ماہرین لسانیات نے دنیا کی زبانوں کو نو خاندانوں میں تقسیم کیا ہے ان میں انڈو یورپین سب سے بڑا خاندان ہے جس میں یورپ اور ایشیا کی مشہور زبانیں مثلاً سنسکرت، لاطینی ،فارسی، انگریزی، جرمن وغیرہ شامل ہیں۔ پنجابی خالص ہند آریائی شاخ سے تعلق رکھتی ہے یا اس میں دوسرے خاندانوں کے اجزا بھی ملتے ہیں ۔جب تک کسی ملک کی تاریخ پیش نظر نہ ہو، یہ جائزہ لینا محال ہے۔ رگ وید کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ آریاؤں کی آمد سے قبل سپت سندھوُ (پاکستان) میں کچھ اور قومیں آباد تھیں ، جنکے لئے ویدوں میں داس، اشورا، نشادا، پشاچہ اور راکھشش وغیرہ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔ یہ بھی ہمیں بتایا گیا ہے کہ وہ عجیب زبان بولتے تھے۔ انکے رسم و رواج آریوں سے قطعا مختلف تھے۔ وہ قربانی نہیں دیتے تھے اور نہ دیوتاؤں کی پرستش ہی کرتے تھے ۔ گذشتہ چالیس پچاس برس میں ہڑپہ، موہنجودارو، کوٹ ڈیجی وغیرہ میں جو کھدائیاں ہوئی ہیں ان سے بھی اس نظریہ کو تقویت ملی ہے کہ آریاؤں کی آمد سے پیشتر یہاں کچھ اور قومیں آباد تھیں۔ اکثر اصحاب کاخیال ہے کہ اس تہذیب کے بانی دراوڑ یا انکے پیشرو تھے۔ بہرحال یہ محض قیاس آرائی ہے۔ چار پانچ ہزار سال قدیم تہذیب کے متعلق بیک جنبش قلم فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ ڈاکڑ رادھا کمود مُکر جی اپنی کتاب ( Indus Civilization) میں اس مسئلہ پر خیال آرائی کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس علاقہ سے دستیاب ہونے والی کھوپڑیوں کا مطالعہ بے حد ضروری ہے۔ ہندوپاک برصغیر میں موہنجودارو ( سندھ) سیالکوٹ (پنجاب) نل( بلوچستان) بیانہ(آگرہ)تِینولی (جنوبی ہندوستان) وغیرہ مقامات سے معدودے چند کھوپڑیاں ملی ہیں۔ سیتارام کوہلی کے بیان کے مطابق موہنجودارو سے پندرہ کھوپڑیاں ملی ہیں۔ جو چار مختلف اقسام ٍ ظاہر کرتی ہیں۔ پہلی قسم میں ایسی کھوپڑیاں ہیں جو عراق عرب کی دریافت شدہ کھوپڑیوں سے مشابہت رکھتی ہیں،۔ اسکے علاوہ تینولی ( جنوبی ہندوستان) میں پائی جانے والی کھوپڑیوں اور لنکا کے ویداہا لوگوں کی کھوپڑیوں کے ساتھ بھی کسی حد تک ملتی ہیں۔دوسری قسم میں 6 کھوپڑیاں ہیں ، یہ بھی پہلی قسم کی مانند ہیں۔ لیکن ان میں پہلی قسم کی نسبت دماغی سختی کم معلوم ہوتی ہے، یہ ان سے بہت مشابہت رکھتی ہیں جو ائنا ( ترکستان) اور سیالکوٹ سے ملی ہیں۔ تیسری قسم منگولوالپائن ہے جسکا صرف ایک نمونہ ملا ہے۔ چوتھی قسم میں چار مختلف نوع کی کھوپڑیاں ہیں، جنہیں الپائن قسم سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ تاہم ڈاکڑ مکر جی نے ان کھوپڑیوں کے مطالعہ سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ہمارے ملک میں سب سے پہلے حبشی ( نیگریٹو )نسل کے لوگ وارد ہوئے تھے ۔ان ہی لوگوں نے یہاں کمان ایجاد کی تھی ، ان کے بعد پروٹوآسٹرلائٹو نسل کے لوگ آئے۔