پنجاب یونیورسٹی کی زمین پر قبضے کی کہانی
پوری دنیا میں یہ رواج ہے کہ تعلیم درسگاہوں یعنی یونیورسٹیوں کو زمینیں آلات کی جاتی ہیں یا دی جاتی ہیں ،لیکن پاکستان جیسے ملک میں نرالا ہی رواج ہے ،یہاں زمینیں یونیورسٹیوں کو دی نہیں جاتیں ،بلکہ چھینی جاتیں ہیں ۔ویسے پاکستان کے ترقی یافتہ صوبے پنجاب میں خادم اعلی یعنی شہباز شریف کی حکومت ہے جو اس صوبے میں تعلیم بھیلانے کے لئے بہت سر گرم ہیں ۔لیکن اسی صوبے کی ایک کہانی ہے جس پر میڈیا بھی کم کم توجہ دے رہا ہے ۔آیئے پہلے ایک حقیقی کہانی سنا دیتا ہوں ،اس کے بعد نتیجہ خود ہی نکال لیجیئے گا ۔لاہور میں اورنج ٹرین شہر کے بیچ و بیچ گزر رہی ہے ،جہاں جہاں سے یہ گزررہی ہے ،وہاں وہاں جن کے گھر یا پلاٹ اس کی زد میں آتے ہیں ،حکومت ان لوگوں کو پیسے دے دیتی ہے یا پلاٹ کہیں اور دیئے جاتے ہیں ،جن کو پلاٹ اور پیسہ نہیں ملتا وہ کورٹ میں چلے جاتے ہیں ،اس وقت لاہور کے بہت سارے شہریوں کے کیسز بھی کورٹ میں لگے ہیں ۔اس طرح مسائل حل بھی کئے جارہے ہیں اور پیدا بھی ہورہے ہیں ۔اورنج ٹرین کی راہ میں ایک مدرسہ پڑ رہا تھا ،حکومت نے مدرسے والے مولویوں کو کہا کہ وہ یہ جگہ دے دیں تاکہ اورنج لائن بن سکے ،اس کی جگہ حکومت انہیں پنجاب یونیورسٹی اولڈ کمپیس گراونڈ کے ایک کونے میں شاندار پلاٹ الاٹ کردیتی ہے ۔،پلاٹ بڑا اچھا تھا ،مولوی مان گئے ۔یکم جنوری کو خادم اعلی کے مشیر خواجہ احمد ھسن پنجاب یونیورسٹی گئے ،پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر معین ظفر کے پاس چلے گئے ،وائس چانسلر کو پہلے ہی معلوم ہوگیا تھا کہ مشیر خادم اعلی کیا کرنے آئے ہیں ۔اس لئے انہوں نے تمام شعبوں کے ڈینز اور اسپورٹس ڈائریکٹرز کو بلا لیا ۔،مشیر خادم اعلی نے کہا وائس چانسلر صاحب پنجاب یونیورسٹی کے پاس بہت زمین ہے ،اس لئے اولڈ کمپس گراونڈ کے دو کنال حکومت کو دے دیں ،کیونکہ حکومت نے مدرسے والے مولویوں سے وعدہ کرلیا ہے ۔وائس چانسلرنے جواب میں کہا کہ سرکار ہم سے پوچھے بغیر کیوں وعدہ کر لیا ہے ؟ہم کیسے پنجاب حکومت کو زمین دے سکتے ہیں ؟وائس چانسلر نے کہا کہ پنجاب یونیورسٹی کا ایک ایکٹ ہے جس کے مطابق زمین اسی صورت میں دی جاسکتی ہے جب وہ تعلیمی مقاصد کے لئے استعمال ہو ۔اس پر یونیورسٹی انتظامیہ اور اساتزہ وائس چانسلر کے ساتھ ہو گئے ۔یعنی ایک پیج پر آگئے ۔بیچارے وائس چانسلر پر دباو بڑھتا چلا گیا ،اس کے خلاف حکومت نے انکوائری کھول دی ،انکوائری تو کھلنی تھی کیونکہ اس نے انکار جو کیا ،وہ بھی بادشاہ سلامت کے مشیر اعلی کو ،اس پر وائس چانسلر نے استعفی دے دیا ۔