پنجابی زبان دے مخلص تے انتھک خدمت گار تے صوفی شاعروں دے عاشق صادق ۔۔۔۔۔۔۔
مہان پارکھ ، کھوج کار تے منے پرمنے وسیبی شاعر ۔۔۔۔ * پروفیسر ڈاکٹر شوکت علی قمر *
تحریر : ڈاکٹر اظہار احمد گلزار
حسن پیارے ٹر گئے خورے کدھرے
عشق نیارے ٹر گئے خورے کدھرے
یار قمر جی سنجی نگری لگ دی
یار دلارے ٹر گئے خورے کدھرے
پنجابی زبان و ادبیات کے ممتاز شاعر ، یگانۂ روزگار فاضل استاد ، محقق اور نقاد پروفیسر ڈاکٹر شوکت علی قمر نے 8/ اپریل 2016ء کو زینہ ٔ ہستی سے اُتر کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب رختِ سفر باندھ لیا ۔بے لوث محبت ،بے باک صداقت ،انسانی ہمدردی اور خلوص و مروّت کا ایک یادگار عہد اپنے اختتام کو پہنچا ۔علمی و ادبی تحقیق و تنقید کی درخشاں روایات کا علم بردار فطین ادیب ہماری بزمِ وفا سے کیا اُٹھا کہ وفا کے سب افسانوں سے وابستہ تمام حقائق خیال و خواب بن گئے۔ 4/ نومبر 1950ء کو ملک رمضان علی امرتسری اور محترمہ معراج بی بی کے گھر لائل پور (فیصل آباد ) کے محلہ خالصہ کالج ، پرانی آبادی میں شوکت علی کے نام سے ایک ایسا آفتاب جہان تاب طلوع ہوا جس نے عالمی ادبیات کو اپنی خوبصورت رچناوؤں / تحریروں ، پر فکر سوچوں اور خیالوں سے روشن کر کے 8/ اپریل 2016ء کو عدم کی طرف رخت سفر باندھ لیا ۔۔محلہ شریف پورا فیصل آباد کی سر زمین نے عالمی ادبیات کے اس آسماں کو اپنے دامن میں چھپا لیا ۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شوکت علی قمر ایک سیلف میڈ انسان تھے جس نے کوہ نور ٹیکسٹائل ملز کے ایک مزدور سے ترقی کر کے علم و ادب کی دنیا میں ایک نام پیدا کیا ۔۔کوہ نور ملز کے عام ورکر سے گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں بطور لیکچرر تقرری اور جیسے وقت آگے بڑھتا گیا ،ڈاکٹر شوکت علی قمر بھی کامیابیوں کے زینے چڑھتے گئے ۔۔۔اسسٹنٹ پروفیسر کے بعد ایسوسی ایٹ پروفیسر کے طور پر انھوں نے پنجابی زبان و ادب کے لیے پھر پور کام کیا ۔۔ان کی محنت بار آور ثابت ہوئی اور اللہ رب العزت کے فضل سے ان کو پروفیسر کے عہدہ پر ترقی دی گئی اور اس لحاظ سے گورنمنٹ کالج یونی ورسٹی فیصل آباد میں پنجابی کے پہلے پروفیسرہونے کا اعزاز بھی انھی کے حصہ میں آیا ۔۔۔۔
وقت کی رفتار کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر شوکت علی قمر نے کہیں بھی پڑاؤ نہیں کیا ۔۔محنت ، لگن ، جستجو ،اخلاص اور عجز ان کی شخصیت کا خاصہ رہی ۔۔ان کی اسی لگن اور منکسر المزاجی نے انھیں مزید رفعتوں اور کامیابیوں سے نوازا اور انھیں جی سی یونیورسٹی کے شعبہ پنجابی کا چیئرمین بنا دیا گیا اور اس طرح پہلے چیئرمین ہونے کا اعزاز بھی ان کے حصہ میں آیا ۔۔۔
بطور شاعر ان کی 1968/ 1969 میں پنجابی اور اردو نعتوں اور مرثیہ کی تین کتابڑیاں ” مدینے کے نظارے “، ،رب دا جانی ” ،اور” کربل کا قاری “منصہ شہود پر آ گئی تھیں ۔۔۔۔۔۔۔1971ء سے انھوں نے جدید شاعری شروع کی اور 1983ء میں ان کی جدید پنجابی نظموں کا مجموعہ کلام ” اکھ دی پیڑ “چھپی ۔۔اس شعری مجموعہ کو ہندوستان میں سردار چیتن سنگھ نے 1991ء میں گرمکھی میں تراجم کے ساتھ شایع کیا ۔۔۔۔۔ممتاز شاعر اور دانشور شفقت اللہ مشتاق ، ڈاکٹر شوکت علی قمر کو یوں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔۔
