(Last Updated On: )
کہی ہیر دی کرے تعریف شاعر
متھے چمک دا حسن مہتاب دا جی
فردوسی نے جب یہ شعر کہا:
منش گر دہ امِ رستمِ داستاں
دگر نہ پی بود در سیستاں
تو ایک بڑی حقیقت کا انکشاف کیا ۔رستم کیا تھا؟ سیستاں کا رہنے والا ایک فردتھاجسے فردوسی کی رزمیہ نگاری نے زندہ جاوید کرادر بنا دیا۔ یہی حیثیت ہیر رانجھا کی ہے ۔ہیر اور رانجھا ایک سچے واقعہ کے دو کردار تھے یہ واقعہ بڑا مختصر سا واقعہ تھا جو مغل راج سے کچھ عرصہ پہلے ظہور میں آیا۔
ہیر جھنگ کے سیال خاندان کی لڑکی تھی جسے تخت ہزارے کے ایک نوجوان دھیدو سے محبت ہو گئی ۔ہیر کے ماں باپ نے بات کو دبانے کے لیے لڑکی کی شادی رنگ پور کے کھیڑا خاندان میں کر دی۔رانجھا جوگی بن کر آیا اور ہیر کو اغوا کر کے لے گیا۔گھر والوں نے بے عزتی سے بچنے کے لیے ہیر کو مار ڈالا ۔یہ رانجھے کی محبت کی شہادت تھی۔ہیر اور رانجھے کی محبت کے واقعہ کا چرچادیس میں ضرور تھا لیکن اس نوعیت کے کتنے اور واقعات اس وقت اس سر زمین میں ہوئے ہوں گے یا آج ظہور میں نہیں آتے ۔البتہ شاعر کے فن کارانہ قلم نے اس چھوٹے سے افسانے کے خط و خال کو اس طرح سنوارا اور اس پر وہ رنگ بھرے کہ یہ کہانی ایک مقامی گوشے سے نکل کر ایک وسیع افق پر چمکنے لگی۔ اب ہیر رانجھا کا باہمی عشق دو معمولی ہستیوں کے تعلقات کی داستان نہیں تھا جو روز مرہ دیکھنے میں آتی ہے بل کہ ابدی حقیقت بن گئی تھی۔اب ہیر اور رانجھے کی زندگی کے دکھ اور صدمے اور ان کی المناک موت دو خاندانوں کی باہمی رقابت اور بدعنوانی رسوم معاشرت کا نتیجہ نہیں تھی بل کہ عشق و محبت کے گراں قدر جذبے کی عظمت کا نشان تھی جسے عرف عام میں شہادت کہتے ہیں۔
خیال کیجئے کہ اصل واقعہ سے کوئی دو سو برس بعد ایک شاعر اس بھولے بسرے افسانے کو از سر نو تازہ کرتا ہے اور اس میں نئی زندگی کے رنگ بھرتا ہے۔بالکل اسی طرح جیسے فردوسی نے شاہنامے میں ایران کی قدیم تاریخ کی بوسیدہ ہڈیوں میں از سر نو جان ڈال دی ہے یا نظامی نے خسرو شیریں اور لیلیٰ مجنوں کے وقت کے آغوش میں سوئے ہوئے کرداروں کو بیدار کیا تھا۔
ہیر رانجھا کے کردار ہمارے سامنے اب بھی اسی طرح زندہ حرکت کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور دنیائے ادب کے ایک وسیع افق پر چلتے دکھائی دیتے ہیں اور ان کے قدم رومیو جیولیٹ ،شریں فرہاد اور وامق عذرا کے ساتھ اٹھتے ہیں۔ اب کیدو کا کردار ہمیں مختار اور یاگر کی یاد دلاتا ہے اور سہتی زبان ِ عصر کی ہم آہنگ دکھائی دیتی ہے ۔غرض وارث شاہ نے اپنے فنی کمال سے ان کرداروں کو ایک محدود دائرے سے نکال کر ایک ہمہ گیر حیثیت عطا کی ہے اور اب وہ صرف پنجابی شاعری یا پنجابی رومانوی ادب ہی کے عناصر نہیں بل کہ عالم گیر ادبی علامات بن گئے ہیں۔
