بدقسمتی بیکن ہاوس ساہیوال کے ہیڈ ماسٹر کی جس نے دانستہ، غیر دانستہ یا پھر سکول کی غیر اعلانیہ پالیسی کے تحت وہ نوٹیفکیشن جاری کیا جس میں پنجابی کو "فاول لینگویج" بتایا گیا۔ اور اس پر ستم یہ کہ کسی نے اسے سکین کر کے سوشل میڈیا پر ڈال دیا۔ بس وہ وقت تھا کہ نوٹیفکیشن پر پڑنے والی ہر نظر کیساتھ احتجاج بڑھتا ہی چلا گیا اور آج ہر طرف یہی تزکرہ، یہی شور ہے کہ سکول نے پنجاب کی ماں بولی کی توہین کیوں اور کیسے کی۔ پنجابی یا غیر پنجابی سب قوم پرست اس فعل پر معترض نظر آئے۔ پنجاب کی پڑھی لکھی نوجوان نسل کو اس سب پر احتجاج کرتے دیکھ کر جہاں خوشی ہوئی وہاں ان پنجابی بزرگوں پر غصہ بھی بہت آیا کہ جنھوں نے غیر پنجابی بیوروکریسی سے متاثر آج تک اپنی ماں بولی کے لیے کچھ بھی نہ کیا۔ کچھ تو اسقدر احساس کمتری کا شکار ثابت ہوئے کہ انھوں نے نہ صرف اپنے بچوں کو ماوں کی زبان بولنے سے منہ کر دیا بلکہ گھروں میں بھی جعلی اور غیر حقیقی ریاستی بیانیہ رائج کر دیا۔
سکول انتظامیہ نے سوشل میڈیا پر اس نوٹیفکیشن کے بعد بڑھتے ہوئے شدید ردعمل کے جواب میں اپنے سوشل میڈیا فین پیج پر وضاحتی پیغام جاری کیا اور بات پہلے سے بھی زیادہ بڑھا دی۔ بجائے اس کے کہ سکول اس پر غیر مشروط معافی مانگ کر بات ختم کر دیتا رعونت کے مارے سرمایہ دار مالکان کی طرف سے لوگوں کو یہ بھی کہہ دیا گیا کہ آپ کو انگریزی پڑھنی نہیں آتی ورنہ نوٹیفکیشن لکھنے والوں کا مطلب اور نیت پنجابی کی توہین کرنا نہیں تھا۔ جبکہ نوٹیفکیشن دنیا میں انگریزی جاننے والے کسی شخص کو بھی پڑھوا لیا جائے تو اسکا مطلب یہی نکلے گا کہ گالیوں کے ساتھ پنجابی زبان کو بھی فاول لینگویج کہا گیا۔ افسوس یہ سکول بلھا شاہ کے شہر قصور کے خورشید قصوری کا بیٹا چلا رہا ہے۔ بابا بلھے شاہ نے اپنے کلام کے ذریعے جو فخر کی پگ قصوریوں کے سر پر رکھی تھی وہ قصوری صاحب کے بیٹے نے پیروں تلے روند ڈالی۔ اس اعلی تعلیم یافتہ خاندان کے اونچے سکول سے اُمید تو یہ تھی کہ یہ صدیوں سے پنجاب کے استحصال سے پیدا ہونے والی جہالت اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے احساس کمتری سے پنجابی قوم کو نکالنے میں مدد کریں گے، اپنے او لیولز کے مضامین میں پنجابی کو بطور الگ مضمون پڑھائیں گے، بابا بلھے شاہ اور دیگر صوفی شعرا کا کلام پڑھائیں گے، سکول میں پنجابی زبان کی پروموشن کے لیے پنجابی ڈراموں کا انعقاد کروائیں گے، لبرل اور روشن خیال لوگوں کا سکول ہے تو یہاں انگریزی اور ہندی گانوں پر ناچنے کیساتھ گدھے بھی ڈالے جائیں گے، مگر یہ تو خود احساس کمتری کا شکار نکلے، یہ تو خود استحصالی نکلے۔ شرم کی بات ہے کہ جس دھرتی سے آپ کھا کما رہے ہو، وہیں کی زبان کو آپ برا کہہ رہے ہو، جن بچوں سے فیس لے کر کروڑوں اربوں روپیہ کماتے ہو انہی کی ماں بولی کو برا کہہ رہے ہو۔ اس سب کے بعد خورشید قصوری صاحب سے کیا کہیں، عمران خان کو کہنا چاہتا ہوں کہ اگر یہ احتجاج ہونہی مقبول ہوتا چلا گیا اور عام پنجابی کو بھی وہی بات سمجھ آنے لگی جو اسوقت سوشل میڈیا کے پڑھے لکھے پنجابی کو آ رہی ہے تو آپکے ساتھ بھی اچھا نہیں ہوگا۔ قصوری صاحب کے بیٹے نے اس توہین آمیز نوٹیفکیشن کا ازالہ تسلی بخش طریقے سے نہ کیا تو قصوری صاحب کے کروبار اور سیاست کیساتھ تحریک انصاف کا بوریا بسترا بھی پنجاب سے گول ہو سکتا ہے۔
