آپ نے پنجابی زبان کا وہ ٹپا تو سنا ہوگا کہ،۔
بارھیں برسیں کھٹن گیا تے ____ کھٹ کے لیایا جھانواں
یعنی بارہ برس کمانے گیا اور کما کر لایا جھانواں۔ یعنی ایک بالکل فضول چیز۔ اس کے علاوہ کئی بیکار حضرات کی پنجابی میں تعریف و تذلیل کے لئے یہ لفظ بطور ضرب المثل بھی استعمال ہوتا ہے
لیکن یقین کیجئے کہ جھانواں قطعی طور پر کوئ بیکار چیز نہیں ہے بلکہ انتہائ کارآمد شے ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ جب مٹی کے برتن بنانے والے کمہار یہ جھانویں بھی بنایا کرتے تھے بلکہ اب بھی بناتے ہیں۔ اس کی مدد سے پاؤں کی ایڑیوں اور تلووں کو رگڑ کر صاف کیا جاتا تھا۔ بدلتے وقت کے ساتھ جھانویں نے بھی جدید شکل اختیار کرلی ہے اور اسپا میں پیڈی کیور
کے لئے دھاتی اور پلاسٹک کے جھانویں استعمال ہونے لگے ہیں۔ لیکن یہ مٹی کا جھانواں اب بھی مٹی کے برتن والوں کے پاس با آسانی مل جاتا ہے اور وطن عزیز میں عوام کی اکثریت اب بھی یہی استعمال کرتی ہے۔
کمہار کے مٹی سے بنائے جھانویں استعمال کے کچھ عرصے بعد ہموار ہوجاتے ہیں اور استعمال کے قابل نہیں رہتے یا ٹوٹ بھی جاتے ہیں۔ ان کے بغیر آپ صاف ستھرے پاؤں کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اس کے علاوہ یہ پھٹی ایڑیوں کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔
دوسرا کالے پتھر کا جھانواں پتھر (انگریزی: Pumice) آتش فشاں پہاڑوں کامسام دار سنگی مادہ جو پانی سے ہلکا ہوتا ہے اور جسے ہاتھی دانت، لکڑی، سنگ مرمر، دھاتوں یا شیشے کو پالش کرنے یا چکنا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
یہ جھانواں کراچی میں ہر جگہ نہیں ملا کرتا تھا تو ہم یہ لاوا اسٹون کا جھانواں یا تو بہادر آباد کے عالمگیر ھوم اسٹور سے لیا کرتے یا ایمپریس مارکیٹ سے۔
جھانویں کی یہ مقبول قسم سیاہ رنگ کا لاوا اسٹون ہے جو سمندر میں آتش فشاں کا لاوا گرنے کے بعد ٹھوس شکل اختیار کرلیتا ہے ۔ شدید گرمائش کی وجہ سے جب اس پر پانی پڑتا ہے تو اس کے اندر موجود گیسز باہر نکلتی ہیں جس کی وجہ سے اس کی سطح پر ننھے ننھے سوراخ بن جاتے ہیں۔ یہ لاوا اسٹون پانی سے ھلکا ہوتا ہے۔ اس کو بطور جھانواں استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ بلوچستان کے پہاڑی علاقوں میں بھی مل جاتا ہے۔ یہ لمبا عرصہ چلتا ہے اور ٹوٹتا بھی نہیں ہے۔ یہ عام طور پر اسٹورز پر مل جاتا ہے۔
اس کے علاوہ جدید دور کے دھاتی اور پلاسٹک کے مختلف شکل و حجم کے جھانویں بھی دستیاب ہیں لیکن سب سے بہترین لاوا اسٹون کا جھانواں ہی سمجھا جاتا ہے جسے ہر باتھ روم کے ریک میں ہونا چاہئے۔
پکی ہوئ خشک توری کا جال نما پنجر بھی بطور جھانواں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ جدید دور کے نائلون کے ریشے سے بنے لُوفا (Loofah) بھی جسم رگڑنے کے لئے بہترین ہیں کیونکہ پتھر کا جھانواں آپ پورے جسم پر نہیں رگڑ سکتے۔
نفیس اور نازک مزاج لوگ پتھروں کی بجائے خشک توری کا جھانواں یا لُوفا استعمال کرتے ہیں ۔ بنیادی طور پر پتھر کا یا کوئی سخت قسم کا جھانواں ان لوگوں کے لیئے ہوتا ہے جو کہ ہفتے بعد پاؤں دھوتے ہوں۔
پاؤں دھونے سے مراد یہ ہے توجہ دے کر دھونا ۔ اب توجہ دے کر دھونا کیا ہوتا ہے ؟ وہ یہ ہوتا ہے کہ ۔
ایک بالٹی میں گرم پانی ڈالیں اگر بچاکھچا صابن کے ٹکڑے محفوظ کرنے کی عادت ہے تو وہ ڈال دیں ورنہ بازاری شیمپو ایک ساشے ڈال دیں اور تھوڑا سا ڈیٹول تھوڑا سا سرسوں کا تیل پانچ چھ قطرے ڈال دیں اور پھر ٹھنڈا پانی ڈال کر بالٹی کو اتنا بھر لیں کہ آپ کے پاؤں گٹوں سے دو تین انگلی اوپر تک مکمل ڈوب جائیں پھر کرسی پر بیٹھ کر بالٹی میں پاؤں رکھ کر آرام سے اخبار یا کوئی کتاب یا موبائل پر گفتگو یا کوئی فلم دیکھیں آدھنے گھنٹے بعد پاؤں نرم ہوچکے ہوں گے جھانویں سے صاف کریں تو کھال نہیں اترے گی۔
جب پاؤں کی اس طرح دھونے کی پریکٹس دو تین مہینے سے زیادہ ہوجائے تو پھر اس کی ضرورت نہیں رہتی ہے عام طور پر نہانے کے بعد اچھی طرح صابن لگا کر توری کے جھانویں یا اگر توری نہیں مل رہی ہے تو لُوفا کو بطور جھانواں استعمال کریں۔
لیکن یاد رہے کہ رات کو سوتے وقت پاؤں پر پٹرولیم جیلی یا اگر وہ میسر نہیں ہے تو سرسوں کا تیل اور اگر وہ بھی میسر نہیں ہے تو عام گھر کے کھانے میں استعمال ہونے والا کوکنک آئل ہلکا ہلکا مساج کرکے جرابیں پہن کر سوجائیں
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...