ہیر رانجھا کا رومان پنجاب کے دوسرے کامیاب رومانوں سے قدرے الگ تھلگ ہے۔ فضل شاہ کے قصے ’’سوہنی مہینوال‘‘ اور ہاشم شاہ کی کتاب ’’سسی پنوں‘‘ کے مقابلے میں اس کی حیثیت ایک ڈرامے کی ہے جس میں کردار ایک سست رفتار داستان کے کردار نہیں بل کہ زندگی کے اسٹیج پر زندہ کرداروں کی طرح چلتے نظر آتے ہیں اور ہماری زندگی کی فضا میں سانس لیتے معلوم ہوتے ہیں۔ہم میں اور ان میں کوئی بھی مغائرت نہیں باقی رہتی ۔یہی وجہ ہے کہ ہیر رنجھا کو پڑھ کر پنجاب کی زندگی کا ایک صحیح نقشہ ہمارے سامنے آ جاتا ہے ۔اس میں اسی دیس کے لوگوں کے احساسات کی پوری ترجمانی پائی جاتی ہے۔
مقبل نے وارث شاہ سے کچھ پہلے ہیر رانجھے کا قصہ لکھا تھا اور اگر چہ دونوں کے یہاں افسانے کے عناصر بڑی حد تک ملتے جلتے ہیں تا ہم وارث شاہ کے ہاں جو ڈرامائی کیفیت ہے وہ مقبل میں مفقود ہے اور اس ڈرامائی کیفیت میں وارث شاہ نے لطیف سے لطیف جذبات کو ابھارنے کی کوشش کی ہے۔ یہ جذباتی فضا اگرچہ حالات کے ساتھ ساتھ بدلتی جاتی ہے تا ہم اس کے تسلسل میں کوئی فرق نہیں آتا اور اس اعتبار سے سارا قصہ ایک مکمل جذباتی تحریر معلوم ہوتا ہے۔
وارث شاہ کے یہاں جذبات کا تسلسل ہی نہیں بل کہ ان کی فراوانی بھی ہے اور اسی وجہ سے اس کا اثر ذہنوں پر نہیں بل کہ دلوں پر ہوتا ہے۔ہیر رانجھا کی زبان میں دوسرے پنجابی افسانوں کی زبان کے بجائے پنجاب کی ٹھیٹھ روز مرہ ہے جن میں پنجابیوں کے دل سانس لیتے محسوس ہوتے ہیں۔ان کے رسم و رواج ،ان کے عقیدے ،ان کی توہم پرستی ،ان کی دوستی اوردشمنی اور ان کی باہمی رقابتیں سب کی سب وارث شاہ کی زبان سے اُجاگر ہوتی ہیں۔اس کی زبان میں اتنا لوچ ہے کہ جو واقعہ یا مسئلہ بھی پیش آتا ہے۔ کتنا ہی ٹیڑھا کیوں نہ ہو ،نہایت آسانی سے افسانوی قالب میں ڈھل جاتا ہے۔
وارث شاہ کو زبان پر بے پناہ قدرت حاصل ہے اور وہ اس میں ایسی ساحری دکھاتا ہے کہ اس کا ہر لفظ اور ہر فقرہ ایک شعری طلسم بن جاتا ہے اور شعر کی طرح ابدی حقیقت کا مجسمہ نظر آنے لگتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وارث شاہ کے اکثر شعر اور مصرعے ضرب المثل کی حیثیت اختیارکر چکے ہیں۔
انگریزی میں شیکسپیئرکے ڈرامے ’’میکتھ‘‘‘ اور فارسی میں سعدی کی ’’گلستان‘‘ کا جو مرتبہ ہے وہی پنجابی زبان میں وارث شاہ کی ہیر رانجھا کا ہے۔یہ تینوں کتابیں اپنی اپنی زبان کی ضرب الامثال کا مجموعہ معلوم ہوتی ہیں۔مقبل کی طرح وارث شاہ بھی قریباً ہر فصل کے آخر میں کرداروں کے مکالمے کے اختتام پر ان کے خیالات اور تاثرات پر محاکمہ کرتا ہے۔یہ محاکمہ بالعموم ایک آدھ مصرعے تک محدود ہوتا ہے لیکن ہر محاکمہ شاعر کی زندگی کے تجربات کا نچوڑ ہوتا ہے ۔یہی فقرے ہیں جو زیادہ تر ضرب الامثال بن گئے ہیں اور ہیر رانجھا کی داستان عشق کے ساتھ ساتھ ہماری زبان کو بھی زندہ کو بھی کر گئے ہیں۔