دوسری طرف اگر یہی حرکت بیکن ہاوس کراچی کی کسی برانچ سے ہوئی ہوتی تو اس وقت تک سندھ اسمبلی میں اسکے خلاف قراداد مذمت پاس ہو چکی ہوتی۔ سوچتا ہوں پنجاب اسمبلی کے ٹوٹل تین سو اکہتر اراکینِ صوبائی اسمبلی میں سے کسی ایک کی والدہ بھی پنجاب سے نہیں تھیں کیا؟ کسی کی بھی ماں بولی پنجابی نہیں تھی کیا؟ ان میں سے کوئی بھی پنجابی نہیں ہے کیا؟ اگر نہیں تو یہ سب کے سب، تین سو اکہتر لوگ پنجاب اسمبلی میں کر کیا رہے ہیں؟ شرم حیا سب نے بھون کر کھا رکھی ہے کیا؟ بقیہ تینوں صوبوں میں مادری زبان پڑھائی جاتی ہے، پنجاب میں پنجابی پڑھاتے موت کیوں آتی ہے؟ کتنی شرم کی بات ہے آج پاکستان بنے ستر سال ہونے کو آئے اور آج تک پنجاب کی کسی معروف سیاسی شخصیت نے اس ضمن میں بولنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ پنجاب کی بے تاج بادشاہ شریف فیملی کو بھی یہ توفیق کبھی نہ ہوئی کہ وہ پنجابی کو پنجاب کے سکولوں میں پوری طرح رائج نہیں تو کم از کم لایک ازمی مضمون کے طور پر پڑھانے کا اعلان ہی کر دے۔ جبکہ عربی اردو جن کا دور دور تک اس خطے کی ماوں سے کوئی واسطہ نہیں ان کو سکولوں میں لازمی قرار دیا جاتا رہا۔ کوئی رابطے اور قومی زبان کی بنیاد پر اہم سمجھی گئی، کوئی مذہب کی بنیاد پر متبرک خیال کی گئی اور کوئی انٹرنیشنل زبان کے طور پر مجبوری بنی۔ جس کی کوئی اہمیت نہیں وہ ہماری ماوں کی زبان ہے، وہ ہمارے بزرگوں کی عارفوں کی زبان ہے۔ شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے، ہے کوئی جسے ذرا سی شرم آ جائے؟
پنجاب میں جب بھی پنجابی کی بات کی جائے کچھ دوست یہ اعتراض سانے لے آتے ہیں کہ اگر آپ پنجابی کی بات کرتے ہیں تو ہم پوٹھوہاری یا سرائیکی کی بات کرتے ہیں۔ ان دوستوں کو واضع کرنا چاہتا ہوں کہ مائیں سب کی سانجھی ہوتی ہیں اور ماں بولیوں کا احترام بھی سب کے لیے سانجھا ہے۔ سرائیکی پنجابی اختلاف کی کوئی حقیقت نہیں، یہ محض ہمیں آپس میں لڑانے اور الجھائے رکھنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی ڈرامہ بازی ہے۔ اگر سرائیکی، چکوالی، پوٹھوہاری، ہندکو، جالندھری، ماجھی وغیرہ الگ زبانیں ہیں تو پھر پنجابی کوئی زبان نہیں۔ انھیں آپ پانچ دریاوں کی زبانیں کہیے یا لہجے، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اصل بات اور مطالبہ بس یہی ہے کہ پنجاب میں علاقائی زبانوں کے استحصال کی داستان اب ختم ہونی چاہیے۔ لہذا پوٹھوہار میں پوٹھوہاری، چکوال میں چکوالی، سرائیکی علاقوں میں سرائیکی، سینٹر پنجاب میں ماجھی اور گجرات میں گجراتی پڑھائی جائے۔ ریاست کے لیے یہ کوئی مشکل کام نہیں۔ میں آج اپنی حیثیت میں اپنی حد تک، نواز لیگ، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ اگلے انتخابات میں اُس جماعت کو ووٹ دوں گا جو پنجابی کو نصاب کا لازمی حصہ بنانے کا وعدہ کرے گی۔ اور اگر کوئی جماعت بھی ، ایسا نہیں کرے گی تو میں ایسی جمہوریت اور اس کے بیلٹ پیپر پر تھوکنا بھی پسند نہیں کروں گا۔ پنجاب کے دیگر شہری اگر اپنی ماں اور اسکی زبان سے پیار کرتے ہیں، ان سے بھی یہی گزارش ہے کہ وہ اپنے اپنے انداز میں احتجاج ریکارڈ کروائیں۔ تاہم میری نظر میں، جس ریاست میں اکثریت کو اس کی ماں بولی کا احترام، حق اور جائز مقام نہیں ملتا، وہاں احتجاج کا واحد پر امن راستہ، دو نمبر جمہوری نظام سے لا تعلقی ہی ہو سکتا ہے۔
https://www.facebook.com/punjabi.thinker/posts/1051706408261982
“