“ڈاکٹر شوکت علی قمر کے بارے میں آپ کا کالم پڑھ کر بہت خوشی ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب ایک عظیم محقق۔ استاد۔ شاعر۔ ادیب اور انسان تھے۔ ان سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔ اللہ ان کے درجات بلند فرمائے”۔
ڈاکٹر شوکت علی قمر کی جدید پنجابی نظموں کے مجموعہ ” اکھ دی پیڑ “کو گرمکھی میں ترجمہ کر کے بھارت میں اسے شائع کیا گیا جو کہ فیصل آباد کے لیے بہت اعزاز کی بات ہے ۔۔انڈیا کے ہی ایک معروف لکھاری سندرا لائل پوری نے اپنی مشہور کتاب “دو آر دیاں دو پار دیاں ” میں ان کی دو غزلوں کو شامل کیا ہے ۔۔خوشی اس بات کی ہے پنجابی زبان کے عالم گیر شہرت کے حامل لکھاری کا کلام وطن کی سرحدوں کو عبور کر گیا ہے ۔۔۔ان کی شاعری میں آفاقیت اور انسانیت کے وقار کا گہرا رنگ موجود ہے ۔اسی وجہ سے سردار چیتن سنگھ نے ان کی شاعری کا گرمکھی ترجمہ کر کے اس کی گونج ہندوستان تک پہنچا دی۔ ۔اور اس بات کا ذکر سردار چیتن سنگھ نے اپنی اس ترجمہ زاد کتاب میں بھی کیا ہے ۔۔یہ بات بھی قابل غور رہے کہ ڈاکٹر شوکت علی قمر کے ساتھ چیتن سنگھ کی کوئی ملاقات نہیں ہوئی ۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر شوکت علی قمر کی شاعری کا زیادہ حوالہ ان کی چھوٹی نظم یا نئی نظم کے شاعر کے طور پر دیا جاتا ہے جب کہ انھوں نے سینکڑوں کی تعداد میں پنجابی غزلیں بھی لکھی ہیں۔۔شاعری ان کا اوڑھنا بچھونا رہا ۔۔۔۔اس کے علاوہ انھوں نے بہت خوبصورت پنجابی کہانی ، ڈرامہ ، تنقید اور تحقیق کے ضمن میں کافی خامہ فرسائی کی ہے ۔۔۔۔۔ان کی پنجابی کہانیاں معروف ادبی میگزین میں تواتر سے چھپتی رہی ہیں ۔۔۔۔معروف پنجابی لکھاری پریتم سنگھ نے اپنی کہانیوں کا انتخاب کر کے ایک ضخیم کتاب شائع کی تو اس میں ان کی لکھی کہانیاں “جمن مٹی”، گامی ” ، اور” ایک مہاجر ” شامل کیں ۔۔۔دیس پیار اور ستمبر 1965ء اور 1971ء سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے یہ کہانیاں لکھی گئی ہیں ۔۔انھوں نے کچھ غیر ملکوں میں لکھی کہانیوں کا پنجابی میں ترجمہ بھی کیا ہوا ہے ۔۔اس سلسلے میں اطالوی کہانی کا کیا ترجمہ ” روح دے پھٹ “قابل ذکر ہے ۔۔ریڈیو لاہور سے ان کا پنجابی فیچر ڈرامے بھی نشر ہوۓ ہیں ۔۔ریڈیو پاکستان فیصل آباد کے لیے بھی کئی فیچر اور ڈرامے لکھے ہیں ۔۔۔۔۔ان کے سینکڑوں کی تعداد میں تنقیدی مضامین اور درجنوں تحقیقی مضمون چھپ چکے ہیں ۔۔۔۔ان کی تنقیدی مضامین کی کتاب مشتاق باسط کی کہانیوں بارے ” سوچ دی سانجھ ” ١٩٧٦ میں چھپی تھی ۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شوکت علی قمر نے باقاعدہ 1967ء سے پنجابی اور اردو شاعری شروع کی ۔۔نصرت فتح علی خان قوال اور کئی دوسرے گلو کاروں نے ان کا اردو اور پنجابی کلام لاہور ریڈیو سے گایا ہے ۔۔۔۔۔ان کی مشہور نظموں میں ” راشد منہاس شہید (نشان حیدر) پر ان کی اردو نظم جو روزنامہ ” امروز ” میں چھپی تھی ۔۔اس نظم کو پڑھ کر راشد منہاس کے والد مجید منہاس نے ان کو شکریے کا خط لکھتے ہوۓ شہید کے باپ نے جذباتی فخر کا اظہار کیا تھا ۔۔