ہر قوم میں شاعروں کی قدرو منزلت کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہے کہ یہ لوگ ان کی تہذیب و ثقافت کے امین ہوتے ہیں اور انھیں اپنی جدا گانہ حیثیت اور شناخت کا وسیلہ گردانتے ہیں ۔انگریز کی شناخت شیکسپیئر،جرمن کی گوئٹے،بنگالیوں کی ٹیگور اور نذرالسلام ،ایران کی سعدی ،ہندوستان کی کالیداس اور غالب۔اسی طرح پنجابیوں کی شناخت وارث شاہ سے ہوتی ہے۔
’’وارث شاہ کی ہیر ‘‘پنجابی ثقافت کی ایک آرٹ گیلری ہے جس میں رنگا رنگ تصاویر آویزاں ہیں۔یہ تصاویر اتنی نرم و نازک اور نستعلیق قسم کی نہ سہی لیکن خاصی نکھری ہوئی ،نمایاں ،منفرد اور دلکش ضرور ہیں اور جو دلوں کو برماتی اور گرماتی بھی ہیں اور زندگی سے پیار کرنے ،پڑنے پر اکساتی ہیں۔یہ تصاویر جامد اور بے جان نہیں ہیں بل کہ فعال ،متحرک اور چلتی پھرتی نظر آتی ہیں۔ ان کے رنگ شوخ ہیں ،نقش تیکھے ہیں ،جانے پہچانے ہیں ،اپنے سے ہیں۔بالکل ہمارے قریب کے،ان میں کوئی غیر مانوس چہرہ نہیں ہے جیسے
؎چھیل گھبرو مست البیلڑے نیں
سندر اک توں اک سوایا اے
میرا چہرہ بھی ہے ،تمھارا بھی ،اس کا بھی بل کہ ہم سب کے چہرے بالکل مر کھپ گئے ہیں۔انھیںزندگی کی طلب نہیں تھی۔اس لیے آج وہ ہماری آنکھ سے ایسے محو ہو گئے ہیں ،آج جوگی نہیںہے ،ٹلے صاف ہو گئے ،راگی راگنیاں سمیت چل بسے،بالناتھ کے ساتھ اس کے چیلے بھی روپوش ہو گئے ،باقی سب کچھ قریباً ویسا ہی ہے۔ دو سو سال بعد بھی اس ثقافت کے خدو خال موجود ہیں۔ ہیر آج بھی نابری اور جرأت کی علامت ہے جو اپنے پیدائشی حق کے لیے آواز بلند کر سکتی ہے۔۔لڈن ملاح کاروباری ذہنیت کی نشانی ہے جس کے ہاں رب رسول ﷺ کا واسطہ کوئی معنی نہیں رکھتا جس کا دین دھرم محض پیسہ ہے اور کچھ نہیں:
؎ پیسہ کھوہل کے ہتھ جے دھریں میرے
گودی چاہڑھ کے پار اتارنا ہاں
بھائی ،بھابھیاں،خویش قبیلے،برادریاں سب اپنی اپنی غرضوں کے جال میں اسیر ہیں۔بختاور اور مالدار سب کے سب سنگی ہیں ۔کمزوروں اور ناتواؤں کا ساتھ نہیں دے سکتے،کوئی رشتہ دار نہیں۔ملاؤں اور قاضی بھی کمزوروں کا ساتھ نہیں دے سکتے ۔ ملاؤںریاکاری کی تصویر بنتے ہیں جو حلووں کی خوشبو اور مردوں کی خبر رکھتے ہیں۔ رشوتیں لے کر فتوے دے دیتے ہیں۔زبردستی رضا و رغبت کے بغیر نکاح پڑھنے پر بضد کرتے ہیں۔وارث شاہ کی زبان میں ملاؤں کو جھگڑے کی ’’پنڈ‘‘ کہا گیا ہے جو داڑھی رکھ کر شیطانی عمل کرتا ہے :
؎وارث شاہ میاں پنڈ جھگڑیاں دی
پچھوں ملاں مسیت دا آیا اے
ہیر کے ماں با پ بھی اسی جاگیر داری سماج کے پرزے ہیںسیال سرداروں کو سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ ہیر نے ایک چاک اور محنتی کامے ملازم کے ساتھ کیوں دوستی لگائی ہے۔انھیں اپنی بھینسیں اتنی عزیز ہیں کہ رانجھے کو منا کرلاتے ہیں تا کہ اس مکر کی چال میں اسے پھنسائے اور چپکے سے ہیر کہیں اور بیاہ دیں:
نشر ہوئی ایہہ گل وچ جھنگ سارے
ہیر دوستی چاک دے نال لائی
بھائیوں کو بھی ایسا ہی اعتراض ہے کہ ’’مہیں چار کے وڈھیا نک ساڈا‘‘قاضی کی مت نصیحت کی تان اسی نکتے پر آن ٹوٹتی ہے کہ:
