بالآخر وہ ہو کر رہا جو امریکی تھنک ٹینک چاہتے تھے۔ سعودی عرب کے زیر انتظام 34 ملکوں کے اتحاد نے عالمِ اسلام میں اُس شیعہ اور سنی تقسیم پر مہر لگا دی ہے جس کا آغاز ایران نے کیا تھا اور پھر اِس تقسیم کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے مسلسل تگ و دو کی! امریکی وزیر دفاع نے کسی لگی لپٹی بغیر کہہ دیا ہے کہ ’’یہ اتحاد امریکی حکمت عملی کے عین مطابق ہے جس کے تحت داعش کے مقابلے کے لیے سنیوں کے کردار کو وسعت دینا ہے‘‘
اس شیعہ سنی تفریق میں امریکی کردار تاریخ کے لیے نیا نہیں ہے۔ یہ ایک پرانی مہم کا تسلسل ہے۔ ایران کو ایک مسلک کی ریاست میں ڈھالنے کی ابتدا شاہ اسماعیل صفوی نے کی۔ اُس کی پالیسی کشت و خون کی پالیسی تھی۔ لاتعداد سنی مارے گئے۔ بہت سے پڑوسی ملکوں میں جا بسے۔ شاہ اسماعیل نے عرب امامیہ علماء کو دعوت دی کہ آ کر اِس ’’کام‘‘ میں اُس کا ہاتھ بٹائیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ اکثر عرب شیعہ علماء اپنی اِس روایت پر قائم رہے کہ کسی حکومت کی خدمت نہیں کرنی۔ انہیں اِس رسم پر بھی اعتراض تھا جو شاہ اسماعیل نے دربار میں شروع کی تھی کہ اس کے آگے جھکا جائے۔ عرب شیعہ علماء اِسے عقیدۂ توحید کے خلاف سمجھتے تھے۔ تا ہم ایک لبنانی عالم شیخ علی الامیلی نے شاہ اسماعیل کی دعوت کو قبول کیا۔ پہلے تو وہ کئی بار ایران گیا، اور بعد میں وہیں مقیم ہو کر شاہ اسماعیل کی شیعہ سازی کی مہم میں سرگرمی سے شریک رہا۔ یوں سمجھیے کہ یہ لبنانی حزب اللہ کا آغاز تھا!
اس وقت صفوی سلطنت مشرقی اناطولیہ تک پھیلی ہوئی تھی۔ شاہ اسماعیل سلطنت عثمانیہ کو تر نوالہ سمجھ رہا تھا۔ ایک وجہ یہ تھی کہ عثمانیہ
سلطنت میں بسنے والے بہت سے ترکمان‘ شاہ اسماعیل سے ہمدردی رکھتے تھے۔ ایک خفیہ نیٹ ورک تھا جو ان ترکمانوں کو ایرانی حکومت سے جوڑے ہوئے تھا، تاہم ترکوں نے 1514ء میں شمال مغربی ایران میں شاہ اسماعیل کو ایک لڑائی میں بری طرح شکست دی۔ مشرقی اناطولیہ ہمیشہ کے لئے چھن گیا۔ آج بھی یہ ترکی ہی کا حصہ ہے۔ آج کے حالات کو سمجھنے کیلئے 1514ء کی اس جنگ کے اثرات پر نگاہ ڈالنی ضروری ہے۔ جو ترکمان‘ شاہ اسماعیل صفوی کو ناقابل شکست سمجھتے تھے، ان کا خیال غلط ثابت ہوا۔ مگر اس جنگ کا دوسرا نتیجہ مسلمانوں کے لئے بہت خطرناک نکلا۔ ایرانی سلطنت نے فیصلہ کرلیا کہ عثمانیوں سے نمٹنے کے لئے یورپ کی عیسائی طاقتوں کو ساتھ ملانا پڑے گا۔ ترک فوجیں یورپ میں آگے بڑھ رہی تھیں۔ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے۔ یوں یورپی طاقتیں، ایران کو دوست سمجھنے لگیں۔ سلطنت عثمانیہ دونوں کا مشترکہ ہدف تھا!
