پنجاب میں الیکٹیبلز کا کھیل بہت پرانا ہے اتنا ہی پرانا جتنی پرانی پنجاب اسمبلی ہے۔ یونینسٹ پارٹی بلا لحاظ پنجابی جاگیرداروں کی پارٹی تھی جنھیں ہم آج الیکٹیبلز کہتے ہیں۔ 1937میں پہلی دفعہ پنجاب اسمبلی کے الکیشن ہوئے تھے۔ یونینسٹ پارٹی نے ان الیکشنز میں بھرپور کامیابی حاصل کی تھی۔ جناح کی قیادت میں مسلم لیگ کو پورے پنجاب سے صرف نشستیں پنجاب اسمبلی کی ملی تھیں ایک جہلم راجہ غضنفر علی خاں اور دوسری لاہور سے ملک بر کت علی ایڈووکیٹ۔ راجہ صاحب جیت کے اگلے دن یونینسٹ پارٹی میں چلے گئے تاہم ملک برکت علی تادم آخر مسلم لیگ سے وابستہ رہے تھے۔ یونینسٹ پارٹی کی جیت الیکٹیبلز کی مرحوں منت تھی۔جناح کو جلد ہی احساس ہوگیا کہ مسلم لیگ کو اگر پنجاب میں سیاست کرنا ہے تو اسے الکیٹیبلز سے ہاتھ ملانا پڑے گا چنانچہ انھوں نے پنجاب مسلم لیگ جس کے صدر علامہ سر محمد اقبال تھے کی شدید مخالفت کے باوجود پنجاب کے وزیر اعظم سر سکندر جناح سے معاہدہ کر لیا جسے جناح سکندر پیکٹ کے نام جانا جاتا ہے۔ سر سکندر کی وفات کے بعد ملک خضر حیات ٹوانہ پنجاب کے وزیر اعظم بنے انھوں نے جناح سکندر معاہدہ کو طاق میں رکھ دیا لیکن 1946 کے ہونے صوبائی اسمبلی کے الکیشن میں ملک خضر حیات ٹوانہ کے پاوں تلے سے زمین سرک گئی اور ان کی پارٹی مسلمان الکیٹیبلز جناح مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔ جنھیں ہم دولتانے، لغاری۔مزاری اور ملک کہتے ہیں وہ سب کے سب اسی طرح مسلم لیگ میں شامل ہوگئے جس طرح آج وہ تحریک انصاف میں شامل ہورہے ہیں۔ ہر جاگیردار خود یا اس کا بیٹا مسلم لیگ میں شامل ہونے کو بے چین ہوا جاتا تھا۔ یہ الیکٹیبلز ہی تھے جنھوں جناح مسلم لیگ کو پنجاب میں دسمبر 1946 کا الیکشن بھاری اکثریت سے جتوایا تھا اور پھر اسی الیکشن کی بنیاد پر تشکیل پانے والی پنجاب اسمبلی کی اکثریت نے پنجاب کو پاکستان میں شامل ہونے کی قرارداد منطور کی تھی۔ تقسیم کے بعد پنجاب کا پہلا وزیر اعلی نواب افتخار حسین ممدوٹ پشتنی جاگیردار تھا اور اس کا مخالف ممتازاحمد خان دولتانہ بھی جاگیردار۔ دونوں کی چپقللش میں دولنانہ کو وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان کی تائید حاصل تھی جس یوپی کا جاگیردار تھا اور وہ اپنے صوبہ یوپی سے الیکشن نہیں جیت سکتا تھا لہذا اس نے الیکشن مشرقی بنگال سے لڑا اور کامیابی حاصل کی تھی۔ پنجاب کا تیسرا وزیر اعلی عبدالحمید دستی بھی جنوبی پنجاب کا جاگیردار تھا۔مغربی پاکستان کے وزیر اعلی حسن محمود کا تعلق بھی جنوبی پنجاب سے تھا اور وہ بھی الکیٹیبل تھا اور اب اس کا بیٹا سابق گورنر پنجاب اور احمد محمود بھی جو پیپلزپارٹی سے وابستہ ہے الیکٹیبلز ہی ہے۔ جہانگیر ترین اس کا بہنوئی ہے۔
جنرل ایوب خان نے کنونشن لیگ میں چن چن کر الیکٹیبلز کا جمع کیا تھا پھر جب بھٹو نے پیپلز پارٹی بنائی تو ساری کی ساری چند مستثیات کو چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئی تھی کیونکہ ان الیکٹیبلز کو یقین ہوگیا تھا کہ جیت اب پیپلز پارٹی کی ہوگی۔ اور تو اور ملک معراج خالد بھی کنوشن مسلم لیگ سے پیپلز پارٹی میں آئے تھے۔ بھٹو نے ساڑھے چار سال میں چار وزیر اعلی مقرر کیے ان میں دو کا تعلق جنوبی پنجاب سے تھا اور دونوں کا شمار بڑے جاگیرداروں میں ہوتا تھا اس طرح انھوں نے گورنر پنجاب بھی ایک جاگیردار کو بنایا تھا۔نواب آف بہاولپور۔پنجاب کی سیاست ہمیشہ سے الکیٹیبلز کے گرد گھومتی رہی ہے۔ دیہی زندگی آج بھی الیکٹیبلز کی مظبوط گرفت میں ہے کوئی بھی پارٹی ان کے بغیر الیکشن نہیں جیت سکتی یہی وجہ ہے کہ فیصل صالح حیات جیسا سیاسی بھگوڑا جب چاہتا ہے پیپلز پارٹی میں آجاتا ہے اور جب چاہتا ہے چھوڑ دیتا ہے۔ اسے ہر پارٹی قبول کرنے کو ہر وقت تیار رہتی ہے۔ مستقبل قریب میں الکیٹیبلز سے جان چھوٹنے کی کوئی امید نہیں ہے۔ جب تک پنجاب کی دیہی معیشت پر جاگیردار قابض ہیں اس وقت تک الیکٹیبلز سیاست پر بھی قابض رہیں گے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“