چاک چوہراں نال نہ گل کیجئے
ایہہ محنتی کیہڑے تھاؤندے نیں
چوچک سیال ہوریں ،ہیرے جاننی ایں
سردار نے پنج گراں دے نیں
تینوں مہنا چاک دا دے کیدو
اوس پرھے وچ شور مچایا اے
وارث شاہ ایک عوامی فنکار ہے اس نے برہمن کی زبان استعمال نہیں کی وہ دربار اور خواص کے لیے نہیں لکھتا اسے دھڑکا نہیں کہ عام آدمی سے گفتگو کر کے اس کی زبان خراب ہو جائے گی۔کیوں کہ اس اٹھنا اور بیٹھنا اور زندگی گزارنے کا سارا رنگ ڈھنگ عوامی ہے۔وہ عوام کے دلوں کی دھڑکنوں کا نباض ہے ۔وہ چھپی دردوں اور مضبوط جذبوں کو زبان دیتا ہے ۔اس نے ان کونوں کھدروں میں بھی نظر ڈالی ہے جہاں چشم طاہر بین کی رسائی نا ممکن ہے۔وہ دلوں میں چھپی منافقت ،مکر اور فریب کو ننگا کرنے کی جرأت رکھتا ہے ۔اس نے ہیر رانجھا کی جو داستان نظمائی ہے وہ کوئی نئی نہیں ،پہلے بھی اور بعد میں بھی کئی شعرا اس رومانس کو نظما چکے ہیں۔
وارث شاہ کے فن کا یہ اعجاز ہے کہ اب ہیر کی داستان اس کے نام نتھی ہو گئی ہے۔’’ہیر وارث شاہ‘‘عوام نے اسی کے کلام کو اپنے سینوں میں محفوظ کر لیا ہے حتیٰ کہ ہدیت اللہ ،پیراں دتہ،محبوب عالم ،اشرف علی گلیانوی،منشی تاج دین وغیرہ بے شمار شعرا کی سینکڑوں ،ہزاروں ہیریں چھپی ہیں لیکن ان کا کلام عوام میں وہ مقبولیت نہیں پا سکاجو ہیر وارث شاہ میں شامل ہونے سے عوامی کچہری سے مقبول عام کی سند حاصل نہ کر سکا۔
اس لحاظ سے ہیر وارث شاہ ہمارے لوک ورثہ کا ایک انمول خزانہ بن گیا ہے۔عوام کے جذبات ،ان کی آرزوئیںاور خواہشیں اس زمانے کے پنجاب کی تہذیب و تمدن ،کلچر رسوم،رواج،کہاوتیں ،تمثیلیں ،پنجاب کی ذاتیں ،لوک دانائی کی باتیں ، صنف نازک کے بارے میں عوامی اعتقادات،ان کے لباس ،طعام شادی بیاہ وغیرہ۔۔۔۔۔ کون سا گوشہ ہے جس کی جھلک اس مرقع وارث شاہی میں موجود نہیں ہے۔
وارث شاہ کا یہ عوامی کردار ہے کہ آج بھی وہ دونوں پنجابوں میں یکساں طور پر مقبول ہیں حالاں کہ داستان کا سارا ماحول اسلامی ہے ۔وارث شاہ خود ایک عالم فاضل ہیں ۔اکثر حوالے اسلامی ہیں۔قرآن مجیدکی آیات ،ان کے معانی ،پنج پیر ، کربل کے غازی ،ہند پنجاب کے تاریخی کردار ،بادشاہیوں کی شکست و ریخت،قدروں کی پامالی،کندھاریوں اور دھاڑویوں کے کٹک دلوں کی لوٹ کھسوٹ ،جوگہ بیراگ ناتھ پنتھی کے مسائل،ہندی ،آریائی اور ایرانی تہذیب کا حسین امتزاج،پھر پنجاب کی اپنی بو باس،یہاں کے درخت ،گھوڑے،بھینسیں،جھل بیلے،،گہنے پاتے،سانپ وغیرہ تمام اشیاء کی جزئیات کی تفصیل اس ایک ڈرامے میں موجود ہے۔ہر کردار اپنی مخصوص زبان اور اپنے مخصوص انداز گفتگو کرتا ہے۔
جہاں ہجر و فراق کے نوحے ہیں وہاں مجلس بازی،شوخی،چنچلتا،سہیلیوں کی چھیڑ چھاڑ ،جوگی ،سہتی کی جھڑپ ،جنس کے بارے میں واضح اظہار پھر عوامی قسم بھر پور تاثر اکثر مقامات پر موجود ہے:
عشق پیر ہے عاشقاں ساریاں دا
تے شیطان ہے پیر مراسیاں دا
سوٹا پیر ہے وگڑیاں تگڑیاں دا
