علامہ اقبال بمقابلہ ملک محمد دین آرائیں
1926ء میں دوسری مرتبہ پنجاب قانون ساز کونسل کے انتخابات ہونے تھے۔ اس مرتبہ احباب نے پھر اصرار کیا کہ اقبال لاہور کے مسلم حلقے سے انتخابات میں حصہ لیں۔ اسی دوران میں جب میاں عبدالعزیز بیرسٹر نے انہیں یقین دلایا کہ وہ اقبال کے مقابلے میں کھڑے نہ ہوں گے بلکہ ان کی امداد کریں گے تو اقبال اپریل 1926ء میں انتخابات میں حصہ لینے کے لیے آمادہ ہوگئے۔ میاں عبدالعزیز بیرسٹر کا اقبال کے حق میں دستبرداری کا اعلان 15 جولائی 1926ء کے "زمیندار" میں شائع ہوا۔اس کے بعد 20 جولائی 1926ء کے "زمیندار" میں اقبال کی طرف سے امیدواری کا باقاعدہ اعلان چھپا۔ انہوں نے میاں عبدالعزیز بیرسٹر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا۔
مسلمانوں کو معلوم ہے کہ میں اب تک اس قسم کے مشاغل سے بالکل علیحدہ رہا، محض اس لیے کہ لوگ یہ کام انجام دے رہے تھے اور میں نے اپنے لیے دوسرا دائرہ کار منتخب کرلیا تھا، لیکن اب قوم کی مصیبتیں مجبور کررہی ہیں کہ اپنا حلقہ عمل قدرے وسیع کردوں۔ شاید میرا ناچیز وجود اس طرح اس ملّت کے لیے زیادہ مفید ہوسکے جس کی خدمت میں میری زندگی کے تمام لیل و نہار گزرے ہیں۔
گو لاہور کے مسلم اخباروں نے بارہا تحریر کیا کہ اقبال جیسی شخصیت کو بلا مقابلہ کونسل کا رکن منتخب کیا جانا چاہیے، لیکن لاہور میں "برادری نوازی" کی وبا کی موجودگی کے سبب دو اور حضرات مقابلے میں کھڑے ہوگئے۔ بہر حال ان میں سے ملک محمد حسین صدر بلدیہ لاہور نے اقبال کے حق میں دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا ۔
مگر ملک محمد دین مقابلے میں ڈٹے رہے، اس لیے اقبال کو انتخابی جنگ کے میدان میں اترنا پڑا۔ لاہور میں اُن کی حمایت میں تقریباً بیس جلسے منعقد ہوئے جن میں بعض سے اقبال نے خطاب کیا۔ ہر محلے سے جلوس نکالے گئے۔ شہر کی کئی برادریوں نے اُن کی حمایت میں اشتہار شائع کیے اور اقبال کو انتخابی مہم میں اپنی جیب سے بہت کم خرچ کرنا پڑا۔
انتخابی مہم میں ملک محمد دین، اقبال پر مختلف سمتوں سے حملہ آور ہوئے۔ اُن کا زاویہ یہ تھا کہ اقبال کے عقاید قابلِ اعتراض ہیں۔ یعنی وہ وہابی العقیدہ ہیں، جب کہ ملک محمد دین اہلِ سنت والجماعت ہیں۔ یہ پہلو اس لیے فائدہ مند تھا کہ اقبال نے "اسرار خودی" میں حافظ شیرازی پر تنقید کرکے بعض مشائخ سے "دشمن تصوف" کا خطاب پایا تھا، نیز سلطان ابن سعود کے حق میں بیان دے کر علما کے ایک طبقے سے انہوں نے کفر کا فتویٰ بھی حاصل کر رکھا تھا۔ ملک محمد دین کا دوسرا زاویہ یہ تھا کہ اقبال کشمیری برادری سے تعلق رکھتے ہیں مگر چونکہ ملک محمد دین آرائیں ہیں اس لیے آرائیں برادری کو اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے آرائیں ہی کو اپنا نمایندہ چننا چاہیے۔ ان کا تیسرا زاویہ اشتہارات کے ذریعے اقبال کے ذاتی کردار پر کیچڑ اچھالنا یا ان کی کردار کشی کرنا تھا۔ ملک محمد دین کی انتخابی مہم کا یہ پہلو نہایت افسوس ناک تھا۔ اس قسم کے چودہ اشتہار سوالات کی شکل میں دیواروں پر چسپا کیے گئے اور اُن کا اسلوب الزام تراشی یا بہتان طرازی کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ اقبال کی طرف سے ان اشتہارات کا کوئی جواب نہ دیا گیا۔ اُن جلسوں میں اسلامی اتحاد و اتفاق برقرار رکھنے کی تلقین کی گئی، ذات برادری کے غیر اسلامی قیود کے خاتمے کی ترغیب دی گئی اور اختلافات عقاید سے احتراز کیا گیا۔ کسی جلسے میں کسی کے خلاف کچھ نہ کہا گیا اور اگر کسی کے منہ سے جوش میں آکر کوئی نازیبہ کلمہ نکل بھی گیا تو اسے روک دیا گیا۔