آج سے نصف صدی پیشتر یہ نظریہ عام تھا کہ یہ لوگ آسڑیلیا سے ہندوستان میں آئے تھے یا جرمن سکالر شمڈٹ کے قول کے مطابق نیوگنی سے آئے تھے۔ لیکن جدید تحقیقات کی رو سے یہ نسل فلسطین کے قرب وجوار سے چلی تھے۔ اس نسل کے لوگ پنجاب سے لیکر نیوزی لینڈ اور مڈغاسکر سے ایسٹرآئلینڈ تک پھیلی ہوئی ہے۔ کول، بھیل، سنتھال وغیرہ قومیں اس نسل سے متعلق ہیں اور مُنڈا خاندان کی زبانیں بولتے ہیں۔ انکے بعد شمال مغربی راستوں کے ذریعہ دراوڑ نسل کے لوگ برصغیر ہندوپاک میں وارد ہوئے اور اپنے ہمراہ عراق و عرب، ایشیائے کوچک وغیرہ علاقوں کا تہذیب و تمدن لائے۔ سکلیڑ وغیرہ عالموں نے یہ بھی نظریہ پیش کیا ہے کہ شمال مغربی راستوں کی بجائے یہ پہلے جنوبی ہندوستان میں پہنچے تھے، اور پھر تمام ہندوستان پر چھا گئے۔ انکا خیال ہے کہ زمانہ ما قبل از تاریخ میں بحیرۂ عرب کی جگہ خشکی تھی، جو افریقہ سے ملی ہوئی تھی اور اس علاقہ کا نام "لیموریا" تھا، لیکن یہ نظریہ اب جھٹلایا جا چکا ہے اور یہی تسلیم کیا جا چکا ہے کہ دراوڑ بلوچستان سے ہوتے ہوئے ہندوستان میں آئے تھے کیونکہ بلوچستان کے کچھ علاقوں میں براہوئی نام کی ایک ایسی زبان بولی جاتی ہے جو دراوڑی خاندان سے تعلق رکھتی ہے ، صرف سر رابرٹ رِزمے نے اپنی کتاب "ہندوستان کے باشندے" میں تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ کہ کول ، بھیل اور دراوڑ ایک ہی نسل سے ہیں ۔ ڈاکٹر مُکر جی کی تحقیقات کو ٹھیک ماناہے ،
مندرجہ بالا مختلف نسلوں کی آمد کے زمانے کا تعین نہیں کیا جاسکتا۔ بہر حال آج سے چار ہزار سال پیشتر آریہ یہاں پہنچ چکے تھے اور اگر ہم "ہندو ہسٹری" مصنف اکشوئے کمار مزمدار کی بات مان لیں تو آریوں نے 2100 ق م تک مشرقی افغانستان، کشمیر اور پنجاب وغیرہ پر قبضہ کر لیا تھا۔ آریوں کی جنم بھومی کے بارے میں شدید تر اختلافات ہیں، مثلا ً ویدوں میں چند ایک علاقوں کے اشارے ملتے ہیں، لیکن ان مقامات کو تعین کرنے میں اختلافات ہیں مثلا ً ایک جگہ "پری روپا" کا ذکر آیا ہے، ایک مصنف نے اسے یورپ قرار دیا ہے لیکن اسکے برعکس سیتارام کوہلی اسے ہڑپہ سے تعبیر کرتے ہیں اسی طرح ایک گروہ ایسا ہے سکنڈے نیویا کے علاقوں کو آریوں کا ٹھکانہ قرار دیتا ہے اس کے برعکس "رگ ویدک انڈیا" کے مصنف نے اپنا زور قلم اس پر صرف کر دیا ہے کہ آریہ لوگ ہندوستان کے اصل باشندے تھے اور کہیں باہر سے نہیں آئے تھے۔ سب سے دل لگتی بات ڈاکٹر مکرجی نے کی ہے کہ اگر آریہ باہر سے نہ آئے ہوتے تو وہ یہاں کے باشندگان کو داس، راکھشش وغیرہ ناموں سے کیوں پکارتے اور ان پر کڑی تنقید نہ کرتے۔ بہر حال رگ وید کو احاطہ تحریر میں لانے سے پیشتر آریہ لوگ کُبھ (کابل) سواستو (سوات) کرمُو (کُرم) گومتی ( گومل) سندھو (سندھ) سوسا(سوہان) وتِستا (جہلم) اسِکنی ( چناب) پُرشی (راوی) وِپاش (بیاس) شندری(ستلج) اور گنگا جمنا کی وادیوں میں قدم جما چکے تھے۔ اگر ہم کوشش کریں تو ویدوں اور پرانوں سے بعد کی تاریخ بھی مرتب کر سکتے ہیں۔ سب سے آخری پران وشنو پران ہے ، جس میں رام چندر جی ، انکے بھائی، بھرت اور انکے معاصرین کا ذکر ملتا ہے۔اسکے بعد ہندوستان کی تاریخ خاموش ہو جاتی ۔ اسکی شاید وجہ یہ کہ وہ علاقے جو اب پاکستان کہلاتے ہیں ، ایرانی سلطنت میں شامل کرلئے گئے تھے۔ ایرانی کتب تواریخ کے مطابق ہنی منشی خاندان کے ایرانی بادشاہ سیروش ( 530 ق م تا 558 ق م ) نے سب سے پہلے ادھر کا رخ کیا اور بہت سے علاقے کو زیرنگین کر لیا۔ اسکے بعد دارا ( 486 ق م تا 522 ق م) نے 517 ق م میں سکائیلاکس نامی ایک یونانی کو دریائے سندھ کی راہگذر دریافت کرنے کیلئے بھیجا۔ ہمیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اس وقت سپت سندھو (پاکستان) دو حصوں میں منقسم تھا اور دریائے سندھ کے مغربی کنارے یشکلاوتی اور مشرقی کنارے پر ٹیکسلا نام کی حکومتیں تھیں۔ ایرانیوں کے فورا ً بعد یونانی سکندراعظم (536 ق م) کی سرکردگی میں اس خطہ پر چڑھ دوڑتے ہیں اور 100 ء تک کسی نہ کسی رنگ میں یہاں مسلط رہتے ہیں ۔ اسی زمانہ میں یہاں کے باشندوں نے آرامی، کھروشتی اور یونانی رسم الخطوں سے آگاہی حاصل کی۔ یونانیوں کے بعد ساکا، پارتھین اور کشن قومیں ادھر کا رخ کرتی ہیں۔ سمدرگپت 320ء نے جب انکھیں بند کی ہیں تو تمام غیر ملکی قومیں اپنا اقتدار کھو چکی تھیں، اسی خاندان کے بادشاہ سکندگپت کی موت پر ایک دفعہ پھر ایک غیر ملکی قوم ہمارے ملک پر چڑھ آئی اور اس نے ہُن سرداروں تورمان اور مہرگل کی سرکردگی میں بعض علاقہ پر قبضہ کر لیا۔ اس مضمون میں اتنی گنجائش نہیں کہ اُن تمام حملہ آوروں کا ذکر بالتفصیل کیا جائے جو یکے بعد دیگرے یہاں وارد ہوئے اور اپنے کچھ نشانات چھوڑگئے۔ لیکن مختصرذکر کئے بغیر چارہ بھی نہیں ہے، کیونکہ جب تک ہم یہ تعین نہ کرلیں گے کہ کون اور کس نسل سے تعلق رکھنے والے لوگ یہاں آئے پنجابی زبان پر اُن کے اثر کی نشان دہی کرنا امر محال ہے ۔ اب مسلمانوں کی آمد کا مختصرا ً ذکر کر کے زبان کی طرف آتے ہیں۔ 720ء میں محمدبن قاسم اپنے لشکر کے ہمراہ سندھ میں وارد ہوا اسکے بعد 830ء میں مسلمانوں نے کابل فتح کیا تو اس جانب سے راستہ ِکھل گئے اور بزرگان دین اسلام کی تبلیغ کے لئے جوق در جوق آنے لگے۔ 1021ء میں محمود غزنوی نے پنجاب فتح کیا ۔ 1526ء میں مغل آئے اور متحدہ ہندوستان کے کونے کونے میں اسلام کی روشنی پھیل گئی ۔
موجودہ حالات میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ آریوں کی آمد سے قبل ہمارے علاقہ کی کون سی زبان تھی۔ کیونکہ ہڑپہ اور موہن جودارو سے دریافت شدہ تحریریں ابھی تک نہیں پڑھیں جاسکیں۔ لیکن مندرجہ بالا تاریخ کی روشنی میں ہم یہ نظریہ ضرور قائم کر سکتے ہیں کہ جو بھی زبان یہاں بولی جاتی تھی اس پر علی الترتیب مُنڈا، دراوڑ، سنسکرت، سیتھین، پہلوی، یونانی، پراکرتیں ، عربی ، فارسی، پشتو اور انگریزی زبانیں اثر انداز ہوئیں پہلی دو زبانیں بذاتِ خود علحٰدہ علحٰدہ خاندانوں کی سر چشمہ ہیں ۔ انکی زبانوں کا ہمارا مطالعہ نفی کے برابر ہے ۔ اس لئے ہم ان میں سے کسی کو بنیاد مان کر بات نہیں کرسکتے ۔ ان کے بعد سنسکرت زبان ہے ۔ اس پر علمائے لسانیات نے کافی تحقیق کی ہے۔ اس لئے اسی زبان کو پیش نظر رکھ کر پنجابی زبان کے متعلق کوئی واضح بات کی جا سکتی ہے۔ ڈاکٹر سیتی کمار چیٹرجی نے سنسکرت زبان کو تین ادوار میں تقسیم کیا ہے۔