ڈاکٹر شوکت علی قمر ایک ہمہ وقت متحرک رہنے والے ادیب تھے ۔۔۔ ان کے دور میں چھپنے والا پنجابی کا کوئی ایسا شمارہ نہیں ہو گا ، جس میں ان کی شاعری یا کوئی دوسری تحریر نہ چھپتی ہو ۔۔۔۔۔۔۔روزانہ کے حساب سے وافر مقدار میں ان کے خطوط ادبی شماروں کے ایڈیٹر وں کو جاتے اور روزانہ کی بنیاد پر خطوط کے جواب آتے تھے ۔۔۔۔فیصل آباد کی سطح پر اتنا اس دور میں اخبارات اور جرائد کے ایڈیٹروں کے ساتھ کسی اور اہل قلم کے شاید ہی اتنے روابط ہوں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر شوکت علی قمر نے اردو مشاعرے بھی کافی پڑھے ہیں ۔ان کو جوش ملیح آبادی ،فیض احمد فیض ،حبیب جالب ،صوفی تبسم،حفیظ جالندھری ،شورش کاشمیری ،احمد ندیم قاسمی ،عبد المجید عدم اور سیف الدین سیف جیسے جید شعرا کے پاس بیٹھنے ان کے ساتھ مشاعرے پڑھنے کا اعزاز بھی حاصل رہا ۔۔علم عروض کے حوالے سے وہ کہا کرتے تھے کہ شاعر کو عروض کے علم بارے پتہ ہونا چاہیے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اوہ عروضیہ ہی نہ بن کے رہ جاۓ ۔۔اور عمدہ خیال اور پر مغز سوچوں سے کلام خالی ہو جاۓ ۔۔یعنی فکر پیچھے رہ جاۓ اور فن سامنے آ کر کھڑا ہو جاۓ _ پنجابی کے صوفی شاعروں نے عروض کی نسبت لے اور ترنم پر زیادہ دھیان رکھا ہے ۔
فیصل آباد کی ادبی فضا کے حوالے سے وہ کہا کرتے تھے کہ فیصل آباد کی ادبی فضا بہت شاندار اور اپنے دامن میں بے پناہ خزانہ لیے ہوۓ ہے ۔۔۔۔۔۔ساندل بار سے نئے بنتے شہر لائل پور سے فیصل آباد کی تاریخ سالوں سے زیادہ پرانی نہیں ۔۔۔۔۔۔پنجابی ادب کے حوالے سے پاکستان کے قیام سے قبل یہاں میراں بخش منہاس ،جوشوا فضل الدین ، ظہیر نیاز بیگی اور جھنڈا بلوچ اہم ادبی حوالے بنتے ہیں ۔۔۔۔۔یہاں افضل احسن رندھاوا، صائم چشتی اور نادر جاجوی اس شہر کے نمایاں پنجابی ادیب ہیں ۔۔
ڈاکٹر شوکت علی قمر نے پنجابی کی ہر صنف سخن میں طبع آزمائی کی ہے ۔”حرف نمازاں” ان کی حمدوں ،نعتوں ، منقبتوں اور مرثیہ پر مشتمل کتاب ہے ۔۔۔۔ایک طرف تو “حرف نمازاں ” کا ایک ایک حرف آستانہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سر جھکا کر سجدہ عشق ادا کر رہا ہے اور دوسری طرف “حرف نمازاں ” میں نماز عشق ادا کرنے کے لیے پنجابی زبان کی ہر سمت میں بچھا ہوا مصلے مصنف کے علم ، عرفان اور سوچوں کے غیر محدود اور لا متناہی ہونے کا پتہ دیتا ہے ۔۔۔۔
ممتاز شاعر صائم چشتی اس سلسلے میں رقم طراز ہیں کہ ۔۔۔۔۔
“عزیزم شوکت علی قمر کا پنجابی شاعری کی ہر صنف پر محیط نعتوں کا یہ مجموعہ محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں رنگا ہوا ہے ۔۔یہ اس شاعر کے قلم کی عطا ہے جو پنجابی زبان کا منجھا ہوا استاد بھی ہے اور ایک اچھا شاعر بھی ۔۔۔۔۔۔۔اس کو اس سفر پر چلتے ہوۓ تیس سال گزر چکے ہیں ۔۔اس نے عشق کے سمندر سے محبتوں کے موتی نکال نکال کر نعتوں کے ہار پروے ہیں “”۔
ممتاز محقق اور نقاد پروفیسر ڈاکٹر شببر احمد قادری ان کی شخصیت اور فکر و فن پر یوں خامہ فرسائی کرتے ہیں۔
“ڈاکٹر شوکت علی قمر صاحب کے ساتھ برسوں گورنمنٹ کالج فیصل آباد اور پھر جی سی یونیورسٹی فیصل آباد میں گزارنے کا موقع ملا ،سٹاف روم ،ٹی کلب اور ان کے دفتر شعبہ پنجابی میں بہت طویل رفاقتیں رہیں ،مرنجاں مرنج شخص تھے ، لطیفے سنتے سناتے ۔ مجھ سے برسوں پہلے روزنامہ” عوام” فیصل آباد کے پنجابی صفحے کے انچارج تھے ، وہ مدیر روزنامہ “عوام” قمر لدھیانوی کے شاگرد تھے ،بانی روزنامہ “عوام” خلیق قریشی مرحوم کے بہت مداح تھے ،نادر جاجوی مرحوم سے بھی اصلاح لیتے تھے، پیپلز کالونی نمبر دو میں رہتے تھے ،مجھے کئی بار اُن کے دولت کدے پر حاضری کا موقع ملا۔ وہ میرے گھر بھی آ جاتے تھے ۔ان سے انٹرویو بھی لیے اور ان کی کتابوں بر اپنے تاثرات قلم بند بھی کیے ۔پنجابی زبان کے سچے محب تھے۔غزلوں نظموں کے ساتھ ساتھ نثر بھی بہت لکھی ، جی سی یونی ورسٹی فیصل آباد سے انھوں نے ان گنت نئے چراغ روشن کیے اور نسلِ نو میں اپنی ماں بولی سے محبت کا شعور اجاگر کرنے میں ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں ۔ان کی پنجابی تخلیقات کے دوسری زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں ،ضرورت ہے کہ ان کی غرض مطبوعہ یا مختلف ادبی رسائل و جرائد میں بکھری ہوئی تحریروں کو یکجا جمع کرکے ان کی اشاعت کا اہتمام کیا جاۓ۔انھوں نے بزرگ شاعر حضرت علی حیدر ملتانی کے فکر و فن پر پی ایچ ۔ڈی پنجابی کی سند کے حصول کے لیے ضخیم تحقیقی مقالہ لکھا جو ہنوز غیر مطبوعہ ہے ۔ان کے نگرانِ کار ڈاکٹر شہباز ملک تھے ۔یہ مقالہ پنجاب یونیورسٹی ، لاہور کے زیرِ اہتمام لکھا گیا۔گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد کے مجلّہ “روشنی” کے پنجابی حصے کا نام انھوں نے ” چانن ” کا نام دیا اور کئی دہائیوں تک اس کے نگران کی حیثیت سے پنجابی زبان و ادب کی ترویج و اشاعت کے لیے سرگرم اور فعال رہے ۔” روشنی”( انگریزی نام بیکن ) کے اب تک شایع ہونے والے آخری مجلے ٢٠٠٩ ٕ کے اردو اور پنجابی صفحے ڈاکٹر افضال احمد انور ( صدر شعبہ اردو ) کی نگرانی میں ڈاکٹر شوکت علی قمر ( صدر شعبہ پنجابی) ،میں اور بحیثیت طالب علم مدیر عارف حسین عارف نے ہی ترتیب دیا تھا ۔””
ممتاز دانشور اور ریٹائرڈ پرنسپل گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج فیصل آباد پروفیسر ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم اپنے ایک کالم میں ڈاکٹر شوکت علی قمر کی یاد میں ان کی شخصیت اور فکر و فن پر خامہ فرسائی یوں کرتے ہیں ۔۔۔۔
“میرا ڈاکٹر شوکت علی قمر سے بہت دیرینہ تعلق تھا ۔ہم اکٹھے ایسوسی ایٹ پروفیسر سلیکٹ ہوئے۔۔1998ء میں وہ سینیئر تھے۔قوی الجثہ ہونے کے باوجود کئی بار سیڑھیاں چڑھ کر
بروقت قائد اعظم بلاک میں شعبہ عربی میں تشریف لاکر میری عزت افزائی فرماتے اور مختلف امور پر مشاورت فرماتے۔۔جب میں سمن آباد کالج چلاگیا،تو مادری زبانوں کے عالمی دن کے ایک پروگرام میں انھیں بحیثیتِ مہمان خصوصی بلانے کا شرف بھی مجھے ملا ۔ان کی وفات پر شہر بھر میں واحد تعزیتی پروگرام بھی میرے ہی کالج میں میری خواہش پر منعقد ہوا۔۔ان کی کئی باتیں قابل ذکر ہیں۔ ایک تو یہ کہ ملنے پر یا فون پر ایک جملہ شروع میں یا آخر میں ضرور کہتے۔۔۔ “ہسدے وسدے رہو۔”۔ علم وادب کا بہت بڑا نام۔۔بہت بڑا انسان “۔۔۔۔۔۔۔پنجابی زبان کا اتنا مخلص اور انتھک خدمت گار جس کی ساری زندگی پنجابی سے عشق کرنے میں گزر گئی ۔۔۔۔وہ تمام صوفی شاعروں کے عاشق صادق تھے اور اپنی گفتگو میں کلاسیکل شعرا کے اشعار کا اکثر حوالہ دیتے ۔۔۔۔۔۔پنجابی زبان و ادب کے سچے خدمتگار ، جن کو “فنا فی الپنجابی ” کہا جاۓ تو بے جا نہ ہو گا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کی غزل کے چند اشعار ۔۔۔
سجناں دے وچّ شعر سناؤنے پے گئے نے ۔
پھٹّ جگر دے کھولھ وکھاؤنے پے گئے نے ۔
اج بدلاں دی کن-من نے اگّ لائی اے،
اج یاداں دے دیپ جگاؤنے پے گئے نے ۔
