بر صغیر پاک و ہند کے لوگوں کی ایک زبان پنجابی بھی ہے جس میں لب ولہجہ کی مٹھاس و شیرینی متاثر کن ہے پنجابی ادب کا آغاز بابا فریدالدین گنج شکر سے ہوتا ہے ان کے بعد سکھ مذہب کے بانی گرو نانک نے پنجابی زبان کو نئی سمت عطا کی اور سکھ مذہب کی بنیاد رکھی ،ان کے بعد اگلی صدی میں پنجابی شاعری کا آغاز نظر آتا ہے ،شاہ حیسن،سلطان باہو،شاہ شرف،علی حیدر،صالح محمد صفوری ،بلھے شاہ نے پنجابی ادب کو نئی جہت عطا کی ان صوفی شعرا۶ نے عام انسان کو اللہ کی رحمت سے قریب کرنے کے لیۓ عوامی زبان استعمال کی اور ہمیشہ امن،اخوت،بھائی چارے کا درس دیا،آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا .مختلف تشبیہات ،استعارات کے ذریعے زندگی کے گہرے اسرار و رموز، فلسفہ حسن و عشق آسان فہم زبان میں بیان کیۓ اور اپنے ارد گرد کے لوگوں سے معاشرتی تعلقات بھی قائیم رکھے تاکہ انسان ایک دوسرے کے اور رب تعالٰی کے قریب آ سکیں ، تمام صوفیا کا کلام دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ اپن ذات کی نفی کیۓ بغیر کوئی منزل حاصل نہیں ہوتی ان صوفی شعرا کے ہاں ذاتی انا یا تکبر کا شائیبہ تک نہیں،صرف ایک ہی ذات کی بڑائی کا بیان نظر آتا ہے مگر ان صوفیا کے پیروکار وں نے اپنے بڑوں کے پیغام پر اتنے غلاف چڑھا دیۓ کہ اصل مقصد ہی ختم ہو گیا اور انسان کی پوجا شروع ہوگیئی حافظ پڑھ پڑھ کرن تکبر ملاں کرن وڈیائی ہوُ
ساون مانہہ دے بدلاں وانگوں پھرن کتابں چائی ہُو
جتھے ویکھن چنگا چوکھا اُتھے پڑھن کلام سوائی ہُو
دو ہیں جہانیں مُٹھے باہُو جنہاں کھادی ویچ کمائی ہُو
ترجمہ
حافظ قرآن پڑھ پڑھ کر تکبر کرتے ہیں ملا لوگ بڑائی میں پڑ جاتے ہیں،ساون کے مہینے کے بادلوں کے بادلوں کی طرح کتابیں اٹھاے پھرتے ہیں جہاں کھانے پینے کی وافر چیزیں دیکھتے ہیں زیادہ کلام پڑھتے ہیں ان کے دونوں جہان گیۓ
یہ کلام آج کا نہیں کئی سو سال پرانا ہے مگر آج بھی سچا ہے کیونکہ عام انسان کے محسوسات بیان کیۓ گیۓ ہیں
یہ کلام سطان العارفین حضرت سلطان باہو کا ہے جنہوں نے پنجابی شاعری کے علاوہ فارسی نثر میں بھی تصوف کے موضوع پر لکھا ہوا کتابوں کا ایک معتدبہ ذخیرہ چھوڑا ہے ان کی زبان پوٹھوہار ،ہندکو،سرائییکی کا ملا جلا لہجہ ہے وہ ٣١ ١٦ ۶ میں شورکوٹ میں پیدا ہوے والدہ نے باہو نا رکھا
نام باہو مادر باہو نہاد
زایکہ باہو دائیمی باہو نہاد
ترجمہ
باہو کی ماں نے باہو نام رکھا کیونکہ باہو ہمیشہ ہو کے ساتھ رہا
وہ لکھتے ہیں
دل دریا سمندروں ڈونگھے کون دلاں دیاں جانے ہو
وچے بیڑے وچے جھیڑے وچے ونجھ موہانے ہو
چوداں طبق دے وے اندر جتھے عشق تمبو ونج تانے ہو
جو دل دا محرم ہووے باہو سوئی رب پچھانے ہو
ترجمہ
دل سمندر کی مانند گہرے ہیں دلوں کی تہہ میں کوئی نہیں پہنچ سکتا ان سمندروں میں کشتیاں اور ملاح سبھی موجود ہیں چودہ طبق دل کے خیمے کی طرح تنے ہوے ہیں باہو جو دل کا محرم ہو وہی رب کو جان سکتا ہے
ایک جگہ لکھتے ہیں
ایہہ تن رب سچے دا حجرہ وچ پا فقیرا جھاتی ہو
ناں کر منت خواج خضر دی تیرے اندر آب حیاتی ہو
شوق دا دیوا با ہنیرے متاں لبھی دست کھڑاتی ہو
مرن تھیں اگے مردے باہو جنہاں حق دی رمز پچھاتی ہو
ترجمہ
یہ بدن اللہ پاک کا حجرہ ہے اس میں جھانک کر دیکھو خواجہ خضر کی منت کرنے کی ضرورت نہیں تمہارے باطن میں آب حیات موجود ہے شوق کا چراغ روشن کرو شائید تمھیں اپنی کھوئی ہوئی چیزیں مل جائییں باہو وہ مرنے سے پہلے مر جاتے ہیں جو حق کی رمز پہچان لیتے ہیں
دوسری جگہ لکھتے ہیں
غوث قطب ہن اورے اویرے عاشق جان اگیرے ہو
جیڑی منزل عاشق پہنچن اوتھے غوث نہ پاون پھیرے ہو
عاشق وچ وصال دے رہندے جنہاں لا مکانی ڈیرے ہو
میں قربان تنہاں توں باہو جنہاں ذاتوں ذات بسیرے ہو
ترجمہ
غوث اور قطب توادھر ہی رہتے ہیں مگر عاشق ان سے آگے نکل جاتے ہیں جن منزلوں تک عاشق پہنچتے ہیں وہاں تک تو غوث چکر بھی نہیں لگا سکتے عاشق ہمیشہ وصال میں رہتا ہے اس کے ڈیرے لامکاں میں ہوتے ہیں میں ان پر قربان جاؤں جنہوں نے ذات میں بسیرا کیا ہے یہ تو ایک صوفی بزرگ کی ابیات کا مختصر سا جائزہ ہے جن کا ترجمہ پڑھ کر پتہ لگتا ہے کہ سب کی تلاش صرف ایک ذات سے شروع ہو کر اسی ذات پر ختم ہوتی ہے مگر ان صوفیا کےپیغام کی ترجمانی کرنے والے زمینی مقامات کے چکر میں ایسے کھو گئے کہ پیام کا مقصد ہی فوت ہوگیا اور اب رہنمائی کا فریضہ ادا کرنے والا حقوق وفرائض کی پہچان کرانے والے کم ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...