پہلا دور 1500 ق م تا 600 ق م ہے ان کا خیال ہے کہ اسی دور میں چاروں وید لکھے گئے تھے اور سنسکرت زبان بولنے والے مقامی الفاظ کو اپنا چکے تھے، یہی وجہ ہے کہ ویدوں میں پھل، نیلا، بلق، دَل (خوبصورت) شام، پُوجنا وغیرہ الفاظ ملتے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ یہ تمام الفاظ تھوڑے سے ردو بدل کے ساتھ دراوڑ خاندانوں کی زبانوں میں بھی ملتے ہیں، دوسرا دور 400 ق م تا 1000 ء ہے اس دور کی سنسکرت میں متحدہ ہندوستان کی مقامی زبانوں کے الفاظ کی کثرت سے آمیزش پائی جاتی ہے ۔ اس لئے پاننی اور ورارُچی وغیرہ کو سنسکرت کی گرامر کا خیال آیا۔ تیسرے دور میں سنسکرت بالکل نابود ہو گئی۔ مسٹرگراؤر نے "انڈین انٹی کوائری" کے اپریل 1872ء کے شمارہ میں ہندی کے متعلق ایسے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مذکورہ بالا سنسکرت کے گرائمر نویسوں نے اس زبان میں غیر سنسکرتی الفاظ کو تین حصوں میں تقسیم کیا تھا
1۔ تدبھو یعنی جن کا اشتقاق سنسکرت سے ہو۔ چند الفاظ کی مثالیں دے کر واضح کیا جاتا ہے۔
سنسکرت |
اردو |
پنجابی |
نیپالی |
بنگالی |
سندھی |
ایکل |
اکیلا |
اکّلا |
اکیلا |
ایکلا |
|
کپس |
کپاس |
کپاہ |
کپاس |
کاپاس |
کپاہ |
کامپتے |
کانپنا |
کمبنا |
کامن |
کانپا |
کمبنا |
چرم |
چمڑا |
چمّ |
چمڑا |
چامڑا |
چم |
تتسم یعنی سنسکرت ایسے الفاظ جو دوسری زبانوں میں بھی ملتے ہیں، لیکن انکا سنسکرت سے کوئی تعلق نہیں دیسی یعنی وہ مقامی الفاظ جو سنسکرت میں شامل ہو گئے۔ اسکی مثالیں ڈاکٹر چیٹرجی کے حوالے سے اوپر دی گئی ہیں۔ یہاں پہنچ کر ایک دو سوال ذہن میں اُبھرتے ہیں :۔
جن زبانوں کا (پنجابی، ہندی ، سندھی، بنگالی وغیرہ ) ہند آریائی خاندان کی بولیاں کہا جاتا ہے، ان کی عمر کیا ہے؟
اگر آریوں کی آمد سے قبل یہاں کے باشندوں کی زبان سنسکرت نہیں تھی تو اس میں تبدیلی کا طریق کار کیا تھا؟
وہ کون سی ایسی طاقتور زبان تھی جس سے سنسکرت ایسی جامع و مکمل زبان متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی؟
جان بیمز کا خیال ہے کہ یہ زبانیں (پنجابی، ہندی وغیرہ) بہت قدیمی ہیں اور ان میں وہ عناصر بھی شامل ہیں جو کلاسکی سنسکرت میں نہیں ملتے۔ جے میور نے اپنی کتاب " اورجنل سنسکرت ٹیکسٹ" میں بہت سی مثالیں دی ہیں ان میں پنجابی الفاظ کے اضافہ کے ساتھ دیکھیں:۔
سنسکرت |
اردو |
پنجابی |
پتر سمندھی |
باپ |
پیو |
اُدو |
پیٹ |
ڈھڈ |
مُجتی |
ڈوبنا |
ڈبنا |