سمدی اکھ دی درد-کہانی سن کے تے،
پتھراں نوں وی ہونٹھ ہلاؤنے پے گئے نے ۔
میلے وچّ ہر بندہ ‘کلا لگدا اے،
چہریاں اتوں لالی کھسدی جاندی اے،
پنڈیاں اتے زخم سجاؤنے پے گئے نے ۔
اج تے دل دی دھرتی ‘تے اگّ ورھدی اے،
اج اکھیاں ‘چوں ‘ساؤن’ وگاؤنے پے گئے نے ۔
اک دوجے نوں دھوکھا دے کے مارن لئی،
چہرے اتے خول چڑھاؤنے پے گئے نے ۔
یار ‘قمر’ ایہہ شعر وی سچے موتی نے،
ایہہ موتی جو آپ لٹاؤنے پے گئے نے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“حمد خدا دی”
دھرتی توں اسماناں تیکر
جو بھی شے اے
اپنی اپنی بولی دے وچ
مٹھڑے مٹھڑے کومل سر وچ
سوہنے ، سچے پاک خدا دیاں
دم دم حمداں پڑھدی
” کن فیکون” دی ہستی آگے
ہر شے سجدے کر دی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“حرف نمازاں” ڈاکٹر شوکت علی قمر ہوراں دا نعت پراگہ اے ۔اونہاں دیاں نعتاں وچ ہر رنگ تے ہر خوشبو ملدی اے ۔محبتاں نال گھجیاں ہویاں قدراں تے روایتاں سینے لا کے اونہاں بڑے خلوص تے کھلے دل نال نویاں وچاراں دا استقبال کیتا تے انج وکھرا تے نویکلا راہ کڈھیا اے ۔۔۔پروفیسر حفیظ تائب لکھدے نیں ۔۔۔
. ” شوکت علی قمر حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دی اسم مبارک نوں دو جہان دا سرناواں تے قلم دا مان سمجھدے نیں۔تے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دی ذات گرامی نوں لیکھ دا مان تے حدیث قدسی “لولاک لما۔۔۔۔۔”موجب کائنات دی تخلیق دا سبب قرار دیندے نیں۔۔اوہ محمّدی نور نوں ہوند وچ حدیث شریف کولوں خاص رہنمائی حاصل کردے نیں۔نظم “قلم دا مان” دیاں آخری سطراں وچ اوہ آکھدے نیں ۔۔
میری قلم نوں رب نے بخشی
ات اچیری تھاں
میری قلم دی نوک دے اتے
کھڑیا اوس دا ناں
تے اک نعتیہ غزل دے مطلعے وچ گل انج کہندے نیں ۔۔
اوہدی سچی ذات توں واری لکھاں صفت ثناواں
جیہدا سوہنا ناواں بنیا دو جگ دا سرناواں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ممتاز شاعر اور محقق نادر جاجوی لکھدے نیں ۔
” نعت گو جناں لطیف تو لطیف سوچے گا، اونی ای لطافت اوہدے فکری وجود چہ رچ بس جاۓ گی ۔جنے خوبصورت لفظاں دا “دان پن” اوہنوں رب ولوں عطا ہووے گا اونی ای اوہدی ترتیب کاری چہ اوہدا مزاج سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دے جمال دی رمز رمز توں فیض حاصل کرے گا۔نعت لکھنا بابرکت عمل اے تے اس عمل چوں گزرنا ربی انتخاب دا اک وڈا انعام ۔۔۔”حرف نمازاں” جناب ڈاکٹر شوکت علی قمر ہوراں دیاں نعتاں دا مجموعہ اے ۔جیہدے وچ ہر طرح دیاں نعتاں دے فنی نمونے موجود نیں ۔کتاب حمداں توں شروع ہو کے مرثیاں تیک مہک مہاٹ چہ گھجی ہوئی اے۔ نعت “اک دی سک ”
اک اک پل وچ صدیاں والی
رب دی ازلی سک اے
دل دے بھاویں لکھاں ڈیرے
وسن والا اک اے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“آٹھواں اسمان” ڈاکٹر شوکت علی قمر ہوراں دا نظم پراگہ اے ۔
