ایک بات تو صاف ہے کہ یہ جو فیصلہ ساز قوتیں ہوتی ہیں ان کا نہ کوئی رنگ , نہ نسل , نہ ذات پات , نہ زبان اور نہ مذہب نہ فرقہ نہ مسلک۔
پھر بھی آخر کیا وجہ ٹھہری کہ جب جب جو بھی طبقہ ان مقتدر حلقوں کو اپنی محرومیوں کا اور اپنے استحصال کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے تو ساتھ ہی پنجابی کا لفظ استعمال کرتی ہے حالانکہ ظاہر ہے اس کے آنگن میں پڑے لاشے اور گھر کے بجھے چولھے کا ذمہ دار وہ عام پنجابی مزدور تو ہرگز بھی نہیں جو بلوچستان کے بے آب و گیاہ پہاڑوں میں نفرت کی بھینٹ چڑھ گیا نہ ہی وہ پردیسی پنجابی ہے جو اپنے خاندان کی کفالت کے واسطے دنیا کے گرم ترین خطہ عرب میں اپنی جوانی رول دیتا ہے ہاں برا ضرور بنتا ہے ہر ایک کی نظر میں انہی مقتدر حلقوں کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے کہ جو اس پنجابی کی عددی اکثریت کا فائدہ اٹھاکر اپنے فیصلے پورے ملک پر نافذ کردیتی ہے اور کرنا کیا ہوتا ہے اس ٹولے کو صرف اتنا کہ ایک عام پنجابی کی حمایت حاصل کرنے واسطے ہمیشہ ہی اس عام پنجابی کو نظرئے اور حب الوطنی کا چورن بیچا جاتا رہے اور جسے وہ ملک سے اپنی غیر مشروط محبت کے صدقے قبول بھی کرلیتا ہے , جب جب اس مقتدر حلقہ نے کسی جگہ سے اپنا مفاد حاصل کرنا چاہا تو بلا جھجک وہاں کے لوگوں پر غدار اور ایجنٹ کا لیبل لگا کر اپنا مفاد حاصل کیا اور اس کی تصدیق کروائی پنجاب کی اس اکثریت سے جسے ہمیشہ یہ باور کروایا گیا ہے کہ اس سے زیادہ محب وطن اور اسلام کے اس قلعے کا محافظ اور کوئ نہیں ہے۔
جب جب بات ہوگی ایوب خان اور محترمہ فاطمہ جناح کی تو جہاں ایک پنجابی حبیب جالب مانند حُر محترمہ کے ساتھ تھے اور کراچی اور ڈھاکہ کی گلیاں جہاں ایوب کی شکست کا اعلان کررہی تھیں وہیں پنجاب میں ایوب کی فتح کے شادیانے بج رہے تھے۔
اسی اقتداری طبقے نے جب جبر کا ایک اور کھیل شروع کیا مشرقی پاکستان میں تو اس وقت بھی عام پنجابی اسے مقدس ماننے کے اپنے عقیدے سے پیچھے نہ ہٹا حالانکہ اس وقت بھی جالب نے تو پکارا تھا کہ "جاگ میرے پنجاب کہ پاکستان چلا" اور ہاں اس سیالکوٹی وارث میر کو کیسے بھول جاؤں کہ جالب کے علاوہ کوئ اور آواز گونجی اس سناٹے میں جابر کے جبر کے خلاف تو وہ وارث میر کی ہی تو آواز تھی بچارہ آج بھی اسے اس کے اپنے غداروں کی فہرست میں شامل رکھتے ہیں۔ بنگالی اگر آج بھی اہل پنجاب کی مجرمانہ خاموشی کو نہیں بھولا تو وہیں اپنے حق میں آواز اٹھانے والوں کو بھی یاد رکھا اور اپنے اعلیٰ ترین سول اعزاز سے نوازا وارث میر اور حبیب جالب کو۔ شکریہ جالب و میر۔
بھٹو کی بات کریں تو بیشک بھٹو کو بامِ عروج پر پہنچایا پنجاب نے لیکن پھر ضیا کے کندھے سے کندھا ملا کر بھی عام پنجابی ہی کھڑا تھا ضیا کی طرف سے نام نہاد نفاذ شریعت کا نعرہ لگانے پر۔ بہرحال بھٹو کی باری کا کفارہ تو ادا کردیا اہل پنجاب نے ایک بار پھر بی بی کو وزیر اعظم بنا کر۔
