کل عرصے بعد
پرانی الماری کھولی تو
تمہارے خط ملے
بلکل ویسے ہی پڑے تھے
جیسے کئی سال پہلے رکھے تھے
بے آواز خاموش
دھول سے اٹے ہوئے
بلکل ویسی ہی دھول
جو کہیں سالوں سے
ہمارے تمہارے درمیان حائل ہے
فارغ تھا
تو کھول کر پڑھنے لگا
ہر خط کئی بار پڑھا
اور وہ آخری خط
جب تم نے اجازت چاہی تھی
ہر عہد سے ہر قسم سے
اور میں چاہتے ہوئے بھی
انکار نہ کر پایا
ویسے بھی سنا تھا
محبت میں باندھا نہیں کرتے
بس یہی سوچ کر
تمہیں ہر عہد سے آزاد کر دیا
جانتے ہو
تب میں بہت رویا تھا
یوں لگتا تھا
جیسے قیامت آئی ہو
دنیا ختم ہو گئی ہو
اور میں
تمہیں کبھی بھول نہیں پاؤں گا
مگر سچ کہوں
یہ سب محض میرا گمان نکلا
تمہیں بھول جانا
کچھ ایسا مشکل نہ تھا
زمانے کی الجھنوں نے کچھ ایسا گھمایا
کہ دھیرے دھیرے
تمہاری یاد کے ساتھ ساتھ
تمہارا عکس بھی محو ہونے لگا
سب نارمل تھا
زخم بھر رہے تھے
درد بھی گھٹ رہا تھا
بس میرے اندر کوئی
ٹوٹ گیا تھا
جسے چاہتے ہوئے بھی
میں کبھی جوڑ نہیں پایا
وہ لاچار شکستہ شخص
میرے مضبوط توانا وجود میں
اب بھی آہیں بھرتا ہے
راتوں کو چپکے چپکے
تمہیں یاد کر کے روتا ہے
اسے لاکھ سمجھاتا ہوں
کہ تمہارے بغیر بھی سب ٹھیک ہے
مگر وہ ہے کہ میری سنتا ہی نہیں
اسے تمہیں سننے کی عادت جو تھی
مگر فکر کی کوئی بات نہیں
وہ بھی دھیرے دھیرے سمجھ جائے گا
یوں بھی آخر کب تک
تمہارا سوگ منایا جا سکتا ہے
شاید کہ عمر بھر –
“