قطع نظر ان افرادیا خاندانوں کے جنہوں نے سرحدی افغانی علاقہ سے نکل کر ہندوستان میں اپنی ریاستیں قائم کیں۔ یا وہاں سکونت پذیر ہوئے ایک بڑی تعداد خان گجو کے وقت اور پھر مصری خان سالارزئی اور بہا کو خان خدوخیل کی قیادت کے زمانے میں دریائے سندھ کو عبور کرکے علاقہ چھچھ میں جا مقیم ہوئے اور ان کے ناموں کی نسبت سے آبادیاں ظہور میں آئیں اور اس وقت تک علاقہ چھچھ میں افغان مالکانہ حیثیت سے بیشتر حصہ پر آباد نظر آتے ہیں۔ علاقہ کے صاحب ثروت، تاجر پیشہ، زمیندار اور حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر سرفراز افرادکی اکثریت انہی افغان خاندانوں سے تعلق رکھتی ہے۔
چھچھ کا علاقہ مقام اتک سے دریائے سندھ کے مشرق کی طرف اور تحصیل صوابی کے بالکل مقابل جنوب میں ہے۔ یہ علاقہ چوراسی دیہاتوں پر مشتمل ہے۔ اس کے نام کی نسبت کا وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا مورخین اپنے اپنے خیال کے مطابق اسے کسی کے ساتھ منسوب کر دیتے ہیں۔ البتہ گزٹیر راولپنڈی ۱۸۶۵ء میں ایک انگریز افسرکرنل کریکرافٹ نے اس کی جو وجہ تسمیہ بیان کی ہے وہ دلچسپ بھی ہے اور معتبر بھی۔ وہ لکھتے ہیں کہ چھچھ کا لفظ اصل میں پشتو کا لفظ ’’چھج‘‘ہے۔ یوسفزیوں نے یہاں آکر یہ نام اس علاقہ کو دیا۔ ’’چھج‘‘ پشتومیں ہاتھ کی بنی ہوئی ایک ایسی چیز کو کہتے ہیں جس سے اناج صاف کیا جاتا ہے۔ اور اس کے تین کنارے محفوظ اور ایک ڈھلان کی شکل کا ہونا ہے ہو بہو یہ شکل علاقہ چھچھ کی بھی ہے بعد میں یہ لفظ ’’چھچ‘‘ سے چھچھ بن گیا۔ کرنل کریکرافٹ مزید لکھتا ہے:
’’چھچھ کے علاقہ میں گنجان آبادی یوسفزئی پٹھانوں کی ہے اور مالکوں میں اکثریت بھی یوسفزئی پٹھانوں کی ہے جو اعلیٰ درجہ کے کاشتکار ہیں۔ افغان جو پٹھان کہلاتے ہیں چھچھ کی وادی اور برہان میں آباد ہیں۔ ان کے آباؤ اجداد نے دلازاک کو یہاں سے باہر نکال دیا تھا اور خود آباد ہوگئے تھے۔ دلازاک کے بقیا کچھ گھرانے دو یا تین گاؤں میں اب بھی موجود ہیں۔ یہ پٹھان اچھی نسل اور بہترین قسم کے کاشتکار ہیں۔ آپس میں پشتو بولتے ہیں اور ملک کی زبان پنجابی سے نا آشنا ہیں۔ ان کے بہت سے قبیلے ہیں مثلاً سرکانی، متنی، علی زئی، وردگ، غرغشت وغیرہ ان کے خاندان آخری لفظ ٹی یا خیل سے معلوم ہوتے ہیں۔ علی زئی علاقہ برہان اور حضرو میں اور ساغری مکھڈ میں آباد ہیں۔ چھچھ اور برہان کے معزز اشخاص یہ ہیں۔ لطیف خان عمر زئی سکنہ ملک مالہ، میر عالم خان غرغشتی، نادر خان علی زئی سکنہ سردانہ، بوستان خان وردگ سکنہ نطوفہ، شیر محمد خان اور فیروز خان علی زئی سکنہ برہان، پٹھانوں کی آبادی پر مشتمل علاقہ چھچ میں ۵۶ گاؤں برہان میں ۹ اور مکھڈ میں ۷ گاؤں ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر دیہات میں بھی حصہ دار ہیں اور سرکار کو ۶۸۱۵۱ روپیہ سالانہ مالیہ ادا کرتے ہیں۔‘‘