اس طرح ڈاکٹر ارنسٹ ٹرمپ نے اپنی کتاب "سندھی زبان کی گرامر" میں اس بات کودُہرایا ہے کہ اسمیں غیر آریائی عناصر بہت ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ شاید ایک دن ایسا آجائے جب ان عناصر کا پتہ لگا لیا جائے کہ ایک آریائی زبان (سندھی) میں یہ عناصر کہاں سے آ گئے۔ خیال ہے کہ یہ ان قدیم لوگوں کی زبانوں سے ہوں گے جسکا کھوج لگانا امر محال ہے ۔ لیکن قیاس ہے کہ وہ سِتھین (جنہیں آجکل دراوڑ کہا جاتا ہے) زبانوں سے ہو گا جنکا اب نام ونشان نہیں ملتا۔ اور وہ آریوں کی امد سے قبل تمام ہندوستان پر چھائے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر ٹرمپ کا خیال تھاکہ تین چوتھائی سندھی الفاظ جو ٹ ، ٹھ، ڈ ،ڈھ سے شروع ہوتے ہیں وہ دراوڑوں کی یاد گار ہیں۔ اسی طرح ڈاکٹر وِلسن نے مرہٹی زبان کی لغات کے دوسرے ایڈیشن کے دیباچہ میں اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ مرہٹی زبان میں ستھین الفاظ ہئیت کی بجائے صوتی اعتبار سے زیادہ قریب ہیں۔
مندرجہ بالا آرا کے ساتھ ساتھ ہم پروفیسرلیسن کی رائے کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ وہ فرماتے ہیں کہ بہت سے الفاظ جو ہمیں (کالیداس وغیرہ کے ہاں) پراکرت کے معلوم ہوتے ہیں کوشش سے انکا منبع سنسکرت میں مل سکتا ہے، تاہم یہ ماننا ہو گا کہ کچھ الفاظ مقامی زبانوں سے بھی سنسکرت میں وَر آئے ہیں۔ لیکن وہ کم تعداد میں ہیں۔ان کا خیال ہے کہ مسخ شدہ سنسکرت کے دو خاندان ہیں، ایک بہت قدیم یعنی پالی اور سنسکرت ڈراموں کی پراکرت اور دوسرا وہ خاندان جو ہمارے دیکھتے دیکھتے، ہندی، پنجابی، سندھی وغیرہ میں بٹ گیا۔ اور اپنے منبع سے اسکا تعلق بالکل منقطع ہو گیا۔ پالی وغیرہ سنسکرت کی بیٹیاں ہیں، اور پنجابی وغیرہ نواسیاں۔ عبدالغفور قریشی نے اپنی کتاب "پنجابی زبان دا ادب تے تاریخ" میں مندرجہ ذیل مثالیں دے کر یہ واضع کیا ہے کہ پالی اور پنجابی آپس میں قریب ہیں۔
پنجابی |
پالی |
اردو ہندی |
سِنگ |
سِنگ |
سِینگ |
ڈی |
دی |
بھی |
سَٹھ |
سَٹھ |
ساٹھ |
ڈِٹھا |
ڈِٹھا |
دیکھا |
سِپی |
سِپی |
سیپ |
مندرجہ بالا طویل بحث سے یہ دو واضع نتائج اخذ کئے جا سکتے ہیں:
ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ پنجاب کی قدیم تریں زبان کون سی ہے کیونکہ ہڑپہ وغیرہ سے دستیاب شدہ تحریریں نہیں پڑھی جاسکیں۔
پنجابی ہند آریائی زبان ہے اور ہندی سندھی وغیرہ اسکی بہنیں ہیں۔ اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ کون سے ایسے الفاظ ہیں جو پنجابی زبان سے ملتے ہیں جن کا تعلق ہند آریائی خاندانوں سے نہیں ہے۔ تاریخی اعتبار سے کوئی بھیل سنتھال قوموں کو یہاں کے قدیمی باشندے سمجھا جاتا ہے اور ان کی زبانوں کو منڈا خاندان کی زبانیں کہا جاتا ہے۔
