برصغیر کے بہت کم علاقے ہیں جو انگریز سامراج نے لڑکر حاصل کئے۔ بیشتر پر معاہدوں اور سازشوں کے ذریعے قبضہ کیا گیا۔ لیکن دیس پنجاب کے معاملے میں ایسا نہیں ہوا۔ سازشیں’ کہ وہ تو برطانوی سامراج کا طرہءِ امتیاز تھیں’ پنجاب میں بھی ہوئیں لیکن پنجاب میں فقط سازشوں سے کام نہ چل سکا اور برصغیر کے دیگر علاقوں کے برعکس نہ صرف یہ کہ دیس پنجاب پر قبضہ کرنے کی خاطر انگریزوں کو لڑنا پڑا بلکہ پنجاب میں انہیں زبردست مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑا اور پنجابی حریت پسندوں سے 10 بڑی لڑائیاں (01) مُدکی (02) فیروز شہر (03) بدووال (04) علی وال (05) سبھراواں (06) ملتان (07) رسول نگر (08) سعد اللہ پور (09) چیلیانوالہ (10) گجرات میں ہوئیں اور متعدد چھوٹی لڑائیوں میں اٹک اور جالندھر کی لڑائیاں زیادہ مشہور ہیں۔ یوں دیس پنجاب پر غاصبانہ قبضے کی خاطر انگریز سامراج کو پنجابی سرفروشوں سے کم و بیش 12 لڑائیاں لڑنا پڑیں۔ ان میں سے چیلیانوالہ کی لڑائی کو غیر پنجابی تاریخ دان سید سبط حسن نے برصغیر کی سب سے خوفناک لڑائی قرار دیا ہے۔ جس میں انگریز فوجی افسروں کی بہت بڑی تعداد ماری گئی۔
انگریزوں کیخلاف لڑی جانیوالی پنجابی حریت پسندوں کی ان لڑائیوں میں اگر دو ڈوگرہ جرنیل تیج سنگھ اور لال سنگھ خفیہ طور پر انگریزوں کے ساتھ نہ ملے ہوتے اور غداری اور سازش کے تحت عین اس وقت جب برطانوی فوج کو شکست ہورہی تھی‘ پسپائی اختیار نہ کرتے اور یوں سامنے نظر آتی پنجابی سرفروشوں کی فتح کو شکست میں نہ بدل دیتے تو انگریز سامراج کا دیس پنجاب پر قبضے کا خواب ‘ خواب ہی رہ جاتا۔ بعد ازاں انہی ڈوگرہ غداروں نے دیگر غداروں کیساتھ مل کر انگریزوں کو دیس پنجاب پر قبضہ کرنے میں مدد دی۔ برطانوی سامراج کو دیس پنجاب پر قبضے کی خاطر جب اس قدر سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تو نتیجے میں اس کی سوچ اور پالیسی یہ بنی کہ پنجابیوں کے قومیت کے جذبات کو کچلنا ضروری ہے۔ ورنہ یہاں ہمیشہ بغاوت کا خطرہ موجود رہے گا اور نابروں (باغیوں) کی اس سرزمین کو غلام بناکر رکھنا بہت مشکل ہوگا۔
کسی قوم میں قومیت کے جذبات کو ختم یا کم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ؛ اس قوم کے افراد کو تقسیم کیا جائے۔ ان میں جھگڑے اور پھوٹ ڈالی جائے۔ انہیں انکی زبان’ ادب اور ثقافتی ورثے سے محروم یا دور کیا جائے اور انکے ذہنوں میں انکی ثقافت ‘ تہذیب ‘ زبان اور لٹریچر کے بارے میں کمتری اور حقارت کے جذبات پیدا کئے جائیں۔ چنانچہ اس سکیم پر عمل درآمد شروع ہوا۔ سب سے پہلے یہ کیا گیا کہ یہاں صدیوں سے رائج پنجابی ذریعہ تعلیم کو ختم کردیاگیا۔ حالانکہ برصغیر کے باقی علاقوں میں انہی انگریز حاکموں نے وہاں کی مقامی زبانوں کو نہ صرف یہ کہ وہاں بطور ذریعہ تعلیم نافذ کیا بلکہ ان زبانوں کو ترقی اور فروغ دینے کی خاطر ہرطرح کی کوشش بھی کی۔ جبکہ پنجاب میں اس کے الٹ کام کیا گیا۔