زندگی کی رنگا رنگی اور اس کی عکاسی پروفیسر ڈاکٹر شوکت علی قمر کی تخلیقات میں اس طرح موجود ہیں جس طرح آسمان میں قوس قضا کی کمان کھلتی ہے۔۔ان کے لیے جن کے ایک نہیں سارے دریچے کھلے رہتے ہیں تب ہی تو ان کی تحریروں میں تازہ ہوا کی کیفیت ہمیشہ موجود رہی ہے ۔۔ہم عصر ادیبوں میں ڈاکٹر شوکت علی قمر نے نیا باب رقم کیا ہے اور ان کے وسیع مطالعے میں ادب کے مختلف انداز شامل ہیں ۔شہرت اور شرف اختصاص انہیں اپنی خداداد صلاحیت اور مسلسل محنت کے نتیجے میں حاصل ہوئی، کسی منصوبے کے تحت نہیں۔انہوں نے ہمیشہ یہ پیش نظر رکھا کہ ایک ادیب کو کسی نظریاتی پروپگنڈے کی خاطر فنی مقاصد پر مصالحت نہیں کرنی چاہیے۔۔حق ، حقدار رسید کے ہمیشہ قائل رہے۔ادب کے معاملے میں ان کی کشادہ دیدی اور کشادہ ذہنی مثالی ہے کہ یہی وہ اقدار ہیں جو کسی ادب کا سرمایہ افتخار ہوتے ہیں ۔دانش کا امتزاج بھی ان کے ادب کو نکھارتا ہے اور ان کا ادبی خلوص ان شہ پاروں کو پاکیزہ بنا دیتا ہے ۔عصری آگہی اور خالص ادبی شعور ان کا اختصاص ہے ۔سماجی تہذیبی اور ادبی مسائل ہمیشہ ان کی ادبی کاوشوں میں نہاں ہوتے تھے۔ان کا بے باک سلیقہ اور ان کی سیدھی باتیں ہمیشہ ایک مقام کے تھے ۔۔
منفرد شاعر، رجحان ساز و مجتہد نقاد، دانشور، بے باک مبصر ،باکمال افسانہ نگار ،بے مثال مدیر ۔۔۔۔پنجابی ادب میں بالخصوص ایسی کوئی نظیر شاید ہی ملے کہ کسی قلمکار نے جس صنف ادب کو اپنے وسیلہ اظہار بنایا اس میں اپنی غیر معمولی تخلیقی استعداد اور بے پناہ علمی بصیرت کا ثبوت بہ کمال فراہم کیا ہے۔۔
“درد نگینے” ڈاکٹر شوکت علی قمر کا پنجابی رباعیوں کا مجموعہ ہے۔ممتاز شاعر اور نقاد غلام مصطفی بسمل ” درد نگینے” کے دیباچے میں ڈاکٹر شوکت علی قمر کی رباعیوں کے حوالے سے رقم پرداز ہیں ۔
“ڈاکٹر شوکت علی قمر ایک سچے لکھیار ہون دے ناطے پنجابی ادب راہیں اپنیاں انملیاں فکراں ، سوچاں تے محبتاں دا چانن ونڈ ریہا اے ۔اوہ اک بہوں پکی شخصیت اے جیہڑا اکو ویلے کھوج ، پرکھ ، شاعری تے کہانی دے پڑ وچ اپنی کلا دا جادو جگا ریہا اے۔روایت توں جدت تیک اوہدی سلکھنی اکھ دا سفر نویکلا اے ۔شاعری وچ حمد ، غزل ، نظم ، کافی ، گیت ،دوہڑا، ماہیا ، بولیاں ، نیڑے تیڑے ہر شعری کھیتر وچ قلم دی طاقت نوں منوایا اے۔۔ہن رباعی ورگی مشکل صنف (جتھے غالب ورگا مہان شاعر ” بات بنے نہ بنے” دی صورت عاجز وکھالی دیندا اے) نوں اپنی طبع موجب چنیا اے۔ادبی صنفاں دی ایہہ تنوع پسندی اوہدے اندر دی بے چینی ، چنتا تے انقلاب آشنا طوفاناں نوں ظاہر کردی اے۔۔واصف علی واصف نے سچ آکھیا اے۔۔گلاب ذات اے تےخشبو صفت ، ذات اپنی صفات دے حوالے نال پچھاتی جاندی اے۔ایہہ گل ڈاکٹر شوکت علی قمر دی شاعری دے فنی گناں بارے کہی جا سکدی اے پئی اوہدا اکھر اکھر اوہدے فنی کماں دا شاہدی اے تے انج فن تے ذات اک مک ہو کے ادب دے انبراں تے سورج بن کے ڈلھکاں مار دے پئے نیں ۔۔ڈاکٹر شوکت علی قمردی شاعری ذات توں کائنات تک دے ادراک دی شاعری اے ۔ایہہ اوہ سچا تے کھرا ادراک اے جیہڑا پنجاب دے وسیب توں لے کے پنجاب دے تقسیم ہو جاون تے اجوکے پنجاب دے ویلے دا سچ اے یاں فیر ذات توں کائنات تیکر دا ایہہ سفر اک سفر اے تے ایس سفر وچ پتا نہیں کنے کو منظر نیں ۔۔ہر منظر اپنے سفر دے مکن دا منظر پیش کردا اے پر ایہہ سفر کدی نہیں مکدا کیوں جے ہر منظر وچ دوجے اگلے منظراں دی جھلک لبھدی اے تے ایہہ سفر نویں سریوں اک نویں سفر دا وکھالا بن کھلوندا اے۔ایس سفر دی اک نویکلی زمین تے وکھرا اسمان اے ۔۔ایہہ ڈاکٹر شوکت علی قمر دے فکراں تے سوچاں دی زمین اے تےاسمان اوہدے تجربیاں تے مشاہدیاں دا اے ۔اوہدی شاعری ایہناں دوہاں وچکار دے تجربیاں تے مشاہدیاں دی اک کہانی اے ، جس وچ پیش منظر تے پس منظر دی معنویت بڑی ڈونگھی اے ۔۔اوہدی شاعری ایک اجیہا ڈونگھا تے رمزاں بھریا استعارہ اے جدے پچھوکڑ وچ ایک خاص رہتلی سبھا پایا جاندا اے تے ایس سبھا توں اوہدی شاعری دے سفر دا مڈھ بجھدا اے ۔۔”
