کئی ماہ سے جاری سیاسی بحران مزید گہرا ہوتا جارہا ہے۔اس سیاسی بحران کی ابتدا تحریک عدم اعتماد سے شدت اختیار کرگئی ۔خداجانے کس کے مشورے پر ایک زوال پذیر حکومت کو ہٹا کر اس کو نئی زندگی دی گئی اور پرائی بلا اپنے سرلے کر جانے کون سا سیاسی چھکا مارا گیا۔اب تو لگتا یہی ہے کہ مخلوط حکومت میں شامل اتحادی بھی درپردہ اس تھپکی دینے والے کو تلاش کررہے ہیں جس کی آشیر باد سے ملک بھر سے اینٹ اور روڑے جمع کرکے موجودہ بھان متی کا کنبہ جوڑا گیا اور تحریک عدم اعتماد کامیاب کرائی گئی ۔اتنی بڑی سیاسی چال کا کچھ تو سبب ہوگا کوئی مضبوط کندھا تو ہوگا جس پر بندوق رکھ کرچلائی گئی اور نشانہ بھی ٹھیک لگا۔
یا پھریہ کہ صیاد خود اپنے دام میں آگیا ۔ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ شکاری خود ہی شکار ہوگئے اور جب یہ احساس ہوا تب تک بہت دیر ہوچکی تھی ۔اگر مخلوط حکومت کا موقف درست تسلیم کرلیا جائے کہ ملکی معیشت کو تبدیلی سرکار نے تباہ کردیا تو کوئی بتائے گا کہ موجودہ حکومت کے پاس سوائے مزید قرض لینے کے علاوہ ایسا کون سا نسخہ کیمیا تھا جس سے معاشی حالت بہتر ہوجانی تھی۔اگر بجلی ،گیس ، پٹرول اور دیگر اشیا کی قیمتوں میں اضافہ سے ہی معاشی حالت بہتر کرنی تھی تو یہ کارنامہ بھی سابقہ حکومت کو سرانجام دینے دیتے تو زیادہ اچھا ہوتا۔
حکومت سنبھالتے وقت وسیع تر قومی مفاد میں سیاست نہیں ریاست بچاو کا نعرہ مستانہ لگانے والوں نے فی الوقت سیاست بچانے کا ارادہ کرلیا ہے ۔ضمنی انتخابات کے نتائج نے مجبور کردیا کہ ان کو تلاش کیا جن کی تھپکی سے یہ سلسلہ شروع ہوا تھا اور پوچھا جائے کہ یہ سب کیا ہورہا ہے ۔اب حالت یہ ہے کہ سیاسی لڑائی کا دائرہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ مزید وسیع ہوتا جارہا ہے ۔پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے انتخاب سے جو سیاسی بحران شروع ہوا ہے اس نے سب کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کردیا ہے ۔کوئی فریق ہار ماننے کو تیار نہیں ہے ۔اور حکومتی اتحادیوں نے ممکنہ عدالتی فیصلے کو ناماننے کا واضح اعلان کردیا ہے ۔
اب لڑائی میں عدلیہ کو فریق بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ن لیگ کی قائد مریم نواز شریف صاحبہ کاٹوئیٹ تو واضح اعلان جنگ ہے جس میں وہ لکھتی ہیں کہ “اگر انصاف کے ایوان بھی دھونس،دھمکی ،بدتمیزی اور گالیوں کے دباو میں آکر بار بار ایک ہی بینچ کے زریعے مخصوص فیصلے کرتے ہیں ۔اپنے ہی دئیے فیصلوں کی نفی کرتے ہیں ، سارا وزن ترازو کے ایک ہی پلڑے میں ڈال دیتے ہیں تو ایسے یکطرفہ فیصلوں کے سامنے سرجھکانے کی توقع ہم سے نارکھی جائے ۔بہت ہوگیا”