ملک محمد دین نے اپنے انتخاب کے سلسلے میں جو اعلان شائع کیا ہے جابجا اس امر پر زور دیا ہے کہ میں اہلِ سنت والجماعت میں سے ہوں۔ میں نے بزرگوں کے مزاروں کی زیارت کی ہے اور میں صرف اہلِ سنت کے ووٹ حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ ہم یہ سوال کرنا چاہتے ہیں کہ کیا کونسل کی ممبری کے آئندہ اہلِ سنت اور غیر اہلِ سنت معیار معتبر سمجھا جائے گا؟۔۔۔۔۔ جو شخص امیدواری کی حالت میں اس قدر فرقہ پرست ہے وہ کونسل ممبری حاصل کرلینے کے بعد تمام مسلمانوں کا نمائندہ کیوں کر کہلا سکتا ہے؟ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ شیعہ اور اہل حدیث کونسل میں اپنے لیے الگ نشستوں کا مطالبہ شروع کردیں؟ ایک طرف علامہ اقبال پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ میں تمام کلمہ گویوں کا نمائندہ بننا چاہتا ہوں اور برادریوں اور فرقوں کے بُت کو پاش پاش کردینا میرا مقصد ہے اور دوسری طرف ایک شخص حنفیّت کو پیش کررہا ہے اور یہ نہیں دیکھتا کہ مسلمانوں کو تفرق کی ضرورت نہیں بلکہ اتحاد کی ضرورت ہے۔۔۔۔ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ملک محمد دین کو آرائیوں کی برادری کے ووٹوں پر زیادہ تر اعتماد ہے اور کسی ایک برادری کے ووٹوں پر تکیہ کرنا بھی ان کی تفرق پسندی کی نہایت روشن دلیل ہے۔۔ عامتہ المسلمین سے ان کا کوئی مطلب نہیں۔لیکن ہم ان کو بتانا چاہتے ہیں کہ آرائیں برادری کے تعلیم یافتہ اور روشن خیال افراد بھی اس قدر کور سوا اور عقل کے اندھے نہیں ہیں کہ علامہ اقبال اور ملک محمد دین میں تمیز نہ کرسکیں۔۔۔وہ کبھی برادری کے مقاصد کو اسلام کی اغراض پر ترجیح نہ دیں گے۔۔۔۔یہ حالت تو ملک محمد دین کی ہے اور علامہ اقبال بارہا لاہور کے جلسوں میں بآواز بلند آواز فرما چکے ہیں کہ جو شخص مجھے کشمیری ہونے کی وجہ سے ووٹ دینا چاہتا ہے، وہ مجھے ایسے ووٹ سے معاف رکھے۔میں صرف اسلام کے نام پر اپیل کرتا ہوں اور مجھے صرف مسلمانوں کے ووٹ کی ضرورت ہے۔۔۔
ایک لالہ لاجپت رائے جس حلقے سے چاہتا ہے ایک شخص کو نامزد کرکے بلا مقابلہ منتخب کرادیتا ہے، اور کسی دوسرے کو اس کے مقابلے میں کھڑے ہونے کی جرات نہیں ہوتی۔ ہندوؤں نے شدید باہمی مخالفت کے باوجود پنڈت موتی لعل نہرو اور پنڈت مالویہ کو بلا مقابلہ منتخب کرانے کا فیصلہ کرلیا ہے جس حلقے سے پنڈت مالویہ کھڑے ہورہے ہیں اس میں لاکھوں کانگرسی موجود ہیں اور جس حلقے سے پنڈت موتی لعل نہرو امیدوار ہیں،اُس میں لاکھوں سنگھٹنی موجود ہیں، لیکن قومی اتحاد کی یہ حالت ہے کہ ان اکابر مملکت کے مقابلے میں کوئی شخص کھڑا نہیں ہوسکتا اور مسلمان ہیں جو علامہ اقبال کی جلیل القدر اور عظیم الشان شخصیت کے ساتھ عقیدت کا یہ منظر بھی پیش نہیں کرسکتے۔
