“بڑی افواج کی پیشقدمی کی مزاحمت کی جا سکتی ہے مگر ایسا آئیڈیا جس کا وقت آ گیا ہو، اس کا راستہ نہیں روکا جا سکتا” ۔وکٹر ہیوگو
مستقبل برقی گاڑی کا ہے۔ اور یہ بڑے عرصے سے مستقبل رہا ہے۔ پہلی برقی گاڑی 1837 میں سکاٹ لینڈ کے شہر ایبرڈین میں ایک کیمسٹ رابرٹ ڈیوڈسن نے بنائی تھی۔ اب تو اس کو بھلا دیا گیا ہے لیکن انیسویں صدی کے اختتام پر برقی ٹیکسیوں کا فلیٹ تھا، جو لندن کی سڑکوں پر چلا کرتی تھیں۔ اپنی آواز کی وجہ سے ان کو ہمنگ برڈ کہا جاتا تھا۔ یہ گھوڑا گاڑی کے مقابلے میں نصف جگہ لیا کرتی تھیں۔ ان سے امید کی جاتی تھی کہ یہ ٹرانسپورٹ کے مسائل حل کر دیں گی۔ پیرس، برلن اور نیویارک تک یہ پہنچ گئی تھیں۔ بیسویں صدی کے اوائل میں امریکہ میں تیس ہزار الیکٹرک گاڑیاں رجسٹر ہوئی تھیں۔ پٹرول کے گاڑیوں سے زیادہ مقبول تھیں کیونکہ یہ آواز اور دھواں کم دیتی تھیں۔ بیسویں صدی کا مستقبل الیکٹرک گاڑیوں کا تھا۔ لیکن یہ خواب زیادہ عرصہ قائم نہیں رہ سکا۔
لندن میں کوچوانوں نے اس کے خلاف تحریک چلائی کہ یہ خراب ہو جاتی ہیں اور حادثات کا باعث بنتی ہیں۔ اس تحریک کی وجہ سے لندن الیکٹرک کیب کمپنی کا بزنس ختم ہو گیا۔ (الیکٹرک ٹیکسی میں تکنیکی مسائل تھے لیکن مخالفین نے ان کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا تھا)۔ ٹیکنالوجی میں کئی دوسری جگہ پر تبدیلیاں رونما ہوئی تھیں۔ پٹرولیم کے ذخائر کی بڑی دریافت کی وجہ سے اس کی قیمتوں میں نمایاں کمی ہوئی تھی۔ ہنری فورڈ کی اسمبلی لائن کی وجہ سے پٹرول کی گاڑیاں بنانے کی لاگت الیکٹرک گاڑیوں سے نصف رہ گئی تھی۔ شاہراہیں اچھی بن جانے کی وجہ سے لمبے سفر کئے جا سکتے تھے۔ برقی گاڑیاں اپنی محدود بیٹری پاور کی وجہ سے اس کا فائدہ نہیں اٹھا سکتی تھیں۔ بیسویں صدی میں جیت انٹرنل کمبسشن انجن کی ہوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پے پال سے حاصل کردہ منافع کو کیلے فورنیا میں نت نئی مشینیوں کو بنانے کے شوق میں جھونک دینے والے ایلون مسک نے 2004 میں ٹیسلا موٹرز کے نام سے کمپنی بنائی۔ یہ اس وقت بنائی گئی تھی، جب سب کا خیال تھا کہ الیکٹرک کار ایک بُرا آئیڈیا ہے۔ ٹیسلا موٹرز میں ان کے ساتھی سٹرابیل کہتے ہیں کہ “اب لوگ اس چیز کا احساس نہیں کرتے، لیکن جب یہ کمپنی قائم کی گئی تھی، اس وقت اگر اپنی دولت ضائع کرنے کے لئے بزنس کے بدترین آئیڈیاز کی فہرست مرتب کی جاتی تو الیکٹرک کار اس فہرست میں شامل ہوتی”۔ کسی بھی سرمایہ کار نے اس میں دلچسپی کا اظہار نہیں کیا لیکن ایلون مسک اپنے لئے خود سرمایہ کاری کر سکتے تھے۔ وہ ٹیسلا کے چیف ایگیزیکٹو آفیسر بن گئے۔ 2008 میں اس ادارے نے سب سے پہلے گاڑی لانچ کی جو ہائی وے پر سفر کر سکتی تھی۔ یہ روڈسٹر تھی، جس کی قیمت 109,000 ڈالر رکھی گئی تھی۔ یہ لیتھیم آئن بیٹری پر کام کرتی تھی۔ اسی طرح کی بیٹری جس پر موبائل فون اور لیپ ٹاپ کام کرتے ہیں۔ اور دو سو میل کا سفر ایک چارج پر کر سکتی تھی۔ سب سے اہم بات کہ اس کو سستی ماحول دوست گاڑی کے طور پر مارکیٹ نہیں کیا گیا تھا۔ یہ ایک جاذبِ نظر سپورٹس کار لگتی تھی۔ مسک نے اصرار کیا تھا کہ اس کی باڈی کاربن فائبر کی ہو اور صفر سے ساٹھ میل تک صرف چار سیکنڈ میں پہنچ سکے۔ اس کی وجہ سے اس کے بننے میں تاخیر ہوئی لیکن اس فیصلے نے اس کو امراء کیلئے ایک سٹیٹس سمبل بنا دیا۔ ہالی وڈ سٹارز جارج کلونی اور میٹ ڈیمن کے علاوہ گوگل کے بانی لیری پیج اور سرجے بِن اس کے ابتدائی خریداروں میں تھے۔