اس کے ساتھ ہی ن لیگ کی ہر سطح کی لیڈرشپ نے عدلیہ کو اپنے نشانے پر رکھ لیا اور سوشل میڈیا پرعدالتی فیصلوں کے خلاف ایک افسوسناک منظم مہم چلائی جانے لگی۔اب لگتا یہی ہے کہ اگر عدلیہ کا فیصلہ تحریک انصاف کے حق میں آتا ہے تو ن لیگ نہیں مانے گی ۔یوں لگ رہا ہے کہ حالات نومبر 1997 والے ہونے جارہے ہیں جب سپریم کورٹ پر منظم حملہ ہوا تھا۔اگر خدانخواستہ ایسا دوسری بار بھی ہوتا ہے تو اس کے نتائج کیا ہوں گے ۔یہ عمل ملک وقوم اور انصاف کے نظام کے لیئے کس قدر بھیانک ہوگا کیا کسی سیاسی لیڈر شپ نے اس پر سوچا ہے ۔سیاسی لڑائی میں اداروں کو کیوں متنازعہ بنایا جارہا ہے یہ سوال تمام سیاسی جماعتوں سے بہرحال پوچھا جانا چاہیے۔من پسند عدالتی فیصلوں کےحصول کے لیئے طاقت کے استعمال کی دھمکیوں کا سدباب کون کرئے گا۔
اگریہی صورتحال برقرار رہی اور سیاسی جماعتوں نے عدالتی فیصلوں سے انکار کردیا اور طاقت کے زور پر خود ہی فیصلے کرنے لگ جائیں تو کیا ہوگا ۔سوائے خانہ جنگی کے کچھ نہیں ہوگا۔لاقانونیت کی ایک تکلیف دہ داستان رقم ہوگی۔بے گناہ اس جنگ کا ایندھن بن جائیں گے ۔سب کچھ برباد ہوجائے گا اور المیہ یہ بھی کہ کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔یہ ایک ایسی لاحاصل جنگ ہوگی جس میں شریک ہرفرد اور جماعت خسارے میں ہوں گے کسی کو نفع نہیں ہوگا اگر کوئی فائدے کی امید میں ہے تو وہ خاطر جمع رکھے اور ناقابل تلافی نقصان کے لیے تیار رہے۔
سوال اب بھی یہی ہے کہ اگر حالات نہیں سنبھل رہے تو پریشانی کیا ہے تمام سیاسی قیادت بیٹھ کر فیصلہ کرئے اور نئے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کردے۔عوام کو موقع دیا جائے کہ وہ اپنی مرضی کی نئی حکومت منتخب کرئے۔اور نئی حکومت ہی ملک وقوم کی بہتری میں فیصلے کرئے ۔کیوں ایک ایسے اقتدار کو طول دینے کی کوشش کی جارہی ہے جس کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہورہا ہے۔کیوں عوام کی رائے لینے سے گریز کیا جارہا ہے اس جمہوری نظام میں حتمی فیصلہ تو جمہورکا ہی ہوتا ہے ۔اسمبلیوں کی مدت پوری کرانا کوئی آسمانی فیصلہ تو نہیں کہ جس سے انحراف ممکن نا ہو
سیاسی قیادت کی سیاسی بصیرت تو ان چارسالوں میں کھل کر سامنے آگئی ہے طے ہوگیا کہ ہم نے سیاسی طورپر آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے کی طرف سفر کیا ہے ۔ہم آج بھی ڈائیلاگ کی صلاحیت حاصل نہیں کرسکے ہم اس قابل نہیں کہ مخالف سیاسی قوت کے ساتھ بیٹھ کر مذاکرات کے زریعے مسائل کا حل نکالیں۔ہماری ضد ، انا اور ہٹ دھرمی کے سبب عام آدمی جس قدر مشکلات کا شکار ہے ہمیں اس کی قطعی پرواہ نہیں ہے۔ہماری سیاسی اشرافیہ اپنے معاملات کو باہمی طور پر بیٹھ کر حل نہیں کرسکی اور اپنے مسائل کے حل کے لیے باربار عدالت کی طرف رجوع کررہی ہے ۔کیا ہی اچھا ہو کہ ملک کے مقتدر ادارے سیاسی اشرافیہ کو اپنے مسائل کے حل کے لیے عوام کے پاس جانے کا مشورہ دیں ۔پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لیے عدالت جو بھی فیصلہ دے طے شدہ امر یہ ہے کہ پنجاب کا سیاسی بحران مزید بڑھے گا کم نہیں ہوگا۔حرف آخر یہ کہ پنجاب کی پگ کس کے سر سجے گی اس کا فیصلہ عوام بالآخر عوام نے کرنا ہے اور وہی کرے گی اس دوران کی جانے والی ہر کوشش لاحاصل اور بے معنی ہے ۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...