اس نے کہہ دیا زمین نہیں استعفی دے سکتا ہوں ۔پنجاب یونیورسٹی دنیا کی وہ واحد بدقسمت یونیورسٹی ہے جہاں 2015 سے کوئی مستقل وائس چانسلر نہیں ہے ،ہمیشہ ایڈ ہاک پر وائس چانسلر رکھا جاتا ہے ،وہ اسی وجہ سے کہ اسے بلیک میل کیا جاتا رہے اور وہ دباو میں رہے اور ہر ناجائز کام کرتا جائے ۔ایڈہاک پر وائس چانسلر لگانے کا مقصد ہی یہی ہے کہ تلوار لٹکتی رہے اور کام چلتا رہے ۔ڈاکٹر معین ظفر نے ایک ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ لینڈ کا ایشو تھا جس کی وجہ سے وہ مستعفی ہوئے ۔جو زمین حکومت مانگ رہی تھی وہ یونیورسٹی کی اہم زمین ہے جہاں پر اسپورٹس ایونٹ ہوتے ہیں اور یہی وہ جگہ ہے جہاں پاکستان بننے کے بعد جناح صاحب نے خطاب بھی فرمایا تھا ۔ان کا کہنا تھا کہ اورنج ٹرین بھی اہم منصوبہ ہے جو عوام کی سہولت کے لئے ہے ۔یونیورسٹی کی زمینوں میں ایسی ایک زمین تھی جو حکومت کو دینے کے لئے وہ راضی تھے ،لیکن حکومت اسپورٹس ایونٹ والی زمین کے دو کنال لینے پر بضد تھی جس کی وجہ سے انہوں نے استعفی دے دیا ۔حکومت پنجاب اس سے پہلے بھی پنجاب یونیورسٹی کی بہت ساری لینڈ ہتھیا چکی ہے ۔پنجاب یونیورسٹی کے ایک سابقہ وائس چانسلر تھے جن کا نام تھا مجاہد کامران ،وہ دو ہزار آٹھ سے دو ہزار پندرہ تک ایڈہاک بنیادوں پر وائس چانسلر رہے ،انہیں بہت ساری extensions دی گئیں ۔انہوں نے ان دس سالوں میں کئی سو کنال یونیورسٹی کی زمین حکومت کو دی ،حکومت انہیں extension دیتی رہی اور وہ حکومت کو لینڈ دیتے گئے ،وہ ایک طرح سے وائس چانسلر نہیں بلکہ دلال تھے ۔اب ڈاکٹر معین ظفر صاحب وائس چانسلر نہیں رہے ،ڈاکٹر زکریا ایڈہاک وائس چانسلر بن گئے ہیں ،اب دیکھتے ہیں یہ حکومت کو زمین دیتے ہیں یا نہیں ۔اب یونیورسٹی کیا کرے گی ؟اس کا پالا ایک ایسے مگر مچھ سے ہے جو خادم اعلی بھی ہے ۔پنجاب حکومت ایک طاقتور حکومت ہے ،بیچارے استاد اور انتظامیہ کیا کریں ؟میڈیا بھی اس ایشو کو سامنے نہیں لارہا ۔کیا ملک ہے جہاں چائنا کٹنگ بھی ہوتی ہے ،جہاں تعلیمی درسگاہوں کی لینڈ پر بھی قبضہ ہوتا ہے ،میری پنجاب یونیورسٹی کے تمام اساتذہ اور انتظامیہ سے اپیل ہے کہ وہ مزاحمت کریں ،میڈیا سے اپیل ہے کہ وہ ان کی آواز اجاگر کرے ۔ایسا بھی ممکن ہے کہ نیا وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی کی زمین حکومت کو آلات کرسکتا ہے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