پنجاب میں صدیوں سے جو پنجابی ذریعہ تعلیم چلی آرہی تھی اور جس کی بدولت یہ خطہ برطانوی سرکار کی خود اپنی رپورٹس کے مطابق برصغیر میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ تھا۔ یہاں پنجابی کو ختم کردیا گیا۔ جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ ہندوستان کی سب سے باعلم قوم تعلیم کے میدان میں وقتی طور پر بہت نچلے درجے پر چلی گئی۔ اگرچہ کچھ عرصے بعد یہ پھر اوپر آگئی تاہم اب یہاں اس معیار کی تعلیم نہیں رہ گئی تھی جس معیار کی انگریز سامراج کے آنے سے پہلے تھی اور جسے جی ڈبلیو لایٹنر (G.W.Leitner) نے اپنی کتاب History of Indigenous Education in the Punjab میں برطانوی معیار سے بلند تر قرار دیا ہے۔ برطانوی معیار سے بلند تر یوں کہ لایٹنر نے لکھا ہے کہ جس زبان (پنجابی) کو (انگریز حکومت کی طرف سے) سرکاری سطح پر غیر مہذب قرار دیا جارھا ہے (وہ اور اس میں دی جانے والی تعلیم اس درجہ اعلیٰ معیار کی ہے) کہ اسکی ابتدائی سطح کی تعلیم میں بھی برطانوی محکمہ تعلیم کے سیکھنے کیلئے بہت کچھ ہے۔
اگلے مرحلے میں انگریز مصنفوں سے پنجابی زبان کے خلاف کتابیں لکھوائی گئیں اور پنجابی کے ٹکڑے کرکے اس کے بولنے والوں میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش کی گئی جو بہت حد تک کامیاب رہی۔ اس سازش کا پودا جارج اے گریئرسن نے اپنی کتاب (Linguistic Survey of India) میں لگایا تھا اور یہ درفطنی چھوڑی تھی کہ پنجاب کے باقی حصوں میں تو پنجابی زبان ہے لیکن جنوبی پنجاب میں بولی جانیوالی زبان کا نام لہندا (مغربی پنجابی) ہے۔ 1962ء میں ڈکٹیٹر ایوب خان نے اسی لہندا (مغربی پنجابی) کو اپنے کارندوں کے ذریعے سرائیکی کا نام دیدیا۔ حالانکہ سرائیکی پنجاب کے جنوبی حصے کے کسی علاقے کی بولی نہیں بلکہ یہ سندھی کی 6 بولیوں (لاڑی’ لاسی’ وچولی’ سرائیکی’ تھریلی اور کچھکی) میں سے ایک بولی کا نام ھے۔ بعد میں آنیوالے ڈکٹیٹروں ضیاءالحق اور مشرف نے اسے پروان چڑھاکر پنجابیوں کو تقسیم کرنے کی اس سازش کو مکمل کیا۔
پنجابی کے بارے میں سرکاری سطح پر یہ پراپیگنڈہ بھی کیا گیا کہ یہ ایک غیر مہذب (BARBAROUS) زبان ھے۔ غیر مہذب ؟ جس زبان میں بابائے پنجابی بابا فرید’ باباگورونانک’ شاہ حسین’ سلطان باھو’ بلھے شاہ ’ خدائے سخن وارث شاہ ’ میاں محمد بخش’ سائیاں پشوری ’ استاد بردا پشوری ’ پیر مہر علی شاہ ’ خواجہ غلام فرید اور دیگر صوفیاء نے کلام لکھا۔ وہ غیر مہذب ھوسکتی ھے؟ تاھم برطانوی سامراج نے پنجابی زبان کے بارے میں تواتر سے یہ پراپیگنڈہ کیا۔ پگڑی جو پنجابی ثقافت کا نشان ھے اسے دربانوں اور ویٹروں کو پہنا کر ذلیل کرنے کی کوشش کی گئی۔ ان اقدامات کا مقصد پنجابیوں کو انکی زبان ’ ادب ’ ثقافت (وسیب) اور تہذیب سے دور کرنا بلکہ ان سے نفرت دلانا تھا۔ تاکہ انکے قومیت کے جذبات کو کچل کر انگریزوں کیخلاف بغاوت کے خطرے سے نمٹا جاسکے۔
بغاوت کے خطرے سے نمٹنے کی خاطر ھی پنجاب پر قبضے کے بعد کے برسوں کے دوران برطانوی سامراج نے صوبہ پنجاب کی حکومت کو کسی قاعدے ‘ قانون اور ضابطے کے تحت نہ رکھا۔ مقصود اس سے یہاں ھونے والی ایک کے بعد دوسری بغاوت اور شورش کو دبانا اور نابرروں (باغیوں ) کی اس سرزمین پر ھر قیمت پر انگریز راج کو قائم رکھنا تھا۔ یہ قوانین ' اگر انہیں قوانین کہا جاسکتا ھو تو اس قدر سخت اور ظالمانہ تھے کہ جب دھلی کو انتظامی طور پر صوبہ پنجاب میں شامل کیا گیا اور وھاں بھی انہی ظالمانہ قوانین کا نفاذ کیا گیا تو سرسید احمد خان دھلی چھوڑ کر علی گڑھ چلے گئے جہاں ان قوانین کا اطلاق نہیں ھوتا تھا۔
