پاکستان میں سب سے بڑی آبادی پنجابیوں کی ھے۔ پنجابی مسلمان کمیونٹی امتِ مسلمہ میں تیسری سب سے بڑی کمیونٹی ھے۔ پنجابی قوم جنوبی ایشیا کی تیسری سب سے بڑی قوم ھے۔ پنجابی قوم دنیا کی نویں سب سے بڑی قوم اور پنجابی زبان دنیا کی نویں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ھے۔
پنجابی قوم کی بنیاد رنگ ' نسل ' قبائل اور مذھب سے بالاتر ھوکر روایتی طور پر لسانی ' جغرافیائی اور ثقافتی ھے۔ پنجابی قوم پرستی کے آغاز سے ھی پنجابی تشخص کی بنیاد پنجاب کے علاقے میں رھنے والے وہ افرد جو پنجابی زبان کو پہلی زبان کے طور پر بولتے ھیں اور پنجابی ثقافت اختیار کیے ھوئے ھیں ' مراد لیا جاتا ھے۔
تاریخی اعتبار سے پنجابی قوم کو مختلف پنجابی ذاتوں اور برادریوں میں تقسیم کیا جاتا تھا۔ تاھم جن لوگوں کا پنجاب کی تاریخی ذاتوں اور برادریوں میں سے کسی سے تعلق نہیں تھا ' انکو بھی پنجاب کے علاقے میں رھنے ' پنجابی زبان کو پہلی زبان کے طور پر بولنے اور پنجابی ثقافت اختیار کرلینے کی وجہ سے پنجابی تشخص میں شامل کیا جاتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ذاتوں اور برادریوں کا ڈھانچہ کمزور اور قوم کا تشخص زیادہ مظبوط ھوتا جارھا ھے۔ جسکی وجہ سے پنجابی قوم میں مزید ھم آھنگی اور پنجابی معاشرتی اقدار بہترطور پر فروغ پا رھے ھیں۔
پنجابی قوم پرستی کی نشو نما کا آغاز پنجاب کی مختلف ذاتوں اور برادریوں میں پنجاب کے باشندوں کے قدرتی تعلق اور اجتماعی مفاد کی وجہ سے ایک مشترکہ "پنجابی" شناخت کے فروغ کے ساتھ سیکولر پنجابی حکمراں مھاراجہ رنجیت سنگھ کی پنجاب کی سکھ سلطنت کے دور سے شروع ھوا۔ اس سے پہلے اگرچہ پنجاب کی مختلف برادریوں کی اکثریت میں طویل لسانی ' ثقافتی اور نسلی مشترکات مشترکہ تھیں۔ لیکن ایک مشترکہ "پنجابی" تشخص اور قوم کے بجائے ذاتوں اور برادریوں کی بنیاد پر اجتماعی معاملات کو انجام دینے کو ترجیح دی جاتی تھی۔
دراصل راجہ جے پال کے پوتے ترلوچن پال کو شکست دے کر 1022 میں محمود غزنوی کے پنجاب فتح کرنے کے بعد سے لیکر پنجاب غیر ملکی مسلمانوں کی حکمرانی اور مسلسل حملوں کی زد میں رھا۔ غیر ملکی مسلم حکمرانوں اور حملہ آوروں نے پنجاب کی مختلف ذاتوں اور برادریوں کو مشترکہ "پنجابی" شناخت کے تحت متحد ھونے دینے کے بجائے ذاتوں اور برادریوں کی بنیاد پر منتشر رکھنے کے ساتھ ساتھ ذاتوں اور برادریوں کو مذھب اور علاقوں کی بنیاد پر بھی تقسیم کیا تاکہ پنجابیوں کے منتشر ھونے کی وجہ سے پنجاب پر حکمرانی میں آسانی رھے۔