بھکھ پیر ہے بھکھیاں پیاسیاں دا
منظر کشی کے خوبصورت اور دلآویزنمونے اس مرقع میں موجود ہیں۔پنجاب کے دیہات میں جیسے صبح ہوتی ہے ۔ چڑیاں اور لالیاں چہچہاتی ہیں ۔وہ دودھ میں مدھانیاں پڑتی ہیں اور راہی مسافر اپنا راستہ لیتے ہیں۔ اسی منظر کو جیسے وارث شاہ کے مو قلم نے یوں بیان کیا ہے:
چڑی چوہکدی نال جاں ترے پاندھی،پیاں دُدھ دے دے وچ مدھانیاں نیں
اٹھ غسل دے واسطے جان دوڑے،سیجاںرات نوں جنہاںنے مانیاں نیں
رانجھے کوچ کیتا آیا ندی اُتے،ساتھ لدیا پار مہانیاں نیں
وارث شاہ میاں لڈن وڈی کپن ،کپا شہد دا لُدیا بانیاں نیں
وراث شاہ نے ہندی،پنجابی،سنسکرت،فارسی اور عربی کے بے شمار الفاظ اور محاورات ایسے باندھے ہیں جو عوامی بولی کا ایک بے بہا ورثہ بن چکے ہیں ۔پھریہاں تمام لہجوں کا سنگم ہے ،پوٹھوہاری،شاہ پوری،جھنگوی،ڈیروی اور ملتانی لہجوں کی گھلاوٹ نے ایک مشترکہ اور سٹنڈرڈ زبان کو جنم دیا ہے جو آج بھی ادبی زبان کا قابل ِ تقلید نمونہ بن سکتی ہے۔’’مینڈی تینڈی،تھیواں سورجے پریت دی ریت توڑاں،میری ماں جے تدھ تھیں مکھ موڑاں،گھول گھتی میں تینڈڑی واٹ اُتوں ،پہلی دس کھاں کدھروں آوناں ایں ‘‘
؎وارث شاہ دا بولنا بھیت اندر
دانش مند نوں غور ضرور ہے جی
؎جو کوئی پڑھے سو بوہت خورسند ہوئے
واہ،واہ پئی خلق پکار دی اے
ہیر رانجھا محض داستان نہیں رہی بل کہ پنچابیت کی علامت بن گئی ہے ،اس لیے تو اردو کے قادرالکلام شاعر انشا اللہ خان انشا پکار اٹھے کہ :
؎سنایا رات کو قصہ جو ہیر رانجھے کا
تو اہل درد کو پنجابیوں نے لوٹ لیا
وارث شاہ کی بصیرت کا یہ حال ہے کہ اس کے بیان کے سمندر میں حکمت و دانائی اور شعور و آ گہی اُبل اُبل کر باہر آ رہے ہیں۔قصہ بیان کرتے ہوئے وارث شاہ حکمت کے بول موتیوں کی طرح بکھیرتے جاتے ہیں۔
؎وارث شاہ نہ دبیے موتیاں نوں ،پُھل اگ دے وچ نہ ساریئے نی
؎اک دم دی وارث کھیڈ دنیا،رب بے وارث کر مار دا اے
؎تقدیر اللہ دی نوں کون موڑے،تقدیر پہاڑ نوں پُٹ دی اے
؎وارث شاہ پناہ منگ رب کولوں،رن آئی وگاڑ تے کرے کارا
؎وارث شاہ ننگ ناموس نہ رہے،اوتھے جتھے عشق دا لگ بازار رہیا
ایسی حکمت بھری باتیں پوری کتاب میں موجود ہیں۔ ان میں سے کئی کہاوتوں کا روپ دھار گئیں اور لوگوں کی زبان پر جاری ہو گئیں۔’’ سخن کے وارث ‘‘ وارث شاہ نے اک گاؤں کے کونے میں جو شعر کہے تھے وہ امر ہو گئے ۔وہ مٹ نہیں سکتے ۔ انھیں اپنے تخلیقی جذبے اور قوتِ تخلیق کے اعلیٰ ہونے پر فخر تھا وہ دوسروں کی قوت ِ تخلیق کو ’’چکیاں ‘‘کہتا ہے اوراپنے حوالے سے اسے ’’خراس‘‘ بتاتا ہے سمجھانے کے لیے پھر کہتا ہے :
؎پھلاں وانگن خوشبو پھیلاندے رہن گے
صرف شعروں کی یہ تُک بندی یا مصرعوں کی موزونیت ہی نہیں مضمون بھی۔ اگر کوئی زیادہ موزوں فکر کرے گا تو اس کے لیے مفہوم کی راہیں کھلتی رہیں گی۔
گوشے ہیٹھ کے ہیر کتاب لکھی،یاراں واسطے نال قیاس دے نیں