ان کے علاوہ علاقہ چھچھ میں مندرجہ ذیل افغان قبائل بھی آباد ہیں مثلاً سید خیل، نسوزئی، ماموزئی، بڑیس، مرکی خیل، عمر زئی، ببوتی، مایار، میانہ، برہ زئی، سروانی، خگوانی، شیرانی، پیر زئی، عدل زئی، فرملی، خورہ خیل وگیرہ ان سب قبائل کی شاخیں اور ہم نسل لوگ انہی ناموں سے دریائے سندھ سے مغرب کی طرف علاقہ یوسفزئی کے سمہ(ضلع مردان) بونیر، سوات اور دیر باجوڑ میں بھی آباد ہیں۔ قبائل فرملی اورغرغشتی چھچھ آنے سے قبل علاقہ یوسفزئی کے تپہ روڈ موضع فرملی نزد شیوعا اور تپہ خودو خیل کے موضع غرغشتی نزد طوطالی میں آباد ہو چکے تھے وہ گاؤں جسمیں یہ لوگ نہیں ہیں پھر بھی اب تک انہی کے ناموں سے موسوم ہیں۔
ایف اے رابرٹ سن علاقہ چھچھ کے بندوبست کے بارے میں گزٹیر راولپنڈی ۱۸۸۵ء میں یوں اظہار خیال کرتاہے:
’’پٹھانوں کا بندوبست دوحصوں پر مشتمل ہے ایک ضلع کے شمال مغربی کونے پر تحصیل پنڈی گھیپ میں مکھڈ کے آس پاس جو ساغری پٹھان(بلاق خٹک) کہلاتے ہیں۔ دوسرا تحصیل اٹک علاقہ چھچھ میں یوسفزئی آباد ہیں۔ جو پشاور ضلع کی تحصیل صوابی سے دریائے سندھ کی مخالف سمت میں واقع ہے۔ پٹھانوں کے ان دونوں علاقوں کے درمیان، دریائے سندھ کے کنارے پر کھٹڑ اور قطب شاہی آوان آباد ہیں۔ چھچھ اور برہان کے علاقہ کا پٹھان آپس میں مل جل کر ایک قبیلہ چلا آرہا ہے ۔ وہ عموماً بہت ہی عمدہ کاشتکار ہیں۔ اور دریائے سندھ کیک پار اپنی برادری سے مختلف نہیں ہیں۔ اور نہ ہی ان میں کوئی مختلف خاندان بنے ہیں۔ اس وقت کے مشہور خوانین تحصیل اٹک میں حسب ذیل ہیں: میر عالم خان سکنہ غورغشی، آصف خان سکنہ ملک مالہ، امیر خان سکنہ ویسہ، علی اکبر خان سکنہ یاسین، اکبر خان سکنہ برہان اور غزن خان پٹھان جو اپنی وفاداری کے لئے مشہور ہے اور جس نے قضیہ پٹنہ ستارہ کے سلسلہ میں بہترین خدمات انجام دیں۔ جس کے سلہ میں تحصیل کہوٹہ میں انہیں ایک اچھی ریاست ملی ہے:‘‘
چھچھ کے موضع غرگژتی میں سید و خیل، عنایت خیل، ساہل خیل، کاکڑ، مٹہ خیل اسحاق زئی، سرما خیل وغیرہ آباد ہیں۔ کنج پورہ ریاست (جس کا ذکر احمد شاہ ابدالی اور مرہٹہ جنگ میں ہو چکا ہے) کی سربراہی سرما خیل غرغشتی کے پاس تھی۔
اوپر کے بیانات سے اس امر کی تصدیق تو ہو جاتی ہے کہ یوسفزئی وقتاً فوقتاً دیر سوات ، بونیر اور سمہ، علاقہ یوسفزئی سے نقل مکانی کرکے اپنے اپنے خاندانوں سے جدا ہو کر علاقہ چھچھ میں آکر آباد ہوگئے تھے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ انگریز کے اس علاقے پر قابض ہونے سے قبل کے مکمل حالات باوجود سخت جستجو کے نہیں مل سکے جن پر کچھ روشنی ڈالی جاتی۔ یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ یہ لوگ اپنے بھائیوں کے شانہ بشانہ مصروف جنگ و جدل رہے اور بربریت کے جو مظاہرے بونیر سوات اورصوبہ سرحد کے افغانوں پر مغل، سکھ اور انگریز حکمرانوں کی طرف سے ہوتے رہے ان میں پہلا نشانہ یہی بنتے رہے۔
“