پنجاب یونیورسٹی کا پروفیسر اور دو غدار نوجوان
پروفیسر ڈاکٹر مغیث شیخ کے کمرے میں اس وقت دو افراد کرسیوں پر براجمان تھے ۔ جب اچانک میں ان کے کمرے میں داخل ہوا،تو انہوں نے اشارے سے مجھے بیٹھنے کا حکم دیا ۔کمرہ روشنی سے جگمگا رہا تھا ۔پروفیسر اور ان دو نوجوانوں کے درمیان گفتگو کا سلسلہ جاری تھا۔ میں خاموشی کے ساتھ بیٹھ کر گفتگو سننے لگا ۔ ایک نوجوان اس وقت یہ کہہ رہا تھا کہ پروفیسرصاحب تخلیقی صلاحیت کے بغیر بھی تو زندگی کا کوئی مزہ نہیں ،اگر انسان تخلیق کار نہیں تو پھر وہ انسان ہی نہیں،پاکستان مسائل کا شکار ہی اسی وجہ سے ہے کہ یہاں کوئی تخلیق صلاحیتوں کو اہمیت ہی نہیں دی جاتی ،اس ملک میں سب لکیر کے فقیر بنے بیٹھے ہیں۔مخصوص خیالات و نظریات کی پیروی سے لیکر نیوز چینل کی بریکنگ نیوز تک سب لکیر کے فقیر ہیں ۔اس ملک کو تخلیقی انسانوں کی ضرورت ہے۔کیونکہ حقیقی تخلیق کارہی بہت بڑا باغی ہوتا ہے اور تخلیق نام ہی بغاوت کا ہے ۔پاکستان میں الباکستانی تعلیمی نظام نوجوانوں میں تخلیقی صلاحتیں پیدا ہی نہیں ہونے دیتا۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ اس ملک میں آرٹسٹوں کا آرٹ تخلیقی نہیں،وجہ صاف ہے یہ آرٹسٹ بھی حقیقت باغی نہیں ہیں ۔تخلیق بغاوت ہے اور بدقسمتی دیکھیں کہ ہمارا آرٹسٹ اور فنکار بغاوت کے خلاف ہے۔پروفیسر صاحب جب ایک تخلیق کار کوئی نیا نظریہ،نیا خیال،نئی بات یا پھر کوئی نئی ایجاد تخلیق کرتا ہے تو وہ معاشرتی شرائط اور مسائل کے خلاف بیادی طور پر بغاوت کررہا ہوتا ہے ،کیا اس ملک میں کوئی تخلیق کار ایسا کررہاہے؟اگر معاشرے کی شرائط کے خلاف کوئی تخلیق قوت کار فرما نہیں تو اس کا مطلب ہے ہمارے معاشرے میں کچھ نیا نہیں ہورہا ۔پاکستانی معاشرہ کی ساخت کے پیچھے لکیر کا فقیر والا نظریہ ہے اور اسی وجہ سے یہاں موت ہی موت ہے،دہشت ہی دہشت ہے،اندھیرا ہی اندھیرا ہے،قتل وغارت ہی قتل وغارت ہے بدقسمتی یہ ہے کہ جو تخلیق کے سب سے بڑےدشمن ہیں، وہی ہمارے معاشرے کے لیڈر ہیں ؟کیا کبھی کسی عام آدمی نے لکیر کے فقیروں کو چیلنج کیا ہے؟سب قطاروں مین بیٹھے ہوتے ہیں اور سر نیچے کئے واہ واہ کرتے رہتے ہیں اور لکیر کے فقیر انہیں رٹا رٹایا درس دیئے چلے جاتے ہیں ؟ایسے معاشرے سے ہم کیسے توقع رکھیں کہ یہاں سے کبھی دہشت گردی ،انتہا پسندی اور فرقہ پرستی ختم ہوگی؟اس ملک میں غیر تخلیقی نظریات و خیالات کا گہرا سایہ ہے ،اسی لئے تخلیقی انسانوں کی مخالف ہے۔اسی وجہ سے لکیر کے فقیر طاقتور ہیں؟جرنیل طاقتور ہے ؟جاگیردار طاقتور ہے؟استحصال کرنے والا سیاستدان طبقہ طاقتور ہے؟پروپگنڈہ کرنے والا میڈیا طاقتور ہے؟دوسرے نوجوان نے پہلے نوجوان کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا، تخلیقی انسانوں نے یورپ ،امریکہ اور سکینڈینیوین ممالک،جاپان،آسٹریلیا وغیرہ کو کہاں سے کہاں تک پہنچا دیا ہے ۔ان ممالک کے نوجوان جو کچھ چاہتے ہیں ،جو کچھ سوچتے وہ کچھ کرتے ہیں ۔انسان تخلیق کار اور سچا فنکار ہی اس وقت بنتا ہے جب وہ بطور فرد مکمل طور پر آزاد ہو ۔اس پر کسی قسم کی شرائط نہ ہوں ۔