شہر میں کشمیریوں کی تعداد آرائیوں سے کم تھی، لیکن کئی دیگر برادریوں مثلاً زرگروں، خوجوں، قصابوں، گوجروں اور لوہاروں نے اقبال کے حق میں متفقہ فیصلے کیے۔ ککے زئی برادری نے عملی حیثیت سے اقبال کی امداد کی۔ مذہبی حلقوں میں شیعہ رہنما سید علی حائری، خواجگانِ نارووال، احمد دیان قادیان اور احمدیان لاہور نے بھی اقبال کی تائید اور حمایت میں اعلان جاری کیے۔ انجمن اسلامیہ میاں میر اور اہل حدیث بھی اقبال کے ساتھ تھے۔ سیاسی جماعتوں میں مجلس خلافت نے اقبال کو بہترین امیدوار قرار دیتے ہوئے ان کی اعانت کی۔
کشمیریوں کے دو اخبار "سیاست" اور "نشتر" اقبال کو جھوٹا، کذاب، وہابی، نجدی، اسلام دشمن وغیرہ کے خطابات سے نواز کر ان کی شدید مخالفت کرتے رہے، لیکن لاہور کے باقی تمام مسلم اخبار اقبال کی حمایت میں لکھتے تھے۔
جلسوں کا سلسلہ اکتوبر 1926ء سے شروع ہوا۔ ان جلسوں میں مولانا غلام مرشد اور ملک لال دین قیصر کے علاوہ جو معروف شخصیتیں تقریریں کرتی یا نظمیں پڑھتی تھیں، ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں۔ مولانا محمد بخش مسلم، حفیظ جالندھری، ڈاکٹر سیف الدین کچلو، مولانا عطاءاللہ شاہ بخاری، مولانا ظفر علی خان،مولانا حبیب الرحمٰن، مولانا مظہر علی اظہر۔ بڑے بڑے جلوس بھی نکلتے۔ جن میں اقبال شامل ہوتے۔ مختلف وارڈوں کے رضا کاروں کی ٹولیاں انتخابی اعلانات کی جھنڈیاں بلند کیے اقبال کی تعریف میں اشعار پڑھتے ہوئے آگے آگے روانہ ہوتیں۔ ہر ٹولی کا امتیازی نشان مختلف ہوتا۔ کسی جماعت کے سروں پر کاسنی رنگ کی پگڑیاں ہوتیں کہیں ملگجی رنگ کی پگڑیاں دکھائی دیتیں۔ کہیں سرخ ترکی ٹوپیوں والے نوجوان ہوتے جن کی ٹوپیوں پر اقبال کا لفظ کھر یا مٹی سے لکھا ہوا نظر آتا۔ان ٹولیوں کے پیچھے معززین شہر کی جماعت ہوتی جن میں رؤسا، کاروباری لوگ، کالجوں کے پروفیسر اور دیگر اہلِ علم شامل ہوتے۔ اس جماعت نے اقبال کو گھیرے میں لیا ہوتا۔ وہ چند قدم چلنے نہ پاتے کہ پھولوں کے ہاروں سے لاد دیے جاتے۔ رستے میں ہر طرف سے پھولوں کی بارش ہوتی۔ کارکن اور رضا کار اقبال کے ان اشعار کا خاص طور پر گاتے جن میں اسلامی اتحاد کا پیغام دیا گیا تھا کیونکہ اقبال نے لاہور میں انتخابات کے موقع پر برادری اور فرقے بندی کی لعنتوں کو ختم کرنے کا بیڑا اٹھایا تھا۔جلوس لاہور کے بازاروں سے گزرتے اور جلوس کے دوران میں اگر نماز کا وقت آجاتا تو کسی بڑی مسجد میں با جماعت نماز ادا کرنے کے بعد جلوس پھر مرتب کیا جاتا اور اسی شان و شوکت سے مختلف بازاروں سے گزرتا ہوا لاہور شہر کے کسی نہ کسی دروازے پر اختتام پذیر ہوتا جہاں اقبال تقریر کرتے اور مسلمانوں کو اتحاد کا پیغام دیتے۔
انتخابی مہم کے دوران میں بعض لطیفے بھی پیدا ہوئے۔
