اگر عمران خان اقتدار میں نہ آسکا تو پھر….؟ تو پھر کیا‘ پاکستانی عوام کی قسمت میں تبدیلی نہیں ہو گی؟
یہ ہیں وہ سوالات جو جواب مانگتے ہیں‘ اور جب ان سوالات کا جواب تلاش کیا جاتا ہے تو لوگ جذباتی ہو جاتے ہیں‘ بپھر جاتے ہیں‘ گلے کی رگیں تن کر سرخ ہوجاتی ہیں‘ منہ سے جھاگ نکلنے لگتی ہے اور آستنیں چڑھا لیتے ہیں۔
جڑیں اتنی گہری ہیں اور اتنی زیادہ ہیں کہ الیکشن کا کلہاڑا‘ ان سب کو کاٹ نہیں سکتا۔ جاگیرداری کی جڑیں‘ برادری ازم کی جڑیں‘ پیری مریدی کی جڑیں‘ خاندانی وابستگی کی جڑیں‘ ہر تیسرا شخص یہ کہتا ہے کہ ہمارے خاندان نے ووٹ ہمیشہ پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ کو دیا ہے‘ وہ اگر کھمبے کو کھڑا کریں‘ تب بھی ہمارا ووٹ انہی کا ہو گا۔
لیکن اسکے باوجود یہ حقیقت ہے کہ عام پاکستانی تبدیلی چاہتا ہے‘ وہ ان پارٹیوں سے دل برداشتہ ہو چکا ہے‘ جو تریسٹھ سال سے باری باری تخت نشین ہو رہی ہیں۔ عوام کی جان محفوظ ہے‘ نہ عزت نہ مال۔ ٹریفک سے لے کر ہسپتالوں کے بوجڑ خانوں تک‘ تھانوں سے لے کر دھماکوں اور خودکش حملوں تک‘ جعلی دواﺅں سے لے کر ملاوٹ والی داﺅں اور خوراک تک اور اغواءبرائے تاوان سے لے کر سیدھے سادے قتل تک‘ کسی کی جان محفوظ نہیں۔ کراچی اور بلوچستان قتل گاہوں میں تبدیل ہو چکے ہیں‘ وی آئی پی آمد و رفت پر روٹ لگنے سے پاکستان میں سینکڑوں مریض مع حاملہ خواتین رکی ہوئی ٹریفک میں مر چکے ہیں۔
اب تو زندہ رہنے کا یہ بنیادی فارمولا ہر شخص کو معلوم ہے کہ گھر میں گھس آنے والا ڈاکو ہو یا سرراہِ موبائل چھیننے والا‘ یا کار لے جانےوالا‘ مزاحمت نہیں کرنی ورنہ جان چلی جائیگی۔ اس حوالے سے پاکستان پورے علاقے میں خواہ جنوبی ایشیا ہے یا مشرقِ وسطیٰ‘ یا وسط ایشیا‘ سب سے زیادہ غیرمحفوظ ہے۔ اب عزت کی طرف آئیے۔ پولیس والے سے لے کر پٹواری تک‘ سیکشن افسر سے لے کر دکاندار تک‘ ہر شخص جس طرح دوسرے کو مخاطب ہوتا ہے اور جس طرح اوئے کہتا ہے‘ عزت ہی عزت رہ جاتی ہے‘ باقی سب کچھ اڑ جاتا ہے۔ پاکستان میں جس طرح راہ چلتی اور شاپنگ کرتی خواتین کو گھورا اور مسلسل گھورا جاتا ہے اور جس طرح ان کا جائزہ لیا جاتا ہے‘ اس کا غیرمسلم اور بہت سے مسلمان ملکوں میں بھی کوئی تصور نہیں۔ اجتماعی زیادتی کے واقعات عام ہیں‘ کسی مجرم کو سزا نہیں ملتی‘ ونی‘ سوارہ اور کاروکاری کرنےوالے جرگوں کے سربراہ وزیر‘ وزراءخود ہیں! رہا مال…. تو گھروں کے اندر مال اسباب ہو یا باہر چلنے والی گاڑیاں‘ سب کچھ دوسروں کے رحم و کرم پر ہے۔ جو ذرا سی بھی استطاعت رکھتا ہے‘ پرائیویٹ گارڈ رکھنے پر مجبور ہے۔
