جو قوم زمانہ طالب علمی میں پریکٹیکل کی کاپیاں بنانے کی بجائے بنی بنائی کاپیاں خرید کر پریکٹیکل دے اور پورے نمبر بھی حاصل کرے اس قوم سے سائنسدانوں کے پیدا ہونے کی توقع کرنا عبث ہے ۔یہی وجہ ہے کہ دنیا اس وقت جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کی فوٹو گرافی سے نئی کہکشائیں دریافت کررہی ہے اور ہم ابھی تک بارشوں کے پانی کو کنٹرول کرنے کے جتن کررہے ہیں ۔بلوچستان کے 14 اضلاع سیلابی پانی میں ڈوب گئے اور ستم یہ کہ ہم ٹس سے مس نہیں ہوئے یہی حال ملک کے دیگر صوبوں کا ہے ۔نیشنل اور پرانشل سطح پر ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹٰیاں بنا دی گئیں کروڑوں اربوں روپے کے فنڈز ہرسال استعمال ہوجاتے ہیں مگران اتھارٹیز کا کام موسم کا الرٹ جاری کرنا ہی رہ گیا ہے ۔
ہمارے جیسے ملکوں میں قائم حکومتوں کا کام صرف اور صرف قرض کا حصول رہ گیا ہے ۔قومی اثاثے گروی رکھ کر قرضوں کا حصول شاید ہمارا قومی فریضہ بن گیا ہے ۔قرض کی مئے کا نشہ ہی اپنا ہے بس پیے جارہے ہیں اور مست و مست زندگی گذار رہے ہیں۔75 سال ہوگئے ایک ہی طرح کی زندگی گذارتے ہوئے مگر مجال ہے جو کبھی سدھرنے کا واہیات خیال ہی آیا ہو۔ایک مدت سے ہر موجودہ حاکم چور اور سابقہ حاکم ڈاکو تھا کا راگ الاپتے الاپتے پتہ نہیں ہم کس کو دھوکہ دے رہے ہیں ۔ملک کی خاطرقربانیاں مانگتے مانگتے بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ روزمرہ کی اشیائے خوردونوش عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوگئی ہیں ۔نتیجہ یہ کہ آئے روز بھوک سے تنگ آکر خودکشی کے واقعات ہورہے ہیں
عالمی مالیاتی اداروں کے جس چکر میں پھنس گئے ہیں کیا ان سے کبھی نکلنے کا موقع ملے گا کیا کبھی عام دیہاڑی دار مزدار ایک آرام دہ زندگی گذار سکے گا ۔کیا ہر شخص کو دو وقت کی روٹی دستیاب ہوگی کیا ہر بے روزگار کو روزگار دستیاب ہوگا۔کیا بے گھروں کو اپنی چھت اور بچوں کو سکولز دستیاب ہوں گے ۔کیا امن وامان کی حالت بہتر ہوگی اور عام شہریوں کے جان ، مال اور عزت وعصمت کو تحفظ حاصل ہوگا ۔یہ کوئی انہونی باتیں نہیں بلکہ وہ بنیادی حقوق ہیں جن کے تحفظ کی زمہ داری آئین اپنے سر لیتا ہے۔اگر حاکم وقت ریاست اور جمہور کے مابین اس سوشل کنٹریکٹ کو پڑھنے کو ہی تیار نہیں اور نا ہی اس کو اہمیت دینے کو تیار ہے تو سوال یہ ہے کہ یہ نظام کیسے چلے گا۔خیر نظام تو اب بھی نہیں چل رہا مگر حکمران بضد ہیں کہ نظام چل رہا ہے اور ہم ماننے پر مجبور ہیں کہ نظام چل رہا ہے کیونکہ اس کے سوا ہمارے پاس دوسرا کوئی راستہ بھی تو نہیں ہے۔اگر کوئی دوسرا راستہ ہوبھی تو ہم کونسا چلنے کو تیار ہیں ہماری حالت تو ان بھیڑوں جیسی ہے جن کو ساری زندگی بھیڑیے کا ڈر ہلکان کیئے رکھتا ہے مگر آخر کار ہمیں چرواہا ہی بھون کر کھاجاتا ہے ۔