مثلاً حفیظ جالندھری کے بیان کے مطابق ایک روز کسی جلسے کو خطاب کرنے کے بعد اقبال ان کے ساتھ اندرونِ شہر کی گلیوں میں سے ہوتے ہوئے پیدل واپس آرہے تھے۔ چونکہ امیدوار تھے اس لیے رستے میں جو کوئی بھی ملتا اسے سلام کرتے۔ ایک شخص کو سلام کیا، لیکن وہ شاید ملک محمد دین کا حمایتی تھا، اس نے جواب میں اپنی دھوتی اٹھادی اور ننگا ہوگیا۔اقبال جب موٹر کار میں بیٹھے تھکے ہارے گھر جارہے تھے تو نہایت بجھے ہوئے لہجے میں حفیظ جالندھری سے کہنے لگے : اس قوم کے مصائب کے سبب میری راتوں کی نیند اچاٹ ہے، لیکن اس کے افراد اخلاق اور مروت کی دولت سے کیوں محروم ہیں ؟ حفیظ جالندھری نے اپنے مخصوص انداز میں اقبال کو تسلی دیتے ہوئے جواب دیا: ڈاکٹر صاحب ! قوم کے پاس جو کچھ ہے وہ اس نے آپ کو دکھلادیا۔ اس میں مغموم ہونے کی کیا بات ہے۔ اس پر اقبال کھلکھلا کر ہنس دیے اور ساری کدورت دور ہوگئی۔
23 اور 24 نومبر 1926ء کو پولنگ کے آنکھوں دیکھے حال کی تفصیل ان ایام کے "زمیندار" اخبار کے حوالوں سے محمد حنیف شاہد کی تصنیف "اقبال اور پنجاب کونسل" میں پڑھی جاسکتی ہے۔
23 نومبر کو لاہور شہر کے مسلم حلقے میں اور 24 نومبر کو لاہور چھاؤنی کے حلقے میں ووٹنگ ہوئی۔ ہر پولنگ اسٹیشن پر دن کے ابتدائی گھنٹوں میں ووٹ ڈالنے کا بہت زور رہا اور آخری گھنٹوں میں رفتار سست ہوگئی۔اکبری دروازے کے پولنگ اسٹیشن پر چپقلش بھی رونما ہوئی۔
مختلف مراکز پر ملک محمد دین کے حامیوں نے جعلی ووٹ درج کرانے کی کوشش کی لیکن بہت سے جعلی ووٹ مسترد کردیے گئے۔دس کے قریب گرفتاریاں بھی عمل میں آئیں۔ بہت سے پڑھے لکھے آرائیوں نے جو اپنے آپ کو برادری کے سوال سے بالا خیال کرتے تھے اقبال کے حق میں ووٹ ڈالے۔ موچی دروازے کے انتخابی مرکز پر فریقین کے حامیوں کے درمیان ہنگامہ ہوگیا اور ایک شخص نے اپنے مدِّ مقابل کو چاقو سے زخمی کردیا۔
پولنگ کے اختتام پر ہجوم نے اقبال کو گھیر لیا اور شہر کے اندر لے گئے۔ چنانچہ خود بخود ایک جلوس مرتب ہوگیا جو اللہ اکبر اور اقبال زندہ باد کے نعرے لگاتا ہوا کشمیری بازار اور ڈبی بازار سے گزرا۔
24 نومبر کو لاہور چھاؤنی کے انتخابات کے دوران میں ملک محمد دین کے چار آدمی جعلی پرچیاں ڈالنے کے جرم میں گرفتار کیے گئےجن میں ان کا چھوٹا بھائی نذیر احمد بھی شامل تھا، لیکن بعد میں وہ ضمانت پر رہا کردیے گئے۔ ملک محمد دین کے ایک حامی نے اس شخص کی طرف سے جعلی پرچی ڈالنی چاہی جو اقبال کی طرف سے رائے دہندوں کی شناخت کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔چنانچہ فی الفور پہچان لیا گیا کہ وہ جعلی پرچی ڈالنا چاہتا تھا۔ دولت علی نامی ایک ٹمٹم والے کی ٹمٹم اس بنا پر غائب کردی گئی کہ اس نے ملک محمد دین کے ایک جعلی ووٹر کو شناخت کیا تھا۔ بعد میں وہ ٹمٹم ملک محمد دین کے چار آدمیوں کے قبضے سے برآمد کی گئی جن میں سے دو گرفتار ہوئے اور دو فرار ہوگئے۔ اس معاملے کی تفتیش کے لیے چوہدری علی گوہر حوالدار پولیس تھانہ لاہور چھاؤنی متعین کیے گئے۔
6 دسمبر 1926ء کو انتخابات کونسل کے نتائج کا سرکاری اعلان ضلع کچہری میں ہوا۔ اُس زمانے میں حلقے کے کل ووٹروں کی تعداد بارہ ہزار (12000) کے لگ بھگ تھی جن میں سے تقریباً ساڑھے آٹھ ہزار (8500) ووٹ ڈالے گئے۔
اقبال کو پانچ ہزار چھ سو پچھتر (5675) ووٹ ملے اور ملک محمد دین کو دو ہزار چھ سو اٹھانوے (2698)۔ سو اقبال تقریباً تین ہزار ووٹوں کی اکثریت سے کامیاب قرار دیے گئے۔
حوالہ کتاب : "زندہ رُود"
از : "ڈاکٹر جاوید اقبال"
ص : 363..364..365..367..368..369..370
طالب دعا کاشف ترک