شاہ اسماعیل نے اس کے بعد یورپی ملکوں میں سفارتوں پر سفارتیں بھیجیں۔ اس نے ایک ایک یورپی طاقت پر زور دیا کہ وہ مغرب سے ترکوں پر حملہ کریں تاکہ وہ مشرق سے حملہ کرے اور یوں ترک چکی کے دوپاٹوں کے درمیان پس جائیں، برصغیر کے مغربی ساحل پر گوا کی پرتگیزی کالونی نے اس سفارت کاری میں نمایاں حصہ لیا۔ اس وقت صفوی تخت پر شاہ عباس بیٹھ چکا تھا۔ گوا کے پرتگیزی وائسرائے نے ایک معروف سفارت کار ڈی گو وی کو ایران بھیجا۔ اس کے پاس ہسپانوی بادشاہ کا خط بھی تھا۔ اس خط میں ہسپانیہ نے ایران کو یقین دلایا تھا کہ جیسے ہی ایرانی، ترکوں پر حملہ کریں گے، یورپ بھی ترکوں پر چڑھائی کردے گا۔ دلچسپ صورت حال اس وقت پیدا ہوئی جب ڈی گو وی نے گوا کے وائسرائے کی طرف سے تحائف پیش کرنے چاہے۔ ایرانی افسروں نے اسے متنبہ کیا کہ وائسرائے کا درجہ شاہ ایران کے برابر کا نہیں اس لئے بادشاہ کو یہ بتایا جائے کہ یہ تحائف ہسپانیہ کے بادشاہ نے بھیجے ہیں۔ عیسائی مشن کے پاس سرخ رنگ کی مجلد کتاب تھی جو حیات مسیح پر مشتمل تھی۔ شاہ عباسی نے اس کتاب میں گہری دلچسپی لی۔ بہرطور یہ طے ہوگیا کہ دونوں طاقتیں بیک وقت ترکوں پر حملہ کریں گی۔
مگر جب شاہ عباس نے ترکوں پر حملہ کیا تو یورپ سے کسی طاقت نے معاہدے کی پاسداری نہ کی ۔ شاہ عباس کی مایوسی انتہا کو پہنچ گئی۔1605ء میں اس نے یاددہانی کے لئے ایک اور سفارت میڈرڈ بھیجی، مگر اسے یہ حوصلہ شکن اور مایوس کن خبر ملی کہ ہابس برگ کے شہنشاہ روڈولف نے ترکوں سے صلح کرلی ہے۔ اس صلح کی افواہیں تو وہ سن رہا تھا مگر اسے یقین نہیں آ رہا تھا۔ اس لئے کہ رو ڈولف نے پختہ یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ ترکوں کو نہیں چھوڑے گا۔ اس یقین دہانی کی وجہ سے شاہ عباس کو ہابس برگ کے شہنشاہ سے اس قدر محبت اور عقیدت ہوگئی تھی کہ اس نے اپنی خواب گاہ کے دروازے پر اس کی تصویر آویزاں کر دی تھی اور خواب گاہ میں داخل ہوتے وقت اسے سلام کرتا تھا۔ اسے زیادہ قلق اس منافقت کا تھا کہ جس دن روڈولف نے اپنی ٹیم کو ترکوں سے مذاکرات شروع کرنے کا حکم دیا، ٹھیک اسی دن پراگ میں تین ایرانی سفارت کاروں کو رخصت کرتے وقت اپنا عہد دہرایا کہ وہ ترکوں کو لوہے کے چنے چبوا دے گا۔ دوسری بدقسمتی یہ ہوئی کہ ان سفیروں کو روس میں روک لیا گیا اور وہ تین چار سال بعد ایران پہنچے۔ یوں شاہ عباس کو بروقت خبر ہی نہ ہوئی کہ یورپی طاقتیں ترکوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا رہی ہیں۔ ترکوں اور ہابس برگ کے درمیان یہ معاہدہ پچاس برس برقرار رہا۔ اس عرصہ میں ترکوں نے اپنے اندرونی معاملات پر توجہ دی اور ایران کے ساتھ اپنی سرحدوں کو ناقابل تسخیر بنالیا۔
شاہ عباس نے 1609ء میں ایک اور سفارت کار زینل بیگ کو یورپی دارالحکومتوں میں بھیجا تاکہ ترکوں کے خلاف مدد مانگے۔ زینل بیگ ایک دردمندانسان تھا اور حقیقت پسند بھی تھا۔ اس نے شاہ عباس کو یورپ سے خط لکھا اور بتایا کہ یورپی طاقتیں ترکوں سے صلح کرنے میں مخلص نہیں‘ نہ ہی وہ ایران سے مخلص ہیں۔ ان کا اصل مدعا یہ ہے کہ ایرانی اور ترک آپس میں لڑتے رہیں اور مسلمان کمزور سے کمزور تر ہوتے رہیں تاکہ اسلام کو نقصان پہنچے۔ مگر شاہ عباس پر زینل بیگ کی نصیحت کا کوئی اثر نہ ہوا۔ اب اس نے پوپ سے مدد کی درخواستیں کرنا شروع کردیں۔ پوپ سے اس نے یہ وعدہ بھی کیا کہ اگر بیت المقدس پر اس کا قبضہ ہوگیا تو وہ شہر پوپ کو پیش کردے گا۔ مگر پوپ جانتا تھا کہ یہ محض ہوائی ہے اور ایسا خواب ہے جس کا حقیقت میں بدلنا ازحد مشکل تھا۔ ایک سفیر ایران نے پولینڈ بھی بھیجا مگر وہ استراخان سے آگے نہ جاسکا اور تین برس روسیوں کی قید میں گزار کر ایران واپس آ گیا۔
اس سارے عرصہ میں شیعہ علماء اس سفارت کاری کی مخالفت کرتے رہے۔ وہ ترک مسلمانوں کے خلاف یورپ سے مدد مانگنے کو ازحد ناپسند کرتے تھے۔ اسی اثنا میں ترک سفیر ایرانی دربار میں پہنچ کر، شاہ ایران کو قائل کرنے کی مسلسل کوششیں کرتے رہے کہ ایران اور ترک سلطنتوں کو آپس میں جنگ نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اس سے خوشی صرف غیر مسلموں کو ہوگی۔ دربار کے شیعہ علماء نے اس کی تائید کی۔ مگرقزلباش عمائدین صلح کے مخالف تھے۔ بڑی بڑی جاگیریں قزلباشوں کے قبضے میں تھیں۔ جنگ کے وقت عسا کر وہی بہم پہنچاتے تھے اس لئے ایران نے ترک دشمن پالیسی جاری رکھی۔ اس پس منظر میں آج کے شرق اوسط کو دیکھا جائے تو کوئی تعجب نہیں ہوتا۔ سعودی عرب کے تجویز کردہ اتحاد کا سرگرم ترین رکن ترکی ہی ہوگا جو پہلے ہی شام میں ایرانی مداخلت کے خلاف ہے اور ایران کے مددگار، روس کا، طیارہ بھی جس نے حال ہی میں مار گرایا ہے۔
شیعہ سنی صف آرائی مشرقی وسطیٰ میں کن خطوط پر کی گئی ہے، اس کی تفصیل آئندہ نشست میں پیش کی جائے گی!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“