افریقی ایشیائی مصنفوں کے کانفرنس میں پنجابی مصنفین کی ایک کہکشاں. نئی دہلی 1956.ایک یادگار تصویر۔
بائیں سے کھڑے ہوئے: دیوندرستیارتی، ہارجہ سنگھ (7 ویں)، پریتم سنگھ سفیر (9 ویں)،
ہچاران سنگھ (10)، سوجن سنگھ اور جسونت سنگھ کنول
بائیں سے بیٹھا: پریتم سنگھ (دوسرا)، مولک راج آنند اور سنتوکھ سنگھ دھیر (ایک چائے کپ کے ساتھ).
پنجابی ((شاہ مکھی پنجابی، گرمکھی ਪੰਜਾਬੀ) ایک ہند یورپی زبان ہے جو باشندگانِ خطۂ پنجاب میں مروّج ہے۔ پنجابی بولنے والوں میں ہندومت، سکھ مت، اسلام، اور مسیحیت کے پیروکار شامل ہیں۔ اول الذکر مذہب کے علاوہ باقی تینوں مذاہب میں اس زبان کو خاص حیثیت حاصل رہی ہے۔ پاکستان اور ہندوستان میں کیے گیے مردم شماریوں کے مطابق دنیا میں پنجابی بولنے والوں کی تعداد 14-15کروڑ سے زائد ہے ۔ اس زبان کے بہت سے لہجے ہیں جن میں سے ماجھی لہجے کو ٹکسالی مانا جاتا ہے۔ یہ لہجہ پاکستان میں لاہور، شیخوپورہ، گوجرانوالہ کے اطراف میں جبکہ ہندوستان میں امرتسر اور گرداسپور کے اضلاع مییں بولی جاتی ہے۔
پنجابی ایک مدھر اور جوشیلی زبان ہے۔ اس کے تکلم کا پنا ہی منفرد حسن ہے۔ جو تقریبا 160 ممالک میں بولی، سمجھی اور لکھی جاتی ہے. یہ 11 ویں سب سے زیادہ وسیع پیمانے پر بولنے والی زبان ہے. تاہم کچھ دن قبل اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے ایک حالیہ رپورٹ جاری ہے اور خطرے کی یہ گھںٹی بجائی ہے کہ ہ اگلے 50 سالوں میں پنجابی زبان غائب ہوگی۔ پنجابی " گرمکھی"{ گرو کے منہ سے }اور" شاہ مکھی"{عربی، فارسی اردو رسم الخط} میں لکھی جاتی ہے۔ سعید احمد نے لکھا ہے پنجابی پنجا صاحب سے نکلا ہے جو سکھوں کا مقدس مقام ہے سکھ بذات خود ثقافتی ، تہذیبی ، تمدنی ، جغرافیائی اور لسانی طور پر ہندی قوم کا حصہ ہیں سکھ عرصہ دراز سے ہندی قومیت سے الگ جداگانہ تشخص کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں جس کیلئے ١٨٩٥ء میں برطانوی عدالت میں درخواست دائر کی گئی کہ پنجابی کو ہندی سے الگ زبان قرار دیا جائے۔ فارسی اور ہندی میں پنجابی ، سرائیکی میں پنجاپی اور عربی میں بنجابی کہلائے جانے والے اس لہجہ کے حروف اور صوتی آوازوں کے مطالعہ کے بعد برطانوی عدالت نے پنجابی کو ہندی کا ترش لہجہ قرار دیا کیونکہ پنجابی کی تمام صوتی آوازیں عربی ، فارسی اور ہندی میں پہلے موجود ہیں ۔ یہی وجہ ہے سر توڑ کوششوں کے باوجود پنجابی کو ہندی کی صوتی آوازوں سے الگ نہیں کیا جا سکا ۔ محروم آصف خان نے اس حوالے سے کام بھی بہت کام کیا لیکن کیونکہ پنجابی کی صوتی آوازیں نہیں ہیں یا آپ یوں سمجھ لیں جو بھی لفظ لکھا جاتا ہے اسکی صوت مذکورہ بالا زبانوں میں پہلے سے موجود ہے یہی وجہ ہے عربی ، فارسی اور ہندی کے حروف پنجابی لکھنے کیلئے استعمال ہوتے ہیں اور کبھی اس قسم کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی کہ پنجابی کیلئے الگ سے قاعدہ بنایا جائے یا کوئی الگ سے رسم الخط ایجاد کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی ہو۔ جتنی بھی کوششیں ہوئی ہے وہ تمام کوششیں اس وجہ سے ناکامی سے دوچار ہوئی کیونکہ لفظ کو لکھنے کیلئے صوتی آوازیں پہلے سے موجود تھی جس سے ابھی تک کوئی نتیجہ برآمد نہ ہو سکا اگے چل کر بھی کوئی نتیجہ برآمد ہونے والا نہیں ہے اسکا بنیادی سبب صوتی آوازیں ہیں جو ہم روز مرہ زندگی میں استعمال کرتے ہیں جس کے لیے ہم نے حروفوں کا سہارا لیا ہوا ہے تاکہ جو صوتی آوازیں ہم ادا کرتے ہیں انکو پڑھ اور لکھ سکیں ۔١٨٩٥ء میں مختلف ماہرین لسانیات کی موجودگی میں شواہد کی بنیاد پر جج اے ڈبلو سٹوگن نے پنجاپی کو ہندی کا رف لہجہ قرار دیا ۔۔۔۔ ماہرین لسانیات کی رائے میں پنجابی معیاری زبان نہیں ہے بلکہ ہندی کا ترش لہجہ ہے جسکو زبان قرار نہیں دیا جا سکتا" {پنجابی معیاری لسان نہیں ہے ۔۔۔۔ میرا نقطہ، سیاست پاک، 11 جنوری2017}۔ ظفر ندیم داود کے بقول" پنجابی کو ملکوتی حسن صوفیا کرام نے عطا کیا۔ مگر اس سے پہلے بھی پنجابی ایک مکمل اور مستحکم زبان کے طور پر رائج تھی۔ پورن بھگت نے تقریبا دو ہزار سال پہلے پنجابی زبان کو اپنی شاعری کے لئے منتخب کیا تھا۔ اور بعض لوک داستانیں بھی ہزار سال سے پہلے سے موجود ہیں۔ جہاں تک رسم الخط کا تعلق ہے تو یہ بات درست ہے کہ پنجابی شاہ مکھی میں بہت پہلے سے لکھی جا رہی ہے۔ سکندر لودھی کے زمانے کی تحریریں دستیاب ہیں۔ جبکہ گورمکھی مغل دور میں متشکل ہوئی۔ اور اردو زبان فورٹ ولیم کالج میں شاہ مکھی میں لکھی گئی یا اس سے کچھ پہلے، مگر اب شاہ مکھی میں مسئلہ یہ ہے کہ اردو کو دربار سرکار اور میڈیا کی بھر پور حمایت حاصل ہے جس کی وجہ سے شاہ مکھی میں لکھی پنجابی کو پڑھنا مشکل بنا دیا گیا ہے۔ پنجابی اور اردو میں لفظوں کی ادائیگی میں فرق ہے، مثلا بھ اور گھ جیسے الفاظ اردو پڑھے لکھے شخص کو پنجابی پڑھنے میں دشواری دیتے ہیں کہ دونوں زبانوں میں ان کا تلفظ الگ الگ ہے۔ اسی طرح نون غنہ کے لئے موزوں علامت موجود نہیں ہے۔ یہ کہنا کہ گرمکھی ردعمل کے طور پر متشکل ہوئی کسی بھی پنجابی محقق کے لئے ، خواہ وہ کسی بھی مکتبہ خیال کا ہو، ناقابل قبول ہے۔ گورو ارجن ایک بے تعصب، بے ریا ، اور مخلص شخص تھے۔ انھوں نے گرنتھ صاحب جیسی لازوال اور لافانی کتاب کو مرتب کرتے ہوئے کسی تعصب کا مظاہرہ نہیں کیا اور غلام فرید کے اشلوک سمیت بہت سے مسلم شعرا کی شاعری اسی کی وجہ سے محفوظ رہی ہے" ۔۔۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے اردو اور پنجابی دونوں میں جملے کی ساخت (ترتیبِ نحوی اور محاورات) کا مطالعہ کیجئے۔ بات پوری طرح کھل جاتی ہے۔ اردو نے جملے کی ساخت پنجابی سے لی ہے، یعنی پنجابی اردو کی ماں ہے۔ پنجابی کی ایک خاص بات اس کے دو رسم الخط ہیں۔ شاہ مکھی (فارسی سے ماخوذ) اور گورمکھی (دیوناگری سے ماخوذ)۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت (پنجابی بولنے والوں میں سے) 10 کروڑ سے زیادہ لوگ شاہ مکھی سے اور تقریباً 3 کروڑ لوگ گورمکھی سے مانوس ہیں۔ اردو کو فارسی رسم الخط ملنا بالکل فطری بات ہے۔۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...