خیر مجھے ہمدردی ہے اس پنجابی سے جو بلوچستان کے پہاڑوں میں مفاد پرست ٹولے کی طرف سے بھڑکائی گئی نفرت کی آگ کا شکار ہوگیا, میں پیار کرتا ہوں اس پنجابی سے جو مقتدر حلقے کے ہر فعل پر آمنا وصدقنا کے باوجود اپنا رزق کمانے کے لئے پردیس کاٹ رہا ہے , میں بہت عزت کرتا ہوں اس محنتی جفاکش اور زندہ دل پنجابی سے جو پاکستان سے غیر مشروط محبت کرتا ہے اور اس کی اس محبت کا ناجائز فائدہ ہوس کا مارا حکمران اٹھا جاتا ہے۔
تو اگر ملک کے دوسرے حصے میں رہنے والا پاکستانی اپنی نالائقی کی تحقیق کے بجائے فقط پنجابی کو گالی دے کر سکون پاتا ہے اور یوں اپنی کوتاہی پر پردہ ڈال دیتا ہے تو کیا اب ایک عام پنجابی بھی اپنے آپ پر پڑنے والی گالیوں پر صرف دوسروں کو ہی ذمہ دار ٹھہراتا رہے گا یا سوچے گا کہ اس کی عددی برتری کا فائدہ اٹھانے والے کہیں اسے تنہا تو نہیں کرتے جاتے رہے رفتہ رفتہ۔ ایسا تو نہیں کہ جنہیں جواب دینے کا پابند ہونا چاہئے وہ ان کی جا و بے جا حمایت کے پیچھے چھپ کر فقط اپنے مفادات کی تکمیل میں مشغول ہوں اور گالی کھانے واسطے بچارے پنجابی کو آگے کردیا ہو ۔ کسی ادارے کو مقدس سمجھ لینے والے عقیدے پر نظر ثانی کرنے کو تیار ہے یا اب بھی وہ نئے اور موجودہ بنائے گئے غداروں مثلاً عاصمہ جہانگیر اور حامد میر جیسوں کو غدار کہہ کہہ کر مفاد پرست ٹولے کی آواز میں آواز ملاتا رہے گا یا حقیقت شناس بھی بنے گا کبھی۔
مجیب الرحمان , باچا خان , ولی خان , اجمل خٹک , جی ایم سید , عطا اللہ میینگل , اکبر بگٹی , خیر بخش مری , صمد خان اچکزئی اور ہاں موجودہ دور کا سب سے بڑا غدار الطاف حسین۔
میرا موقف اور میری شکایت صرف اتنی کہ جب ان سب کو غداری کے سرٹیفکٹ بانٹے جاتے ہیں گروہِ پارسا و باصفا کی طرف سے تو اس کی آواز میں آواز ملاکر کورَس میں غدار غدار گانے کے بجائے ان سے جواب کیوں نہیں طلب کیا جاتا کہ آخر یہ اتنے غدار کس فیکٹری سے نکل رہے , ایسا کیا ہے اس طرف کی ہوا میں کہ جو فقط غدار پیدا کرتی ہے , کیا صرف اس لئے یہ سب غدار کہلائے کہ بادشاہ کی طرف انگلی اٹھا کر پکار اٹھے کہ بادشاہ تُو تو ننگا ہے۔ اس سب کا ذمہ دار بیشک پنجاب نہیں ہے اور بخدا عام پنجابی بھی نہیں ہے مجھے تو اس سادہ پنجابی سے شکایت صرف اس کی خاموشی پر ہے , اس کے ہاں میں ہاں ملالینے پر ہے , میانوالی اور لاہور سے اٹھ کر دارالحکومت کا گھیراؤ کرنے والے تو پنجاب کے ہیرو ٹھہرے لیکن ماما نذیر اور بلوچستان کی بے خانماں عورتوں کی حمایت میں چند لفظ کہنے پر حامد میر گولیوں کا مستحق بمعہ سرٹیفکٹ آف غداری۔ مجھے حامد میر جیسے پنجابی پر فخر ہے کہ جو بادشاہ کو ببانگ دہل اس کے ننگ پن کا احساس دلاتا ہے اور مجھے یقین واثق ہے کہ جب تک پنجاب اپنے اندر جواب مانگنے کی صلاحیت پیدا نہیں کرے گا استحصال ہوتا رہے گا , غدار بنائے جاتے رہیں گے۔