ڈاکٹرشوکت علی قمر دی ایس شاعری دے سفر وچ رہتل تے اوہدے استعاریاں دی معنویت اوہدے اصولاں نال جڑی وکھالی دیندی اے ۔ایس طرح پنجابی شاعری وچ خلوص تے نظریہ دی جڑت نال ایک نویں طرز احساس دی دس پیندی اے ۔اک مڈھلی صورت حال دی سچی تے کھری سوجھ سیانف لبھدی اے۔۔اوہدے انفرادی لہجے توں اک وسیبی تے کائناتی کڑتن دا احساس پیدا ہوندا نظریں آؤندا اے ۔۔ڈاکٹر شوکت علی قمر دیاں رباعیاں دے اکھر اکھر وچ چمکن والے درد نگینیاں دا جیہڑا مجموعی رؤیہ نکھر کے ساہمنے آؤندا اے، اوہ کجھ ایسراں اے ۔۔۔۔۔۔
بھجوڑکی تے نفسو نفسی دے ایس دور وچ فکری تے جزباتی وحدت وچ تریڑاں پے گئیاں نیں۔۔روحانی طور تے نویں پیڑی بانجھ پن دا شکار اے ۔سماجی حقیقتاں تے معروضی صورت حال پاروں چفیرے بارود تے خوف دا اک حصار اے۔ہر کوئی دوجیاں دے تجربیاں تے مشاہدیاں دیاں اکھاں نال حیاتی دا چانن ویکھنا چاہندا اے۔۔ہونا تےایہہ چاہیدا اے جے اپنے ہون دے گمان نوں حقیقت پسندی دے شیشے وچ ویکھیا جاوے جیہدے نال حقیقی خدوخال ہوون نال یقین تے اعتماد دی طاقت تے فیصلے دی جڑت پیدا ہوندی اے تے مادیت پرستی دے خول وچ تریڑاں پے جاندیاں نیں تے اپنی مرکزیت نال جڑت پکیری ہو جاندی اے ۔۔ایہہ مرکزیت منکھ دا بلار ، اوہدے جذبے اوہدا نظریہ تے اوہدا ہوون اے ۔ہوون نہ ہوون دی جمع تفریق تے دھرکدی اے ۔منکھ نا امیدی دے جال وچ پھس کے نمایاں بے چینیاں تے چنتاواں دیاں پیچویاں گھنڈھاں نوں کھولن وچ رجھیا رہندا اے۔۔ گنڈھاں کھولن دا عمل انھیرے توں انھیرے تیک دا لایعنی سفر اے ۔اصل وچ شاعری دا بلند منصب تخلیقی عمل وچ کھرے جذبیاں تے احساساں دی ترجمانی ہوندی اے ۔اوہو شاعری فکری سطح تے وڈیائی جاندی اے ۔۔ڈاکٹر شوکت علی قمر دی شاعری وچ سماجی شعور تے سیاسی مسئلیاں دا ادراک تے عصری حقیقتاں نوں سمجھن دی سیانف موجود اے ۔۔اک انسان دی انسان ہتھوں تذلیل اوہنوں گوارا نہیں ۔۔ استحصال سماجی سطح تے ہووے یاں تہذیبی پدھر تے اوہ ظلم دے خلاف سراپا احتجاج بن جاندا اے ۔بلھے شاہ دا سچ ہر لکھیار دیاں ناڑاں وچ سفر کر دا اے ۔ایہہ سچ بھانبڑاں نوں بالدا تے کچ نوں کچ آکھن تے مجبور کر دا اے ۔ڈاکٹر شوکت علی قمر دیاں رگاں وچ وی سچ دے بھانبڑ رت وانگوں حرکت کر دے نیں تے اوہ حاکم میل طبقےدیاں کرڑیاں پالیسیاں نوں اکھاں بند کر کے منن دی تھاں جدوں ایس نظام نوں نند دا اے تاں اونہاں دے متھے دیاں تیوڑیاں ودھ جاندیاں نیں ۔اوہنوں احساس اے اجہے دوہری سوچ دے ماحول وچ منکھی جیون جذباتی تے حسیاتی پدھر تے اوسے وا ورولیاں دا شکار ہوندا اے ۔منظر بدلدے رہندے نیں پر ورتارے دے دکھ تے مسئلے مسائل موجود رہندے نیں ۔دکھاں دا سفر صدیاں بدھی جاری رہندا اے ۔
