تم
میری وہ نظم ہو
جسے میں لکھتا رہتا ہوں
جب تم مجھے
مشکل سے بھی یاد نہیں آتی
تم
میرا وہ جام ہو
جو میں پیتا رہتا ہوں
اس وقت کو یاد کر کے
جب ہم
الگ، الگ میزوں پہ بیٹھے
پی رہے ہوتے تھے
تم
میرا کچنار کا وہ پھول ہو
جسے میں نے تمہارے بالوں میں
لگانے کا سوچا تھا
جب میں
کچنار کے پھولوں پہ لیٹا
کچنار کے پھول کو لیے
تمہیں سوچ رہا تھا
بہت عرصے سے
پنکچر زدہ سائیکل
کچنار کے اس درخت کے ساتھ
لیٹی ہوئی ہے
جس کے نیچے شیلے کو پڑھتے ہوئے
میں نے پہلی دفعہ
کسی سے محبت کرنے کا سوچا تھا
اور تم
کروشیے کے رومال میں لپٹی
نیاز کی پلیٹ لیے
کچنار کے ننگے پھولوں پہ ننگے پاوں چلتی
ماں کے کمرے میں گئی تھی
صبح کی پہلی
تمباکو نوشی کے لیے
میں نے تکیے کے نیچے ہاتھ ڈالا
تو
سگریٹ کی ڈبیا
نظم
جام
کچنار کا درخت
پکنچر زدہ سائیکل
میں
اور تم
کچھ بھی کہیں بھی نہیں تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...