احمد شاہ ابدالی کے حملوں سے پہلے مغلوں نے پنجاب پر قبضہ کیا ھوا تھا۔ پنجاب کے باشندوں نے انکے خلاف آزادی کی جدوجہد کی لیکن پنجاب کے لوگوں کے قدرتی تعلق اور اجتماعی مفاد کی بنیاد پر متحد ھوئے بغیرانفرادی حیثیت میں ذاتوں اور برادریوں کی بنیاد پر۔ تاھم پنجابی صوفی بزرگ پنجابی قوم اور پنجاب کی دھرتی پر بیرونی حملہ آوروں کے حملوں ' قبضوں اور حکمرانی سے نجات کے لیے پنجاب کے عوام کے شعور کو بیدار کرنے کی جدوجہد میں تھے۔ گرو نانک نے مغل حکمرانوں کی مذمت کی۔ جسکی وجہ سے مغل شہنشاہ بابرکی بربریت کی کارروائیوں کو چیلنج کرنے کے الزام میں گرفتار بھی کیا گیا۔ شاہ حسین نے دلا بھٹی کی اکبر کے خلاف بغاوت پر کہا کہ؛ کہے حسین فقیر سائیں دا ۔ تخت نہ ملدے منگے۔
1747 میں احمد شاہ ابدالی کی طرف سے افغانستان کو وجود میں لاکر درانی سلطنت کو قائم کیا گیا لیکن پنجاب کے باشندے آپس کے قدرتی تعلق اور اجتماعی مفادات کی وجہ سے مشترکہ "پنجابی" شناخت کی بنیاد پر متحد ھونے کے بجائے مختلف ذاتوں اور برادریوں کی بنیاد پر منتشر ھی رھے۔ جسکی وجہ سے اٹھارویں صدی میں پنجاب کے اندر مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد بھی پنجاب کے علاقے میں قیادت کا بحران تھا۔ اس وجہ سے پنجاب نے احمد شاہ ابدالی کی طرف سے بار بار حملوں کو دیکھا۔ احمد شاہ ابدالی کے پنجابی قوم کے ساتھ وحشیانہ اور سفاکانہ سلوک کے بارے میں عظیم پنجابی شاعر بابا وارث شاہ نے کہا؛ کھادا پیتا لاھے دا – باقی احمد شاھے دا۔
بابا فرید 12۔13 صدی ' دامودر 15 صدی ' گرو نانک دیو 15۔16 صدی ' گرو امر داس 15۔16 صدی ' گرو انگد 16 صدی ' گرو رام داس 16 صدی ' شاہ حسین 16 صدی ' گرو ارجن دیو 16۔17 صدی ' بھائی گرداس 16۔17 صدی ' سلطان باھو 16۔17 صدی ' گرو تیغ بہادر 17 صدی ' گروگوبند سنگھ 17 صدی ' صالح محمد صفوری 17 صدی ' بلھے شاہ 17۔18 صدی ' وارث شاہ 18 صدی جیسے پنجابی صوفیوں اور دانشوروں کی طرف سے پنجابی لوگوں کے اخلاقی کردار اور روحانی نشو و نما کے باعث اور غیر ملکی حملہ آوروں کی طرف سے پنجاب پر بار بار حملوں ' خاص طور پر مغلوں اور احمد شاہ ابدالی کی طرف سے پنجاب کی عوام کے ساتھ وحشیانہ اور سفاکانہ سلوک نے پنجاب کی مختلف ذاتوں اور برادریوں کے باشندوں کے اجتماعی شعور کو بیدار کیا اور پنجاب کے لوگوں کے قدرتی تعلق اور اجتماعی مفادات کے احساس کی نشو نما میں اضافہ ھونے لگا۔ لہذا ایک وسیع تر عام "پنجابی" شناخت نے وجود میں آنا شروع کردیا۔ جسکی وجہ سے پانچ دریاؤں کی زمین پر پنجابی قوم پرستی کا آغاز ھوا۔ تاکہ اپنی زمین کے دفاع کرنے ' اپنی معیشت کی حفاظت کرنے ' اپنی ثقافت کو بچانے ' اپنی تہذیب کو فروغ دینے اور اپنے وقار کو بحال کرنے کے لیے اپنی زمین پر خود حکمرانی کی جائے اور اپنی قوم کے لوگوں کی عزت ' وقار ' جان اور مال کی اجتماعی طور پر حفاظت کی جائے۔