پڑھن گبھرو دیس وچ خوش ہو کے،پُھل سیجیا واسطے باس دے نیں
ہور شاعراں چکیاں جھوتیاں نی ،غلہ پیسیا وچ خراس دے نیں
سمجھ لیں عاقل غورو فکر کر کے،بھیت رکھیا وچ لباس دے نیں
وارث شاہ نے رانجھے کو وہ لازوال حسن اور زندگی عطا کی ہے کہ ہیر آج ہر کسی کی ہیر ہے۔ رانجھے کا نام تو اس کی پہچان کے لیے آ جاتا ہے۔ہیر کا جو پیکر وارث شاہ نے پیش کیا ہے وہ کم دیکھنے کو ملتا ہے ۔تمام رنگ اس کی ذات میں جذب ہوتے جاتے ہیں۔ اس پر بھی اس کی پیاس نہیں بجھتی:
؎کہی ہیر دی کرے تعریف شاعر
متھے چمک دا حسن مہتاب دا جی
خونی چونڈیاں رات جیوںچن دوالے
سرخ رنگ جیوں رنگ شہاب دا جی
نین نرگسی مرگ ممولڑے دے
گلھاں ٹہکیاں پُھل گلاب دا جی
ہونٹھ سرخ یاقوت جیوں لعل چمکن
ٹھوڈی سیب ولایتی سار وچوں
دند چمبے دی لڑی کہ ہنس موتی
دانے نکلے حسن انار وچوں
نک الف حسینی دا پپلا اے
زُلف ناگ خزانے دی بار وچوں
لکھی چین کشمیر تصویر وچوں
قد سرو بہشت گلزار وچوں
قزلباش جلاد اسوار خونی
نکل دوڑیا اڑو بازار وچوں
وارث شاہ جاں نیناں داء ا لگے
کوئی بجے نہ جوئے دی ہار وچوں
کہتے ہیں بھاگ بھری اک الھہڑ دوشیزہ کے ساتھ وارث شاہ کے نین لڑ گئے تھے۔ عشق کا راز افشا ہوا تو پٹ پٹا کر الگ ہونا پڑا ۔ہیر رانجھاکی واردات دراصل وارث شاہ کی اپنی رام کہانی ہے۔ اس نے ہیر رانجھا کی داستان نہیں لکھی اپنے دکھ ہیر اور رانجھے کی جھولی میںڈال دیئے لیکن بات یہ معلوم نہیں ہوتی اس لیے وارث شاہ نے خود لکھا ہے :
یاراں دوستاں آن سوال کیتا
قصہ ہیر دا نواں بنایئے جی
پرانے قصوں میں عشق و عاشقی اور نازو نیاز تھے مگر زندگی کی وہ لہر نہیں تھی جو روکے سے رکتی بھی نہیں اور ایک سے عروج پر بھی نہیں رہتی۔وارث شاہ نے یہاں یہ کہا ہے:
وہن پئے دریا نہیں کدی رُکدے
لکھ زور لایئے کریئے زاریاں وے
سر دتیاں باہجھ نہ عشق چمکے
ویرا نہیں سوکھالیاں باریاں وے
وہاں اسی طوفانی لہر کے تھم جانے پر جس کی زد میں آ کر سبھی کچھ بہا جا رہا تھا ۔یہ بھی کہا ہے :
لکھی قلم تقدیر دی کون میٹے
حکم رب دا کون ہٹا جاوے
جیہڑا کم اللہ نوں بھا جاوے
اسے دلوں کے چھالے نظر آ رہے تھے تو الفت کی تلخیوں کے وہ آرے اور برمے بھی دکھائی دے رہے تھے جو دلوں کے پار ہو جاتے ہیں ۔جان کو دو نیم کر دیتے ہیں۔اس نے یہاں کہیں بھاگ بھری کہا ہے ۔عورت کو دعا دی ہے اسے بڑے بھاگ والی عورت کہا ہے ۔عورت کو طنز سے خطاب کیا ہے ۔بھاگ بھری کو نام کے لحاظ سے استعمال نہیں کیا ۔اس کی واضح مثال یہ ہے کہ بھیگ منگی عورتیں جب بھیگ مانگتی ہیں تو گھر والی کو اکثر یہی کہتی ہیں:
؎ پائیں نی بھاگ بھریئے چٹا سائیں جیوی