ان دنوں پورے برصغیر میں انگریزوں کی 12 ڈویژن فوج تھی۔ جس میں سے 8 ڈویژن برصغیر کے باقی تمام علاقوں میں جبکہ 4 ڈویژن صرف ایک صوبہ پنجاب میں متعین کئے گئے تھے۔ یہ اور دیگر اقدامات پنجابی حریت پسندوں کی طرف سے کی جانیوالی بغاوتوں کے سد باب کیلئے تھے جو وقفے وقفے سے پھوٹ پڑتی تہیں۔ اسی طور پر برطانوی سامراج نے پنجاب میں اسلحہ سازی کا کوئی کارخانہ نہیں لگایا۔ نہ ھی یہاں فوجی سازوسامان کے کوئی خاص ذخائر تھے۔ حالانکہ فوج میں اکثریت پنجابیوں کی تھی لیکن نہ تو یہاں اسلحہ سازی کا کوئی کارخانہ لگایا گیا اور نہ اس کے ذخائر رکھے گئے۔ اس لئے کہ انگریز سامراج یہ خطرہ مول نہیں لے سکتا تھا کہ پنجابی فوج یا غیر فوجی حریت پسندوں کے ھاتھ اسلحے کے ذخائر لگ جائیں اور ان کے علاقے میں اسلحہ سازی کا کوئی کارخانہ ھو جہاں سے بغاوت پھوٹ پڑنے کی صور ت میں سول یا فوجی باغیوں کو اسلحے کی سپلائی جاری رھے۔ اس لئے کہ پنجابی سرفروشوں کی طرف سے مسلح بغاوت کا خطرہ انگریزوں کے دیس پنجاب پر غاصبانہ قبضے کے آخری لمحے تک موجود رھا۔
بغاوت ھی کے خطرے سے نمٹنے کی خاطر پنجاب میں آبادی کے تناسب سے پولیس کی تعداد باقی صوبوں سے ھمیشہ زیادہ رکھی گئی۔ اسی بناء پر یہاں پولیس کو دیگر صوبوں کی پولیس کے مقابلے میں عملاً بہت زیادہ اختیارات دیدیئے گئے۔ پولیس کا مائنڈ سیٹ یہ بنادیاگیا کہ زور’ زبردستی غرض ھر حربہ استعمال کرکے اسے بہر صورت بغاوت کو روکنا ھے۔ اگرچہ انگریز سرکار اس کے باوجود اپنے مقصد میں پوری طرح کامیاب نہ ھو پائی۔ اس لئے کہ ان تمام اقدامات کے باوجود پنجابی حریت پسندوں کی طرف سے برطانوی حکومت کے خلاف باغیانہ کارروائیاں ھوتی رہیں اور برصغیر کے کسی بھی دوسرے علاقے کے مقابلے میں بہت زیادہ ھوئیں۔ جی ہاں ’ کسی بھی دوسرے علاقے کے مقابلے میں بہت زیادہ باغیانہ کارروائیاں ھوتی رہیں۔ چنانچہ جنگ ِ آزادی جو دھلی میں ستمبر 1857ء میں ختم ھوگئی تھی ‘ پنجاب میں یہ اپریل 1858ء تک جاری رھی۔
غدر پارٹی کی تشکیل پنجابی سرفروشوں نے کی۔ آزاد ھند فوج کی تشکیل جن تین افرد نے کی ان میں سے 1 سبھاش چندر بوس بنگالی ‘جبکہ 2 جنرل شاہ نواز اور جنرل موھن سنگھ پنجابی تھے۔ جبکہ اس میں 80 فیصد سے زائد تعداد پنجابی لڑاکوں کی تھی۔ جی ہاں 80 فیصد سے زائد پنجابی حریت پسند تھے۔ کیرتی کسان پارٹی ’ نوجوان سبھا ’ مجلس احرار ’ خاکسار تحریک اور کتنی ھی دیگر سامراج دشمن تنظیموں کا قیام پنجاب میں عمل میں آیا۔ اس دوران اگر کچھ وطن فروش زبردستی فوج میں بھرتیاں کرا رھے تھے تو پنجابی حریت پسند اس کے مقابلے میں بھرتی بند تحریک بھی چلا رھے تھے۔ ریشمی رومال تحریک کے روح رواں ڈسکہ ضلع سیالکوٹ کے مولانا عبیداللہ سندھی تھے۔سندھی کے لقب سے انہیں انکے شہر ڈسکہ کے لوگ پکارتے تھے۔ اس لئے کہ مولانا عبیداللہ کچھ عرصہ سندھ میں بھی رھے تھے۔ ورنہ وہ خالصتاً پنجابی جاٹ تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سندھ میں انہیں عبیداللہ پنجابی کے نام سے یاد کیا جاتا تھا جو درست تھا۔
