رائے عبداللہ بھٹی شہید المعروف دُلا بھٹی خطہ پنجاب کا ایک عظیم سپوت اور جرات و بہادری کا استعارہ تھا جسے پنجابیوں نے اپنی یادوں میں زندہ رکھا ہوا ہے۔ ساندل بار سے تعلق رکھنے والا دُلا بھٹی عہد اکبری کا بہت بڑا باغی تھا جس نے مقامی قبائل کے غیور نوجوانوں کے ساتھ مل کر اکبر بادشاہ کے لشکر کے خلاف گوریلا جنگ لڑی وہ شاہی افواج سے خوراک اور نقدی چھین کر مقامی آبادی کے غرباء میں تقسیم کرتا رہا۔ اسے اپنے دور میں ایک زندہ ہیرو کا درجہ حاصل تھا۔ اسی لیے مقامی لوک شاعروں نے بھی اس کی زندگی میں ہی اسے اپنے گیتوں کا موضوع بنایا۔
دُلا بھٹی جسے پنجاب کا رابن ہُڈ بھی کہا جاتا تھا، وہ ساندل بھٹی کا پوتا اور فرید بھٹی کا بیٹا تھا،مغل شہنشاہ ہمایوں کے بعد اکبر بادشاہ نے تخت سنبھالا تو باغیوں کا قلع قمع کرنے کی ٹھانی۔ ساندل کے علاقے میں مغلوں کے سب سے بڑے دشمن فرید بھٹی اور ساندل بھٹی تھے لہذا ان دونوں کو گرفتار کرکے پھانسی دے دی گئی کیوںکہ انہوں نے اکبر کے دین الہٰی کو تسلیم نہیں کیا تھا اور نہ ہی یہ دونوں مغلوں کو تسلیم کرتے تھے۔
بڑے ہونے پہ ماں نے دُلا بھٹی کو باپ دادا کی موت کا بتایا تو دلے نے قسم کھائی کہ وہ اکبر کو نہیں چھوڑے گا، اس نے مغلیہ حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور خراج دینا بھی بند کر دیا، اسی دوران اس نے ایک چھوٹی سی فوج تیار کی اور اکبر کے حامی امراء اور زمینداروں کے گھروں پہ ڈاکے ڈالنا اور ان کو لوٹنا شروع کر دیا۔ دُلے کی ریشہ دوانیوں کے سبب مغلوں کو اپنا دارالحکومت لاہور لانا پڑا۔
اس کا خاص نشانہ مختلف حکمرانوں کی جانب سے اکبر کو بھیجنے والی ڈالیاں اور اکبر کی جانب سے ان کو بھیجے جانے والے تحائف ہوتےتھے۔روز بروز کی لوٹ مار سے تنگ آکر اکبر نے اپنے دو جرنیل اسکو قابو کرنے کے لیے روانہ کئے۔ مرزا علاؤ الدین اور مرزا ضیاالدین کی قیادت میں 12 ہزار کے لگ بھگ لشکر دُلا کے گاؤں پہنچا۔ مغل فوج نے بہت کوشش کی کہ دُلے کو گرفتار کرلے مگر دُلا اکبر کے حامی امراء سے لوٹ مار کرکے رقم غُرباء میں تقسیم کردیتا تھا یا غریب بچیوں کی شادیاں کروادیتا اس لئے مقامی آبادی دُلے کے ساتھ تھی۔
بادشاہ نے حکم دے رکھا تھا کہ اگر دُلا بھٹی زندہ نہ ملے تو اسے مردہ لایا جائے اور اگر ایسا بھی ممکن نہ ہو تو گھر کی خواتین کو دربار میں پیش کیا جائے۔ دُلا بھٹی تو مل نہیں سکا مگر ظل الہٰی کے حکم کی تعمیل میں سپاہی گھر کی خواتین کو ساتھ لے کر چل پڑے۔ دُلے کو معلوم پڑا تو اس نے پلٹ کر مغل فوج پہ حملہ کیا اور گھمسان کا رن پڑا سپاہ پٹ گئی اور مغل جرنیلوں نے دُلے کی ماں سے پناہ طلب کی۔ ماں نے دودھ کی بتیس دھاروں کا واسطہ دے کر دُلے کو روک لیا۔ مغلیہ فوج کی ناکام واپسی کے کچھ عرصے بعد مغلوں نے صلح کی شرائط طے کرنے کےلئے دُلے کو اپنا مہمان بنا کر دھوکے سے گرفتار کرلیا۔ کچھ دن شاہی قلعے میں رکھنے کے بعد دُلے کو تھانہ کوتوالی کے سامنے نکاص منڈی میں 26 مارچ 1599 کو پھانسی دے دی گئی، پنجاب کے اس مرد حریت کی نماز جنازہ مشہور صوفی بزرگ ’’مادھو لال حسین‘‘ نے پڑھائی۔ دلا بھٹی آج بھی پنجاب کے عوام کے دلوں میں زندہ ہے اور وہ اسے اپنا ہیرو مانتے ہیں۔
دُلا بھٹی اور لوہڑی کا تہوار
تقسیمِ پنجاب سے پہلے پورے پنجاب میں دُلا بھٹی کی یاد میں یہ تہوار منایا جاتا تھا۔ اس وقت یہ صرف مشرقی پنجاب میں ہی منایا جاتا ہے۔
جس نے ایک ہندو لڑکی کو مغل گورنر سے ازاد کروا کر ایک ہندو لڑکے سے اس کی شادی کروا دی۔اس شادی میں لڑکی کے ماں باپ نا تھے
ویڈیو لنک
لوہڑی دا تہوار ساڈی پنجابی رہتل دی گواچی ہوئی قدر "دھیاں سبھ دیاں سانجھیاں ہوندیاں نیں" نوں زندہ کر سکدا اے۔۔۔۔
ویڈیو لنک