نوجوانوں کیلئے سب سے زیادہ ہولناک حقیقت میرٹ کا قتل ہے‘ میرٹ کے حوالے سے انگریز جو سب سے زیادہ مضبوط ادارے چھوڑ گئے تھے‘ وہ مرکزی اور صوبائی پبلک سروس کمیشن تھے لیکن انکی جو درگت بنائی گئی ہے‘ سب کے سامنے ہے۔ صوبائی پبلک سروس کمیشن کے ارکان میں ریٹائرڈ پولیس افسروں کی بہتات ہے‘ جن کی وفاداریاں سروس کے دوران خاندانوں سے وابستہ رہیں‘ یہی حال مرکز میں ہے‘ جو خود میرٹ پر نہیں آئے۔ وہ دوسروں کو میرٹ پر کیا رکھیں گے۔ حالت یہ ہے کہ میرٹ کے قتل پر ایک آنسو تک کوئی نہیں بہاتا۔ آج تک پیپلز پارٹی نے ضیاءالحق کو اور نون لیگ نے پرویز مشرف کو میرٹ قتل کرکے آرمی چیف بنانے پر قوم سے معافی نہیں مانگی۔ افسر شاہی کے بدعنوان ارکان کو اس وقت تک قومی خزانہ چاٹنے کی اجازت دی جا رہی ہے‘ جب تک کہ وہ قبر میں نہ اتر جائیں۔ بیرون ملک تعیناتیاں سو فیصد سفارش پر ہو رہی ہیں۔
بہت کم لوگوں کو اس بات کا ادراک ہے کہ بھارت نے 1951ءمیں زرعی اصلاحات (حقیقی معنوں میں) نافذ کرکے موروثی سیاست کا خاتمہ کر دیا۔ پاکستان نے بَس مِس کردی۔ بظاہر ناممکن لگتا ہے کہ بلوچستان کے سرداری نظام اور باقی ملک پر مسلط جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ ہو سکے‘ بھارت کے مقابلے میں ہمارے ادارے کمزور تو کیا‘ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ سینٹ کے حالیہ الیکشن میں جس طرح کھلم کھلا نیلامی ہوئی اور اربوں روپوں کی سودا بازی ہوئی‘ اس پر الیکشن کمیشن کی بے حسی پر جتنا ماتم کیا جائے‘ کم ہے۔ اسکے مقابلے میں بھارت کے الیکشن کمیشن کی طاقت کا اندازہ لگائیے کہ وزراءاپنی انتخابی مہم کیلئے سرکاری ٹرانسپورٹ استعمال کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔
سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان حکومت بنا پائے گا؟ کیا وہ فیوڈلزم‘ برادری‘ فرقہ واریت اور لسانیت کی رکاوٹیں عبور کر سکے گا؟ اور اگر وہ حکومت بنا لیتا ہے تو کیا حقیقی تبدیلی لا سکے گا؟
منہ زور ایجنسیاں‘
بد عنوان سست الوجود نوکر شاہی‘
تندخو عساکر‘
ٹیکس دینے سے صاف انکار کرنیوالے تاجر‘
عوام کو تقسیم در تقسیم کرنیوالی چھوٹی چھوٹی شکست خوردہ مذہبی جماعتیں‘
کئی دہائیوں سے بے عزتی برداشت کرتا فارن آفس‘
سرمایہ داروں کے جوتے پالش کرتی وزارت خزانہ‘
عوام کے حقیقی مسائل سے یکسر بے خبر پلاننگ کمیشن اور سب سے بڑھ کر اقربا پروری اور کرپشن میں ڈوبی ہوئی صوبائی حکومتیں…. کیا عمران خان ان سب کو لگام ڈال سکے گا؟ اگر نہ ڈال سکا تو عوام فراق گورکھپوری کا یہ شعر رو رو کر پڑھیں گے….
تو پھر کیا عشق دنیا میں کہیں کا بھی نہ رہ جائے
زمانے سے لڑائی مول لے‘ تجھ سے برا بھی ہو!
دنیا امید پر قائم ہے‘ پاکستان کے نوجوان تحریک انصاف سے اپنی امیدیں وابستہ کئے بیٹھے ہیں‘ ان میں ایسے حقیقت پسند بھی ہیں کہ برملا کہتے ہیں کہ چلو‘ زیادہ نہیں تو جو دعویٰ عمران خان کر رہا ہے‘ اگر اس کا پچیس فیصد بھی عملاً کر دکھایا تو یہ ایک برا آغاز نہیں ہو گا!
لیکن یہ فرض کرلینا کہ تحریک انصاف الیکشن میں اس قدر کامیابی حاصل کرلے گی کہ حکومت بنا سکے دراصل گاڑی کو گھوڑے کے آگے جوتنے کے مترادف ہے۔ ….ع
ہزاروں لغزشیں باقی ہیں منہ تک جام آنے تک
امکانات کا پورا دائرہ گھومنے کے بعد سوال وہیں کا وہیں ہے‘ اگر عمران خان اقتدار میں نہ آسکا تو پھر….؟ تو پھر کیا پاکستانی عوام کی قسمت میں تبدیلی نہیں ہو گی؟؟