعدہ شادی سے رہیں یا بغیر شادی کے۔۔ بچے بھی ہوں، معاشرے اور ریاست کو اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ بلکہ ہم جنس شادیوں کی بھی اجازت ملتی جا رہی ہے۔۔ یعنی سوسائٹی اور ریاست نے فیصلہ کیا ہے، دو افراد کا پرائیویٹ ملن اور اکٹھے رہنے سہنے سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ یہ افراد کا پرسنل معاملہ ہے۔ بطور شہری ان کے حقوق ہر اس کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔۔۔
ہمارے خیال میں انسان نے 5 ہزار سال کے تجربے کے بعد بالآخر۔۔۔ انٹر پرسنل ریلیشن کے جو عذاب اورتضادات تھے، ان کو کافی حد تک حل کرلیا ہے۔ ریاست اور معاشرے کو افراد کے جنسی معامالات کا چوکیدار اور باڈی گارڈ بننے کی کوئی ضرورت نہیں۔
“