پنجاب کے شہروں ' قصبوں ' دیہاتوں ' زرعی کھیتوں ' کارخانوں ' بازاروں ' دکانوں ' بینکوں ' ڈاکخانوں ' عدالتوں ' تھانوں ' بس اڈوں ' ریلوے اسٹیشنوں ' ھوٹلوں میں پنجابی لوگ پنجابی زبان بولتے ھیں۔ لیکن پنجاب کی تعلیمی اور سرکاری زبان پنجابی نہیں بلکہ اردو ھے۔ پنجاب میں قومی ' صوبائی اور تعلیمی زبان کے طور پر سرکاری زبان اردو ھونے کی وجہ سے پنجابیوں کو اپنی دوسری زبان کے طور پر اردو بولنی پڑتی ھے۔
اگر پنجاب کے شہری علاقوں میں کوئی پنجابی اپنی دوسری زبان کے طور پر اردو یا انگریزی بولتا ھے تو اس کا مطلب یہ نہیں ھے کہ؛ پنجابی ' پنجابی نہیں بول سکتا۔ پنجاب کے شہری علاقوں میں ھر پنجابی ' پنجابی کے علاوہ ثانوی زبان کے طور پر مزید ایک یا دو زبانیں بولنا بھی جانتا ھے۔ لیکن ھر پنجابی کی بنیادی زبان صرف پنجابی ھے۔ پنجاب میں اگر کوئی اپنی پہلی زبان کے طور پر پنجابی زبان بولنا نہیں جانتا ھے تو وہ پنجاب کا رھائشی ھے لیکن پنجابی قوم کا فرد نہیں ھے۔
پنجاب کے بڑے بڑے شھروں میں اس وقت پنجابی زبان کے لیے یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر بڑا مسئلہ بنے ھوئے ھیں۔ انہوں نے برطانوی حکمرانی کے دوران اور پاکستان کے قیام کے بعد پنجاب کے اھم شہروں پر قبضہ کر لیا تھا۔ انہیں چونکہ پنجابی زبان بھی بولنا آتی ھے۔ لہذا یہ تمیز کرنا مشکل ھوتا ھے کہ؛ وہ پنجابی ھیں یا یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر ھیں۔
پنجاب میں پنجابی زبان کے خلاف سازشیں کرنے کے لیے سب سے زیادہ متحرک یو پی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر ھیں۔ پنجابی لبادے میں خود کو چھپائے ھوئے یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر پنجاب کے بڑے بڑے شھروں میں پنجابی عوام کو پنجابی زبان کے بارے میں الجھانے اور گمراہ کرنے کی سازشوں میں مصروف رھتے ھیں۔ اردو کو پاکستان کی سرکاری زبان کے بجائے پاکستان کی قومی زبان قرار دیتے رھتے ھیں۔ بلکہ اردو زبان کو مسلمانوں کی زبان بتاتے رھتے ھیں۔ اردو زبان کو پاکستان کی سالمیت کی زبان قرار دیتے رھتے ھیں۔ حالانکہ اردو زبان کو پاکستان کی سرکاری زبان قرار دینے کی وجہ سے بنگالیوں کی پاکستان سے علیحدگی کی بنیاد پڑی تھی۔ پاکستان کی سب سے بڑی قوم پنجابی کو اردو زبان سے دلچسپی نہیں ھے۔ جبکہ پاکستان کی دوسری بڑی قوم سندھی کو اردو زبان مسلط کرنے پر شدید اعتراض ھے۔
پاکستان میں سماجی اور سیاسی استحکام کے لیے ضروری ھے کہ؛ پاکستان کی سب سے بڑی قوم پنجابی کی زبان کو فوراَ نافذ کیا جائے۔ کیونکہ اردو کی نہ کوئی ثقافت ھے۔ نہ تہذیب ھے اور نہ تاریخ ھے۔ جبکہ پنجابی زبان کی پرورش صوفی بزرگوں بابا فرید ' بابا نانک ' شاہ حسین ' سلطان باھو ' بلھے شاہ ' وارث شاہ ' خواجہ غلام فرید ' میاں محمد بخش نے کی۔ پنجابی زبان کا پس منظر روحانی ھونے کی وجہ سے پنجابی زبان میں علم ' حکمت اور دانش کے خزانے ھیں۔ اس لئے پنجابی زبان میں اخلاقی کردار کو بہتر کرنے اور روحانی نشو نما کی صلاحیت ھے۔
فورٹ ولیم کالج کلکتہ میں اردو کو وجود میں لاکر انگریز نے کلکتہ میں تو بنگالی زبان کو ھی فروغ دیا لیکن پنجابی زبان ' پنجابی ثقافت ' پنجابی تہذیب ' پنجابی تاریخ
کے ورثے کو تباہ و برباد کرنے کے لیے
1877 میں اردو کو پنجاب میں نافذ کردیا۔ اردو کو پنجاب کی سرکاری زبان بنا دیا اور ڈھنڈھورا یہ پیٹ دیا کہ اردو صدیوں پرانی زبان ھے۔ حالانکہ اردو ایک مصنوئی زبان ھے۔
ایک قدیم اور ثقافت ' تہذیب ' تاریخ کے لحاظ سے امیر پنجابی زبان کے ھوتے ھوئے انگریز کو پنجاب کی سرکاری زبان اردو کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اردو کو وجود میں لاکر اور پنجاب میں نافذ کرکے پنجابی زبان میں موجود پنجابی ثقافت ' تہذیب اور تاریخ کے ورثے کو انگریز نے تباہ و برباد کیا۔ پنجاب 1947 میں انگریز کی غلامی سے آزاد ھوگیا۔ لیکن اردو کی غلامی ابھی تک جاری ھے۔
پنجابی قوم دنیا کی نوویں سب سے بڑی قوم ھے۔ پنجابی قوم جنوبی ایشیا کی تیسری سب سے بڑی قوم ھے۔ پنجابی مسلمان مسلم امہ کی تیسری سب سے بڑی برادری ھے۔ پنجابیوں کی پاکستان میں آبادی 60 فیصد ھے۔ لیکن پنجابی زبان کے بجائے اردو زبان بولنے کی وجہ سے پنجابی قوم کی اپنی شناخت ختم ھوتی جا رھی ھے۔ پنجابی قوم لہجوں اور علاقوں میں بکھرتی جارھی ھے۔ پنجابی قوم کی ثقافت ' تہذیب اور تاریخ ختم ھوتی جا رھی ھے۔
پاکستان کے 60٪ پنجابی پہلی زبان کے طور پر پنجابی زبان بولتے ھیں۔ پاکستان میں 20٪ لوگ پنجابی زبان کو دوسری زبان کے طور پر بولتے ھیں۔ اس طرح پاکستان میں 80٪ لوگ پنجابی زبان بولتے ھیں۔ جبکہ پنجابی زبان کو 90٪ پاکستانی سمجھ لیتے ھیں۔ اس لیے اردو کو پاکستان کی قومی زبان بنانا پاکستان کی قوموں کے ساتھ مذاق ھے اور پنجابی قوم کی توھین ھے۔ پاکستان میں رابطے کی زبان کے طور پر بھی اردو زبان کی کوئی ضرورت نہیں ھے۔ جو اردو بول سکتا ھے وہ پنجابی بھی بول سکتا ھے۔ (جو اردو بول سکدا اے او پنجابی وی بول سکدا اے)
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...