اٹھارویں صدی کے آخر میں درانی سلطنت کے بار بار حملوں کے دوران سکھ مسل درانی سلطنت کے ساتھ جنگ میں تھے۔ لیکن انہوں نے علاقے کو حاصل کرنا شروع کر دیا اور آخر میں بھنگی مسل نے لاھور پر قبضہ کر لیا۔ جب 1799 میں زمان شاہ نے ایک بار پھر پنجاب پر حملہ کیا تو رنجیت سنگھ اس قابل ھوچکا تھا کہ درانیوں کے حملوں اور علاقے میں ھونے والی افراتفری کا مقابلہ کرسکے۔ جب رنجیت سنگھ نے لاھور اور امرتسر کے درمیان جنگ میں زمان شاہ کو شکست دی تو لاھور کے شہر میں مسلم پنجابی اور ھندو پنجابی برادری کی اکثریت تھی۔ لیکن لاھور کے شہریوں نے رنجیت سنگھ کو شہر فتح کرنے کی پیشکش کی اور سدا کور کی طرف سے حوصلہ افزائی کے بعد مھاراجہ رنجیت سنگھ نے بھنگی مسل اور انکے اتحادیوں کے ساتھ لڑائی کے بعد لاھور کا کنٹرول سمبھال لیا۔
1800 عیسوی میں پنجاب میں پنجابیوں کا مذھبی تناسب 52 فیصد مسلمان پنجابی 41٪ ھندو پنجابی ‘ 6 فیصد سکھ پنجابی اور 1٪ دیگر پنجابی تھے۔ لیکن مختلف پنجابی ذاتوں اور برادریوں کے باشندوں کے قدرتی تعلق اور اجتماعی مفادات کے احساس کی نشو نما کی وجہ سے ایک مشترکہ "پنجابی" شناخت وجود میں آچکی تھی اور "پنجابی قوم پرستی" کے فروغ کی وجہ سے پنجاب ایک سیکولر علاقہ اور پنجابی ایک سیکولر قوم بن چکی تھی۔ افغانستان کے مسلمان افغان حملہ آوروں کو پنجاب سے نکال باھر پھینکنے کے بعد ایک سکھ پنجابی ' مھاراجہ رنجیت سنگھ پنجاب کا سیکولر حکمراں تھا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی حکومت میں مسلمان اور ھندو بھی شریک تھے۔ وزیر اعظم دھیان سنگھ ڈوگرہ ھندو تھا۔ وزیر خارجہ فقیر عزیز الدین مسلمان تھا۔ وزیر خزانہ دینا ناتھ برھمن ھندو تھا۔ آرٹلری کمانڈر میاں غوثہ اور سرفراز خان مسلمان تھے۔
تقریبا 777 سال تک غیر ملکی حکومتوں کے سلسلے کے بعد جوکہ ھندو شاھی حکمراں راجہ آنند پال کو شکست دے کر 1022 میں محمود غزنوی سے شروع ھوا تھا اور 7 جولائی 1799 کو مھاراجہ رنجیت سنگھ کے لاھور کے دروازوں میں داخل ہونے تک پنجابیوں نے اپنے ملک پر حکومت نہیں کی تھی۔ مھاراجہ رنجیت سنگھ نے لاھور کو دارالحکومت بنا کر 12 اپریل 1801 کو پنجاب کی سکھ سلطنت قائم کرنے کے بعد سیکولر پنجابی حکمرانی کے ساتھ خیبر پختونخواہ ' وادی کشمیر' لداخ ' گلگت بلتستان کو فتح کرکے دوبارہ پنجاب کی سلطنت میں شامل کر لیا اور 40 سال تک پنجاب پر حکمرانی کرتے ھوئے پنجاب کو برطانوی حملہ آوروں سے بھی بچا کر رکھا۔