ان کے بعددراوڑ خاندان یعنی تامل تلیگو ملیالم وغیرہ کی باری آتی ہے، ان زبانوں میں کثرت سے الفاظ ملتے ہیں جو لہجہ کی خفیف سی تبدیلی کے بعد پنجابی زبان میں مستعمل ہیں۔ یہاں انہی الفاظ کا ذکر کریں گے جن کے متعلق ڈاکٹر کالڈویل نے اپنی کتاب "دراوڑ زبانوں کی گرامر" یا دوسرے محققین واضح کر چکے ہیں کہ یہ اصل دراوڑ الفاظ ہیں اور ان کا سنسکرت سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ پنَو ( پنا۔ سونا) وَلا (وَلنا- گھیرنا) ولگ (وَل، خوبصورت) کنڈ ( کُھڈ، سوراخ) کُو(کُونا۔ بولنا) پیٹی (صندوق) پڑ (بوڑھا) جیسے پنجابی میں بولتے ہیں ( پڑ پیا ساک گیا ) وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔۔ پُر لطف بات یہ ہے کہ دراوڑ زبانوں میں ان الفاظ کی تمام حالتیں (اسم، صفت، و مصدر وغیرہ) مستعمل ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے۔ اسکے بعد دراوڑ خاندان کی ایک دوسری زبان پراہوئی کے الفاظ ہیں جو پنجابی زبان میں اُنہی معانی میں مستعمل ہیں مثلا ً کَچھ (بغل) پنّی (پنڈلی) لتّر (جوتا) لوڑ (ضرورت) لِدھ (مویشی کی غلاظت) چھلا (انگوٹھی) تھوم (لہسن) جوار (مکئی) تُوس (بدبو) وغیرہ ۔ اگر کوشش کی جائے تو ہمیں اور بہت سے الفاظ ایسے مل جائیں جو دونوں زبانوں میں مستعمل ہوں اور شایددونوں زبانوں کی گرامر میں بھی مشابہت مل جائے ۔ مندرجہ بالا مثالوں سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ آریوں کی آمد سے پہلے یہاں دراوڑ قومیں آباد تھیں ۔ ان میں سے کچھ لوگ تو طاقتورحریف سے جان بچا کر جنوبی ہندوستان کی طرف چلے گئے جو باقی بچے وہ آریوں میں گھل مل گئے اور حملہ آوروں کی زبان اختیار کر لی، لیکن اپنی زبان کو بھی نہ بُھلا سکے اور انہیں کے نشانات اب الفاظ کی صورت میں ہم تک پہنچے ہیں ۔ پہلوی زبان کے الفاظ جو پنجابی زبان میں مستعمل ہیں ، واج (واجک۔ آواز) دت دات (داتر۔ تحفہ) وا (وات۔ ہوا) سونہہ (سوکت۔ سم) ان کے علاوہ موری اور موچنا بھی بعینہ پہلوی میں مستعمل تھے، لیکن اس نظریہ سے اختلاف ہو سکتاہے کہ پنجابی زبان سنسکرت اور پہلوی کی درمیانی کڑی ہے۔ خیال یہی ہے کہ یہ الفاظ ان دنوں کی یادگار ہیں جب ایرانی بادشاہوں نے پاکستان یعنی شمالی ہندوستان کے کچھ علاقے پر قنضہ کر لیا تھا۔
اب پشتو باقی رہ گئی ہے۔ عبدالغفور قریشی صاحب کی تحقیق کے مطابق ماڑی (بالائی منزل) پَوڑی (سِیڑھی) جندرا (قفل) گواہنڈی (پڑوسی) وغیرہ الفاظ پنجابی زبان میں پشتو سے لئے گئے ہیں۔ قریشی صاحب کی یہ تحقیق بھی قابل غور ہے کہ مرکزی پنجاب میں جو گلاب کو غلاب، لکھنا کو لِخنا یعنی گ کی بجائے ہم غ اور کھ کی بجائے خ بولتے ہیں، یہ افغان فارسی کے لہجہ کا اثر ہے۔ یہاں پنجابی زبان کے بقیہ اجزاء یعنی فارسی عربی اور انگریزی الفاظ کے متعلق اشارہ کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ان زباانوں کے الفاظ کہیں کہیں اپنے تغیر شدہ اشکال کے باوجود آسانی سے پہچانے جا سکتے ہیں۔
( ایہہ مضمون محمد آصف صاحب دے مضمون دے حوالے نال لکھیا گیا ہے، جیہڑا کہ 27 ستمبر 1959 وِچّ روزنامہ امروز لاہور وِچّ چَھپیا سی)