ڈاکٹر شوکت علی قمر تبدیلی دے ایس ڈھانچے نوں بدلن دا چاہوان اے ۔اصل وچ ہر منکھ زرد نظام دا ڈنگیا ہویا اے ، جاگیر دارانہ تے سرمایا درانہ نظام اک دوجے نال پگو ہتھی ہو رہے نیں ، دونویں اپنی اپنی بقا واسطے لڑ رہے نیں ،ساہناں دے بھیڑ وچ ڈڈو اپنی ہوند گوا بہندے نیں ،ایس نظام دی ککھ وچوں جمن والے منکھی جیون اندروں محرومیاں ، مایوسیاں ،جتناواں ،بے دلیاں تے مجبوریاں پھٹدیاں نیں۔۔ڈاکٹر شوکت علی قمر نے اپنے اکھراں نال اوہناں دی بے زبانی نوں زبان دتی اے۔اوہ وسیب وچ موجود ان ڈٹھے خوف پاروں برف بنن دے احساس نوں گرمان تے جمود نوں متحرک کرن واسطے ذات دی نفی دی تھاں اثبات چاہندا اے ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج راقم ( اظہار احمد گلزار) نے اپنے استاد محترم ڈاکٹر شوکت علی قمر کو یاد کر کے اپنے دِلِ ناشاد کو ان کی یادوں کے کرب سے آباد رکھنے کی سعی کی ہے ۔ ان کے شب وروز کو یادِ رفتگان کے کرب نے ایسا ڈسا کہ غم کے اس سم کا کوئی تریاق نہ مِلا۔
ڈاکٹر شوکت علی قمر ؔ کی وفات کی خبر سن کر شہر کا شہرسوگوار تھا۔ شہر اور مضافات سے آنے والے ہزاروں طالب علم ، محنت کش ،معززین شہر اور ہر مکتبہ ٔفکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی کثیر تعداد نے خودی کے اس نگہبان کے حضور آنسوؤں اور آہوں کا نذرانہ پیش کیا۔ اس کے ممتاز معاصرین اور معتقدین نے اپنے جذبات حزیں کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر شوکت علی قمر علم و ادب کا ایک دائرۃ المعارف تھاجس کی موت نے علم وادب کے دبستانوں سے وابستہ افراد اور ہزاروں تشنگانِ علم کو علمی و فکری اعتبار سے مفلس و قلاش کر دیا ۔نماز جنازہ پڑھنے کے بعد ان کے عزیزوں اور دیرینہ رفیقوں نے اس چاند چہرے کو لحد میں اتارا اور اس کے بعد انکسار اور مروّت کا یہ پیکر ردائے خاک اوڑھ کر ابدی نیند سو گیا۔ جی سی یونیورسٹی اور مشاعروں میں ڈاکٹر شوکت علی قمر کا شدت سے انتظار ہے مگر آج تک رفتگان کا سراغ کب مِل سکا ہے ۔مُدتیں بیت جاتی ہیں مگر رفتگان کے ساتھ گزرنے والے مہ و سال کی حسین یادوں کے سہانے خواب کی تعبیر نہیں مِلتی ۔ یہ سارے منظر دستِ قضا میں آتے ہی نقش بر آب بن جاتے ہیں۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد کے اُداس بام اور کُھلے در دُہائی دے رہے ہیں کہ حسین خواب اور خنک سائے کے مانند لوٹ آؤ مگر آپ تو اس ادا سے بچھڑے کہ دائمی جدائی ہمارا مقدر کر دی ۔ڈاکٹر شوکت علی قمر جیسے انسانی ہمدردی سے سرشار انسان کے اس جہاں سے اُٹھ جانے کے بعد علاقے کے مظلوم انسان دنیا کو بیگانہ وار دیکھتے ہیں اور انھیں کہیں بھی کوئی ان جیسا نظر نہیں آتا۔وہ طائرانِ خوش نوا جو استاد محترم پروفیسر ڈاکٹر شوکت علی قمر کے گھر کی منڈیروں پر روزانہ چہچہاتے تھے۔ اب ان کی رہائش سے قریب ہی واقع محلہ شریف پورہ کے شہر خاموشاں میں اُن کی لحد پر کُرلاتے ہیں۔۔ڈاکٹر شوکت علی قمر ایک سر چشمۂ فیض تھے جس سے سیراب ہونے والے یہ کہتے ہیں کہ اجل نے ڈاکٹر شوکت علی قمر کو ہماری محفل سے نکال دیا مگر ہمارے دِل سے اسے نکالنا اجل کے بس کی بات نہیں ۔جب تک دم میں دم ہے ۔ڈاکٹر شوکت علی قمر کی دائمی مفارقت کا غم دِل میں موجود رہے گا ۔ زندگی کی شب تاریک میں ان یادوں سے اجالا ہو گا۔زندگی کا ساز بھی عجیب ساز ہے یہ ہمہ وقت بج رہا ہے مگر اس کی آواز سنائی نہیں دیتی۔حیف صد حیف اجل کے بے رحم ہاتھوں نے ڈاکٹر شوکت علی قمر کی زندگی کے ساز کو توڑ دیامگر اس ساز سے نکلنے والی دُھنیں ہمیشہ کانوں میں رس گھولتی رہیں گی۔ اس بارے وہ خود ہی کہتے ہیں ۔۔۔۔
دنیا دکھ دا گھر اے جینا پیندا
دل دا پھٹ وی آپے سینا پیندا
ملے قمر جی جام وصالی دو گھٹ
زہر ہجر دا دم دم پینا پیندا !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