ایسا لگتا کہ میں مرچکا ہوں اور میری روح ان میں بھٹک کر اپنا ماضی تلاشتی ہے۔ جیسے کہ میں یہاں پہلے بھی گزر چکا ہوں۔ جب کوئلے سے چلنے والے انجن دھواں اڑاتے کھیت کھلیانوں سے چھک چھک کرتے اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہوتے تھے۔۔۔ راستے میں جگہ جگہ وہی زرد پتھر سے تعمیر شدہ ریلوے اسٹیشنز، جھنڈی ہلاتا گارڈ، ریلوے اسٹیشن کے باہر ایک فولادی اسٹینڈ پر لٹکی سرخ بالٹیاں جن میں ریت بھری ہوتی تھی۔۔۔۔ زرا آگے پانی کی ٹنکی جس سے آگے کو نکلا ہوا لمبا سا فولادی پائپ جس سے انجن میں پانی بھرا جاتا تھا۔۔۔ سرخ مال گاڑیوں کی قطار جن کے بارے میں ہمیشہ تجسس رہتا کہ ان کے اندر کیا ہے؟ ایسی کشش اور گرفت کے دل کی دھڑکنیں سمجھو بے ترتیب ہونے لگتی ہیں۔ جیسے ان ویران پلیٹ فارموں پر لگے گھنے درختوں کے نیچے ایستادہ چوبی اور فولادی ہتھوں والی سیٹوں پر میں نے کسی کے ساتھ ٹرین کا انتظار کیا ہے۔ نہ جانے کونسی منزل کے لئے؟ شاید اسی جیسے کسی دوسرے پلیٹ فارم پر اتر کر سرخ اینٹوں والے فرش پر ٹرین سے گھنٹوں کا سفر کرکے اترنے کے بعد جو احساس ہوتا ہے کہ اپنے ہی پیر اور چال اجنبی سی لگتی ہے۔ ہر قدم کی آواز کانوں میں گونجتی ہے۔ جیسے جیسے یہ ریلوے اسٹیشن پرانے اور خستہ ہوتے جارہے ہیں ان کی پراسراریت اور کشش میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ان ریلوے اسٹیشنز سے متصل کوارٹرز میں نہ جانے کتنے لوگ کتنی فیملیاں اپنا اپنا وقت گزار کر گزر چکے ہونگے۔ نہ جانے کیوں سرکاری رہائش گاہوں میں رونق کیوں نہیں ہوتی۔ رہائشیوں کے ہوتے ہوئے بھی ویران لگتے ہیں۔ شاید ان کے باسی انھیں گھر نہیں مکان سمجھتے ہیں۔ ایک عارضی رہائشگاہ۔ جہاں وہ بس مہمانوں کی طرح رہتے ہیں کہ جانے کب تبادلے کا پروانہ آجائے۔
بچھڑوں سے ملنے کی خوشی اور اپنوں سے بچھڑنے کا غم دونوں ہے ریلوے اسٹیشن سے جڑے ہیں لیکن ان سب سے زیادہ تاثر ریلوے اسٹیشن سے انتظار کا ابھرتا ہے۔ دور ریل کی پٹری پر نظر جمائے ریل کا انتظار جس میں کوئ اپنا کوئ دلبر کوئ عزیز آنے والا ہے۔
ریل کی سیٹی میں کیسے ہجر کی تمہید تھی
اُس کو رخصت کرکے گھر لَوٹے تو اندازہ ہُوا
پروین شاکر