بڑے بھاگ سے نسبت دے کر سہاگ قائم رکھنے کی دعا دیتی ہے۔ ان کے بھاگ بھری کہہ دینے سے نوراں کا نام نوراں کے بجائے بھاگ بھری تو نہیں ہو جاتا ۔ریشم ریشم ہی رہتی ہے اور رابعہ کا نام رابعہ ہی رہتا ہے۔جہاں کہیں نام ہی بھاگ بھری ہو وہاں بھی ماں باپ نے بیٹی کے لیے اونچے بخت کی تمنا کی ہوئی ہے۔اگر وارث شاہ کو سچ مچ کسی بھاگ بھری سے عشق ہوتا تو اسے ’’ قصہ ہیر دا نواں بنایئے جی‘‘ کہنے کی ضرورت نہ پڑتی بل کہ وہ ہیر کے مقابلہ میں بھاگ بھری کی داستان لکھتا۔جس نے ہیر کو ایسا لا زوال حسن اور ابدی زندگی عطا کی ہے جس کی رعنائیوں میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں آئے گی۔و ہ بھاگ بھری کو ایسے بھاگ نہیں دے سکتا تھا کہ سو ہیریں اس پر قربان ہو جاتیں ۔ اس کے پیر چومتی اور اگر اس بات کو سامنے رکھیں کہ صوفیانہ شاعری میں روح کا روپ ہیر ہی کو جانا گیا ہے تو پھر بھی جس طرح ہیر کے ساتھ ساتھ سوہنی اور سہتی کے کردار زندہ ہیں بھاگ بھری کو موت کیوں آ جاتی۔
اس کے متعلق یہ کیوں کہا جاتا کہ یہ معلوم نہیں وہ کس کی بیٹی تھی اور وارث شاہ کے ٹھٹھ جاہدت چلے آنے کے بعد جانے اس پر کیا بیتتی۔اگر اس واقعہ میں کچھ حقیقت ہوتی تو وارث شاہ ایسا قادرالکلام شاعر ایسے خون کے آنسو نہ روتا۔سچی بات تو یہ ہے کہ وارث شاہ نے صرف ایک داستان منظوم کی ہے جس کی مدد سے اس نے زندگی کو اس طرح بے نقاب کیا ہے کہ اس کی تمام رعنائیاں اور بدنمائیاں دیکھنے والے کے سامنے آ گئی ہیں۔ حقائق و معارف کی طرف رخ کیا جائے تو انھوں نے باتوں باتوں میں علم و حکمت کے دریا بہادیئے ہیں۔
عدل بناں سردار ہے رُکھا پھل
رن گدھی ہے جو وفادار ناہیں
بناں آدمیت انساں ناہیں
بناں آب قاتل تلوار ناہیں
ہمت باہجھ جوان بن حسن دلبر
لون باہجھ طعام سوار ناہیں
شرم باہجھ مچھاں بناں عمل داڑھی
طلب باہجھ فوجاں بھرم بھار ناہیں
بے پرواسیاں باہجھ معشوق ناہیں
سراں دتیاں باہجھ دیدار ناہیں
وارث شاہ رن، فقیر، تلوار، گھوڑا
چارے تھوک ایہہ کسے دے یار ناہیں
سج وسدیاں جیڈ نہ بھلا کوئی
مجرا نہیں ہے کم نسور جیہا
غصے جیڈ ناہیں کوڑی چیر کوئی
مٹھا بار دے امیاں دے بور جیہا
موذی نفس دے جیڈ پلیت ناہیں
تے بے غیرتا بُرا نہ سور جیہا
وارث شاہ جیہا گنہگار ناہیں
بخشنہار نہ رب غفور جیہا
مزے کی بات یہ ہے کہ وارث شاہ نے یہ سب کچھ اپنے جیتے جاگتے کرداروں کے منہ سے کچھ اس طرح کہلوایا ہے کہ بحث و تکرار میں سندات اور حوالہ جات سے ان کی حیثیت مستحکم ہوتی چلی گئی ہے اور نہ صرف یہ کہ ان سے بیان میں رخنہ نہیں پڑتا بل کہ قصہ کی ہمہ گیری اور دلچسپی میں اضافہ ہوتا ہے۔
سہتی اور جوگی الجھتے ہیں تو ہنگامہ اپنے عروج کو پہنچ جاتا ہے۔مگر جب انسانی فطرت کا یہ پہلو سامنے آتا ہے کہ وہ اپنے فائدے کے لیے حریص ہے تو وہی جو جوگی کے لیے وبال جان ہو رہی تھی ،اس کے قدموں میں بچھی جاتی ہے اسی جوگی کے ساتھ سازش کر کے ماں باپ کو جل دیتی ہے۔
؎سہتی ماں نوں آکھدی نی مائیں،کس واسطے جی پتاونی ایں
نونہہ لعل جہی اند ر گھتیو ای ، جان بجھ کے دکھ ودھاونی ایں
؎عزرائیل اک عمر عیار دوجی، ہیر چل کے سس تے آوندی اے