ٹیسلا کی اگلی گاڑی زیادہ متین قسم کی تھی۔ یہ عام مارکیٹ کے لئے بنائی گئی ماڈل ایس تھی۔ ایس کا مطلب سیڈان تھا لیکن اس میں ایک تاریخی پیغام بھی تھا۔ ہنری فورڈ نے اپنے مشہور گاڑی ماڈل ٹی کے نام سے بنائی تھی۔ ٹیسلا نے بتایا کہ انہوں نے اس کے لئے ایس کا حرف اس لئے چنا کہ یہ ٹی سے پہلے آتا ہے۔ یہ بتانے کے لئے تھا کہ برقی گاڑی پٹرول کی گاڑی سے پہلے آئی تھی۔
ماڈل ایس ہِٹ ہو گیا۔ 2015 میں اس ماڈل کی پچاس ہزار گاڑیاں بکیں۔ گاڑیوں کی پرانی کمپنیوں، بی ایم ڈبلیو اور نسان نے اپنی الیکٹرک کار تیار کرنا شروع کیں۔ 2016 میں ٹیسلا نے ماڈل تھری کے نام سے گاڑی کی پروڈکشن کا اعلان کیا جس کی بیس قیمت 35,000 ڈالر رکھی گئی۔ صرف چوبیس گھنٹے میں سات ارب ڈالر کے آرڈر بُک ہو چکے تھے۔ ایلون مسک نے ٹویٹ کیا، “برقی گاڑیوں والا مستقبل آن پہنچا ہے”۔
جدید الیکٹرک کار ایک بڑا آئیڈیا ہے، نئی ٹیکنالوجی نے اس کو قابلِ عمل بنا دیا ہے۔ لیکن یہ نیا آئیڈیا نہیں ہے۔ ایک پرانا خیال ہے، جن کا وقت شاید اب آیا ہے۔
کنزیومر ٹیک انڈسٹری کی طرح یہی چیز سائنس اور سوچ کے دوسرے میدانوں میں بھی ایسے ہی چلتی ہے۔ انسانی فہم کی کہانی، رفتہ رفتہ اکٹھے ہو کر فیکٹس کے اضافے کے ساتھ آہستہ آہستہ آگے بڑھنے کی ہی نہیں ہے۔ یہ اس سے زیادہ دلچسپ ہے۔ کسی رولر کوسٹر کی سواری کی طرح۔ لُوپ اور سوئچ بیک بھی اس کا حصہ ہیں۔ خواہ یہ ماڈرن ٹیکنالوجی، بائیولوجی، کاسمولوجی، سیاسی فکر، بزنس تھیوری، فلسفہ اور کوئی دوسرا میدان ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برقی گاڑیوں کو واپس لانے اور فیشن ایبل بنانے میں ایک ارب پتی من چلے کا جنون ضروری تو تھا، لیکن کافی نہیں تھا۔ پچھلے سو سال میں ٹیکنالوجی میں ہونے والی جدتیں بھی درکار تھیں۔ ایسی گاڑی جو تیس میل سے زیادہ چل سکے۔ پٹرولیم کی گاڑیوں سے ماحول کو درپیش ہونے والے مسائل کا ادراک، توانائی کے نئے طریقے، الیکٹرک ٹیکنالوجی کے نئے طریقے، پروڈکشن اور بزنس کے نئے ماڈل (اس کو بنانے کا ڈویلپمنٹ لائف سائیکل میں سافٹ وئیر کا ایجائل ماڈل استعمال کیا جاتا ہے) ، سب مل کر یہ ممکن ہوا کہ اس پرانے آئیڈیا کو واپس زندہ کیا جا سکے۔
اور اگر یہ اکیسویں صدی کا بڑا آئیڈیا ہے اور اس کا وقت آ گیا ہے تو پھر اس کو روکا نہیں جا سکتا۔
نوٹ: پچھلی سہہ ماہی میں ٹیسلا کمپنی کی فروخت ہونے والی گاڑیوں کی تعداد ایک لاکھ تھی۔ ٹیسلا کمپنی اس میں بیٹری، موٹر،، سنسر، مصنوعی ذہانت جیسی ٹیکنالوجیز کو ایک ہی جگہ پر بناتا ہے۔ روایتی طریقے سے الگ جگہوں پر بنائے گئے پارٹس کو جوڑ کر مینوفیکچرنگ کا طریقہ الیکٹرک کار میں کام نہیں کرتا۔ اس کی وجہ اس کا بڑا بیٹری پیک ہے۔