تحریک خلافت ہو ’ ریشمی رومال تحریک ’ رولٹ ایکٹ کے خلاف تحریک یا کوئی اور برطانیہ مخالف تحریک ‘ پنجابی حریت پسند ان میں پیش پیش رہے۔ احمد خان کھرل ’ سارنگ ’ مراد فتیانہ ’ نظام لوھار ’ بھگت سنگھ ‘ اودھم سنگھ ’ مولانا ظفر علی خان ’ عبیداللہ سندھی ’ جنرل شاہ نواز ’ جنرل موھن سنگھ ’ کرنل احسان قادر اور ان جیسے دیگر آزادی کے متوالے یہیں سے اٹھتے رھے اور خوشی خوشی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے اور مسکرا کر پھانسی کے پھندے گلے میں ڈالتے رہے۔پنجابی سرفروشوں کی ان مسلسل باغیانہ کارروائیوں کی بناء پر پنجاب پولیس انگریز حکمرانوں کی طرف سے ہمیشہ دباؤ میں رہی اور امن و امان قائم رکھنے کی خاطر بر صغیر کے دوسرے صوبوں کی پولیس کے مقابلے میں زیادہ سے زیادہ تشدد پسند ہوتی چلی گئی اور اس کا یہ مائنڈ سیٹ تشدد والا تشکیل پاتا گیا۔ اس میں قصور پولیس کا نہیں تھا۔ اس لئے کہ پولیس تو حاکموں کے ہاتھ میں ہتھیار کی مانند ہوتی ہے۔ جو وہ کہیں ‘ اسے ماننا پڑتا ہے۔ پنجابیوں میں یہی نہیں کہ آزادی کے متوالے پیدا ہوئے جنہوں نے نہ صرف جیلیں بھی کاٹیں اور ہنس کر گلے میں پھانسی کا پھندے بھی ڈالے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ یہاں یہ کام برصغیر کے باقی تمام علاقوں سے بڑھ کر ہوئے اور پنجابی حریت پسندوں نے اپنی باغیانہ کارروائیوں اور حکومت مخالف تحریکوں کے ذریعے انگریز سرکار کا ناک میں دم کئے رکھا۔ جس کی وجہ سے پنجاب پولیس ہمیشہ دباؤ میں رہی اور ان باغیوں کی حریت پسندانہ کارروائیوں کو روکنے کی خاطر متشدد ہوتی چلی گئی۔
پنجابیوں کی انہی سرفروشانہ کارروائیوں کا انتقام لینے کی خاطر برطانوی سامراج نے آزادی دیتے وقت پنجاب کو تقسیم کردیا۔ وہی پنجاب خواجہ غلام فرید نے جسے ملک پنجاب کا نام دیا اور خواجہ نور محمد کو اسکا راجہ قرار دیا ہے۔ مذہب کے فرق کے باوجود پورے دیس پنجاب کا کلچر (وسیب) ایک ہے لیکن پنجاب کو تقسیم کردیا گیا۔ جس کے نتیجے میں پنجابیوں کو تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کے عذاب سے گذرنا پڑا۔ سرحد کے اِس طرف بھی پنجابی مارے گئے اور اُس طرف بھی پنجابی مارے گئے۔ یہ لوگ اپنی جانیں بچا کر بھاگ رہے تھے۔ 1950ء اور 1960ء کی دہائیوں میں آرام و سکون سے جہازوں میں بیٹھ کر نہیں آئے تھے۔ نہ ہی انہوں نے ”پودینے کے باغات“ کے بدلے میں یہاں آکر مربعے اور جائیدادیں لی تہیں۔ اس قتل عام میں 20 لاکھ سے زائد پنجابی مارے گئے۔ ان کے گھر جلائے گئے۔ تقسیم کے وقت 99 فیصد سے زائد فسادات پنجاب میں ہوئے۔ جبکہ باقی ایک فیصد سے کم دیگر علاقوں میں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ حقیقتاً خونی فسادات صرف پنجاب میں ہوئے اور باقی مقامات پر ایک فیصد سے بھی کم اور صرف علامتی طور پر ہوئے۔ یہ انگریز سامراج کا پنجابیوں سے انکی مزاحمت اور مسلسل بغاوتوں کا خوفناک انتقام تھا۔
(ازھر منیر کا یہ کالم 26 جنوری 2019 کو روزنامہ دنیا میں شائع ہوا تھا۔ ازھر منیر کالم نگار ' سینئر صحافی‘ شاعر اور ادیب ہیں)
“