سہتی نال میں چل کے کھیت ویکھاں،پئی اندرے عمر وہاوندی اے
سہتی نے کہا ماں ! کیوں اپنے دکھ آپ زیادہ کر رہی ہو ۔میرے جیسی پھول سی پدمنی بہو کو تازہ ہوا بھی نہیں لگنے دیتی۔مفت میں ایسے گنوا رہی ہے ایسے (اندر بند کر کے )تو سیالوں کی بیٹی کو مار دے گی۔تو حیثیت پر غور تو کر ،تو جان بوجھ کر اسے ہلاک کر رہی ہے۔ادھر ہیر نے کہا۔میں سہتی کے ساتھ جا کر کھیت دیکھنا چاہتی ہوں میری تو اندر گھٹ گھٹ کر ہی عمر بیت رہی ہے۔تو ہیر کوکھیتوں میں جا کر کپاس چننے کی اجازت مل گئی۔
اب ہیر نے مکر کا جال پھیلایا اپنے پیر میں کانٹا چبھو کر سانپ کے ڈسنے کا بہانہ کیا۔ رو رو کر بیہوش ہونے لگی۔سہتی کے مکرو فن نے اس ڈرامے کو عروج تک پہنچایا۔یہاں تک کے سیدا خود رانجھا (جوگی)کو بلانے گیا اور وہ اپنے منتر سے سانپ کا زہردور کر کے ہیر کو بھلا چنگا کر دے۔جس کے، اس کمال کا پتہ سہتی نے بتایا تھا۔رانجھا باغ سے اٹھ کر ہیر کے پاس آیا جو جھوٹ موٹ بیہوش پڑی تھی۔رو رو کر کراہ رہی تھی ۔تڑپ پھڑک رہی تھی۔ اس کی نس نس میں تناؤ آ رہا تھا۔
رانجھا رات بھر کے لیے ایسی تنہائی کی شرط لگاتا ہے کہ ایک کنواری لڑکی کے سوا کوئی ہیر کے پاس نہ رہے ۔پھر وہ اپنے منتر سے سانپ کا زہر دور کر دے گا۔اس خدمت کے لیے سہتی اپنے آپ کو پیش کرتی ہے ۔علاحدگی اور تنہائی کی ضرورت تھی ، رات بھیگ جاتی ہے تو سہتی مراد کے ساتھ اور ہیر رانجھے کے ساتھ فرار ہو جاتی ہے ۔
جبر کا ناطہ ٹوٹ جاتا ہے ۔رانجھا اپنی ہیر کو تخت ہزارے لیے جا رہا ہے۔ اب روایتی نام اور نمود کا پاسبان کیدو پھر جاگتا ہے جس نے ابتدائے عشق میں محبت کا راز فاش کر کے ہیر اور رانجھے کے لیے مصیبتوں کے باب کھول دیئے تھے۔وہ انھیں دیکھ پاتا ہے تو ملکھی چوچک اور سب کنبہ والوں کو لے آتا ہے جو رانجھے کو جل دے کر ہو گزری باتوں کو معافی چاہتے ہیں۔ہیر اور رانجھے کو اپنے ساتھ لے جاتے ہیں ۔اب کیدو یہ صلاح دیتا ہے کہ رانجھا اپنے دیس تخت ہزار ہ میں جائے اور برات لے کر آئے ، ہم ہیر کو بخوشی اس کے ساتھ بیاہ دیں گے ۔رانجھا آہ و فغاں کرتا ہیرکی قبر پر پہنچتا ہے اور ایک آہ کے ساتھ ڈھیر ہو جاتا ہے ۔ہیر کی قبر پھٹ جاتی ہے اور رانجھا کو اپنی آغوش میں لے لیتی ہے۔
شروع سے لے کر آخر تک کہانی کا کوئی کردار ایسا نہیں جس نے ذہنی واردات و نفسیات انسانی کو نمایاں کرنے میں کوتاہی کی ہو۔وارث شاہ نے اپنے اس اکھاڑہ کو زندگی کا ایسا سچا روپ دیا ہے کہ جو کوئی ایک بار اس سے ہوگزرے پارس ہو جاتا ہے۔اپنی ذات کو آئینہ بنا کر وہ سب کچھ دیکھ سکتا ہے جو عام حالات میں برسوں کی تعلیم و تربیت دکھانے سے قاصر رہتی ہے۔ یہاں پہنچ کر بے ساختہ یہ کہنا پڑتا ہے کہ وارث شاہ نے ہیر کو جو لازوال حسن عطا کیا ہے اس کی چمک دن بدن سوائی اور دونی ہوتی ہے اور وارث شاہ کی جوانی میں کوئی کمی نہ آئے جس کا سہارا لے کر اس نے رانجھے کی ہیر کو ہر کسی کے دل کی دھڑکن بنا دیا۔