۱۹۱۱ان کی پیدائش کا سال ھے۔ ۱۹۲۷ میں" ڈھاپا"، جالندھر کے ہائی اسکول سے میٹرک کیا۔ ۱۹۳۶ میں " گیانی" کا امتحان پاس کیا۔ ۱۹۵۱ میں پنجاب یونیورسٹی سے پنجابی ادبیات میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۶ میں پٹیالہ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کئی سند لی۔ انتظامی ملازمتیں کی۔ اور ساتھ ہی دنیا کے ادب کا مطالعہ بھی کرتے رہے ۔ پھر وہ جالندھر سے کپور تھلہ آگئے اور ایک ڈگری کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ ۱۹۵۱ سے ۱۹۷۱ تک درس وتدریس کے شعبے سے منسلک رہے۔ وہ حلیم الطبع انسان تھے۔
گردیال سنگھ ' پھول' نے تیس/ ۳۰ طویل دورانیے کے ڈرامے لکھے۔ اور اکیس/ ۲۱ ایکٹ کی ایک انتھیالوجی بھی لکھی۔ ان ڈراموں میِں معاشرتی مسائل کو بیاں کیا گیا تھا۔ خاص طور پر ان ۱۹۴۴ میں ان کا لکھا ھوا ڈرامہ " جوڑا" اور ۱۹۴۹ میں "ساتھی" {کامریڈ} نے بہت شہرت پائی۔ جس میں پلاٹ کی تشکیل ، اسلوب اور کردارون کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی گئی تھی۔ ان ڈراموں کا مقصد صرف " پیغام" پہنچانا ہوتا تھا۔ جس میں عصمت فروشی، جاگیر داری، غربت کے موضوعات حاوی ھوتے تھے۔ گردیال سنگھ مذہبی انسان تھے۔ انھوں نے سکھ گرووں کے عہد کو زرین دور قرار دیا۔ اور اس حوالے سے انھوں نے ایک صحت مند تناظر پیش کیا۔ اور خالصہ / سکھوں کی زندگیوں سے ماخوذ جنگجو ہیروز ان کی مہم جوئی اور دلیری کا ذکر کیا ھے۔ وہ لوگوں کے ذہنوں کو سکھ گرووں کی تعلیمات کی روشنی میں بسی ھوئی ضعیف اعتقادی کے تاریکی اور دھند کو صاف کرتے ھوئے بہادری کے جذبے کو ابھارنے کر " تبلیغ" کی۔ ان ک ڈراموں میں سترھویں/ ۱۷ صدی میں مغلوں سے سکھوں کو جنگ کرتے ھوئے دکھایا ھے۔ اور مغلوں کی سکھ دشمنی کو اجاگر کیا گیا ھے۔ اور سکھوں کو ان کی تاریخ، ثقافت اور عقائد سے آگاہ کیا۔ مگر بعد میں وہ پنجابی تھیٹر میں کوئی خاص اضافہ نہیں کرسکے۔ وہ ایک مخصوص تکنیک کے ساتھ " ون ایکٹ پلے" لکھا کرتے تھے۔ ان کے ڈراموں پر ڈرامائی تکنیک سنسکرت کے " رس" کے ڈراموں کی تکنیک حاوی نظر آتی ھے۔ " رس" کے معنی ' جذبے' کے ھوتے ہیں اس کا اطلاق ڈرامے میں مضمر تخلیقی خصوصیات اور ان کے مشاہدے سے ناطرین پر اثر پذیر ہوتی ھے لیکن اس کا بالعموم سبب اور علّت کے بجائے نتیجہ قرار دیا جاتا ھے۔
گردیال سنگھ پھول نے ریڈیو کے لیے اردو اور ہندی میں ڈرامے بھی لکھے ہیں۔ انھوں نےہنرک ابسن کے ڈرامے " گڑیا گھر" کو پنجابی میں ترجمہ کرکے اسٹیج پر پیش کیا۔ ان کے معروف اور کامیاب ڈراموں میں " رات کٹ گئی"۔۔۔۔۔ " لجا" {۱۹۶۱ }، " کالیاں رات آنگن میں" { ۱۹۶۴} کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ انھوں نے کشمیر پرا یک سفر نامہ " دھرتی کا سوراگ" اور بھائی جودہ سنگھ کی سوانح عمری بھی لکھی۔ گردیل سنگھ پھول نے سو / ۱۰۰ سے زائد کتابیں لکھی ہیں۔ امرتسر میں ان کا انتقال ۲۰، اکتوبر ۱۹۸۹ میں مختصر علالت کے بعد ھوا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