معاشرے کی اجتماعی نفسیات کا حصہ بنکر کچھ مختلف اور منفرد نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی معاشرے کی نفسیات سے جڑا انسان تخلیق کار بن سکتا ہے۔اس معاشرے کے لکھاری،آرٹسٹ،ڈرامہ نگار،موسیقار،مصورسب کے سب اجتماعی سماجی نفسیات کا حصہ ہیں، اس لئے ان کی تحریروں،آرٹ ،موسیقی ،تحقیق سے کسی قسم کی تبدیلی ممکن ہی نہیں ،ایسے سماج سے پھر عمران خان،نواز شریف اور زرداری جیسے رہنما ہی پیدا ہوتے ہیں ۔ اور عمران خانکے بعد اب نواز شریف بھی انقلابی ہوگئے ہیں ۔پھر ایسی ہی تبدیلی آئے گی؟یورپ کا تخلیق کار آزاد ہے ،اس پر کسی قسم کی پابندیاں نہیں ،اور نہ ہی کسی قسم کی شرائط اور نہ ہی وہ معاشرتی نفسیات کو کسی خاطر میں لاتا ہے ۔یورپ کا تخلیق کار اپنا راستہ خود بناتا ہے ۔اسے اکیلا ہی زندگی کے جنگل میں بھاگنا پڑتا ہے ۔اسے اکیلے ہی سچ کی تلاش کرنی ہوتی ہے ،چاہے سچ کتنا ہی کڑوا کیوں نہ ہو وہ تخلیقی صلاحتوں کا مطاہرہ کرتے ہوئے سب کچھ سامنے لے آتاہے ۔تخلیق کار بننے کے لئے ہجوم کی نفسیات سے نکلنا پڑتا ہے اور تب ہی جاکر نیا معاشرہ اور نیا انسان جنم لیتا ہے ۔ پھر ہی کہیں جاکر نیا خیال یا نظریہ سامنے آتا ہے ۔پہلے نوجوان نے دوسرے نوجوان کی بات کی تائید کرتے ہوئے کہا تخلیق حمل کی مانند ہے ۔ایک عورت کو جس طرح نوماہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اسی طرح سچ کی تلاش کے لئے تخلیق کار کو بھی مسائل کا سامنا کرنا ہوتا ہے ۔یورپ اور امریکہ میں دل ودماغ سے تخلیق ہورہی ہے اور اس ملک میں لکیر کے فقیروں کا بانجھ دماغ ہی سب کچھ کررہا ہے ۔۔۔۔ ۔ہم غلام معاشرے کا حصہ ہیں ،سماج کے غلام،مولوی کے غلام ،فوج کے غلام ،کسی خاص نظریئے کے غلام،کسی خاص سسٹم کے غلام ۔۔۔اور غلامانہ زہن کبھی بھی تخلیقی نہیں ہو سکتا ۔غلامانہ زہن تخلیقی آرٹ تخلیق نہیں کرسکتا ۔ہم پاکستان کے انسان کسی نہ کسی کے غلام ہیں۔اسی وجہ سے حقیقی اور سچائی سے بھرپور تخلیق ممکن نہیں ۔دونوں نوجوان کے اس مقالمے کے درمیان پروفیسرخاموش بیٹھا سب کچھ سنتا رہا ۔اسی دوران ایک نوجوان کے موبائل کی گھنٹی بجی ،اس نے دوسرے نوجوان کی طرف اجازت لینے کا اشارہ کیا ۔اس کے بعد دونوں کمرے سے باہر نکل گئے۔نوجوانوں کے جانے کے بعد میں نے پروفیسر سے سوال کیا ،سر،یہ کون تھے ؟بڑی خوبصورت گفتگو کررہے تھے،میرا یہ کہنا تھا کہ پروفیسر بولا بھائی یہ بھٹکے ہوئے بے دین انسان تھے ، میں اکثر اپنی تہیذب و معاشرت کے دشمن ،ان کافروں کی باتیں تو سنتا رہتا ہوں لیکن ان کی گفتگو کے درمیان مداخلت کرنا اچھا نہیں سمجھتا ۔ایسے نوجوانمیرے پاس آتے رہتے ہیں اس طرح کے کافرانہ زہن کے نوجوان،امریکہ اور مغرب کے ایجنٹ ہیں ۔پروفیسر آگے بھی کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن میں نے اجازت لینے میں ہی عافیت جانی اور کمرے سے نکل گیا ۔پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر کے کمرے سے گھر تک میں ان دو نوجوانوں کی گفتگو اور پروفیسر کی ان کے بارے میں رائے کے بارے میں سوچتا رہا ۔تمام راستے کے دوران پروفیسر کی رائے مجھے ہنساتی اور رلاتی رہی اور نوجوانوں کی گفتگو پرابھی تک سوچ رہا ہوں ؟
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