ہم بھیڑیں ہی ہیں ایک ریوڑ ہیں جو کہاں ہانک کرلے جائے ۔ان دنوں پنجاب میں ضمنی انتخابات ہورہے ہیں سابق اور موجودہ حکمران مدمقابل ہیں دونوں ہی ایکدوسرے کو چور اور ڈاکو ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں دونوں کے جلسوں میں بھرپور عوامی شرکت ، فلک شگاف نعرے اور جوش وخروش اس بات کی عکاسی کررہے ہیں کہ کچھ نہیں بگڑا ہم خوش ہیں مطمئن ہیں ہم راضی ہیں کہ ہمارے حاکم جس حال میں ہم کو رکھیں تو پھر حاکموں سے کیا گلہ کیسا شکوہ۔2018 سے 2022 تک دو حکومتوں میں جو کچھ عوام کے ساتھ ہوا ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عوام ان دونوں حکومتوں کی پالیسیوں کو رد کرتے ہوئے س بنیاد پر ضمنی انتخابات کا مطالبہ کرتی کہ پہلے قوم کی معاشی حالت کو بہتر کیا جائے پھر اس کے بعد جمہور سے رائے لی جائے کہ کون حق حکمرانی رکھتا ہے
لگے ہاتھوں ان ضمنی انتخابات کا بھی تھوڑا ساجائزہ لیتے چلیں ۔17 جولائی کو پنجاب کے 20 صوبائی حلقوں میں ضمنی انتخابات ہونے جارہے ہیں ۔ان تمام حلقوں میں ن لیگ اور تحریک انصاف مدمقابل ہیں ۔حیرت اس بات پر ہے کہ کسی اور بڑی سیاسی جماعت کا کوئی امیدوار کیوں نہیں ہے ۔خاص طورپر پیپلزپارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کیوں ان انتخابات سے باہر ہیں ۔1985 کے غیر جماعتی انتخابات کے بائیکاٹ کا نتیجہ پیپلزپارٹی دیکھ چکی ہے اور اس بار بھی پنجاب کے ضمنی انتخابات سے غیر حاضری بہرحال پیپلزپارٹی کی پنجاب کی سیاست کے لیے زہر قاتل کے سوا کچھ نہیں ہے۔بہرحال یہ جس کا بھی فیصلہ تھا فی الحال تو ٹرینڈ یہ بن چکا ہے کہ پنجاب میں ن لیگ اور تحریک انصاف کے درمیان ہی مقابلہ ہوگا جب اکا دکا حلقوں میں کوئی جماعت ہوئی تو ہوئی اصل میدان ان دو سیاسی جماعتوں کے درمیان ہی سجے گا
رہی بات ن لیگ کی تو اس کے لیے یہ انتخابات زندگی موت کا مسلئہ ہیں اس کی بنیاد پر پنجاب حکومت اور آئندہ کے عام انتخابات کا دارومدار ہے ۔اس لیے ن لیگ تمام تر ریاستی مشینری استعمال کررہی ہے ۔جیتنے کے لیے تگ ودو کررہی ہے اور مخلوط حکومت میں شامل دیگر جماعتیں اس کی امداد کررہی ہیں اور اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ تحریک انصاف اکیلی جماعت ہونے کے باوجود ٹف ٹائم دے رہی ہے ۔تحریک انصاف نے مقابلے کی فضا بنا دی ہے ۔ضمنی انتخابات کا نتیجہ جو بھی آئے عمران خان نے اپنے ورکرز کو ایک جگہ جمع کردیا ہے اور اپنا بیانیہ بڑی وضاحت کے ساتھ اپنے کارکنوں کو سمجھا دیا ہے ۔
طے ہوگیا کہ آئندہ عام انتخابات میں پنجاب کے اندر تحریک انصاف ایک بھرپور الیکشن لڑنے جارہی ہے اور ن لیگ کو آسان الیکشن نہیں ملنے والا اس کو جیتنے کے لیے بھرپور محنت کرنی ہوگی پرفارمنس دینی ہوگی عوام کو ریلیف دینا ہوگا تب جاکر تحریک انصاف کے خلاف کامیابی مل سکے گی۔ایک بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگلی بارعمران خان بھلے اقتدار میں ناآسکے مگر وہ بھرپور اپوزیشن کرنے کی پوزیشن میں ہوگا اور ایسے میں پرسکون حکمرانی کرنا آسان نہی ہوگا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...