دہشت گرد انسانیت کے دشمن ہیں جبکہ سپاہی دشمنی کی بنیاد کو ختم کر کے ملک کی حفاظت کرتا ہے . چودہ فروری جب ایک دنیا محبت کے جشن میں ڈوبی تھی ، خون کی ایک سرخ لکیر ہندوستان کے نقشے پر نمودار ہوئی اور سارا ملک سوگ میں ڈوب گیا .
پلواما میں جو کچھ ہوا، نہیں ہوناچاہئے تھا۔ دل خون کے آنسو رورہاہے۔ .یہ موقع جذبات بھڑکانے کا نہیں ہے۔ یہ موقع ٹھہر کر، سوچنے کا ہے۔یہ موقع دہشت گردی کے خلاف پوری طاقت سے اٹھ کھڑے ہونے کا ہے۔یہ موقع جنگ کا نہیں ہے۔ جنگ کسی مسئلے کا حل نھیں ۔ ہم نے انتقام اور بدلے کی آگ میں سلگ کر کیا حاصل کرلیا .یا اب تک ہم جنگ جنگ کا کھیل کھیلتے ہوئے کیا حاصل کرسکے؟ جنگ میں کون مارا جائے گا؟ ہمارے فوجی یا عوام ۔ سوچنا یہ بھی ہے کہ ہندوستان کے عوام دہشت گردوں کے ساتھ ہیں اور نہ پاکستانی عوام، پھر یہ کیسی سیاست ہے جو مہذب دنیا میں اب تک دہشت گردوں پر روک نہیں لگا سکی۔ یہ کیسی سیا ست ہے کہ آئے دن سرحدوں پر ہمارے اپنے گولیوں سے یا تو زخمی ہورہے ہیں یا ہلاک۔ یہ وقت سرجیکل اسٹرائیک کا نہیں ، جس کا مشورہ دیا جارہا ہے۔
قتل وغارت کی اس تاریخ میں بار بار ایک ہی نام ابھر کر سامنے آرہا ہے۔ کوئی عمر کوئی عادل، کوئی فرقان۔ اب پہلے سے کہیں زیا دہ شدت کے ساتھ یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور ہم ہندوستانی تو دہشت گردوں کو دوگز زمین کا حصہ بھی نہیں دیتے . ہماری تاریخ میں یہ واقعہ بھی درج ہوچکا ہے۔ہم یہ بھی دیکھ چکے کہ نفرت سے ہمارے مسائل حل نہیں ہوئے اور دہشت گردی کو عروج ملتا رہا۔ یہ وقت حکومت کے سربراہوں کا مذاق اڑانے کے لئے نہیں ہے ۔یہ وقت سیا سی پارٹیوں کے لئے بھی ہے کہ وہ مل کر دہشت گردی کے مکمل خاتمہ کا حلف لیں۔جب نفرت سے بات نہیں بنتی تو محبت سے بنے گی۔ پچھلے بیس برسوں کا حاصل یہ ہے کہ ہزاروں فوجی ہلاک ہوئے۔ کشمیر کا تنازعہ اپنی جگہ رہا۔حکومتیں تبدیل ہوتی رہیں اور دہشت گردوں پر قابو پانے کی ہر کوشش نا کام رہی۔پلواما میں جو کچھ بھی ہوا وہ خفیہ ایجنسیوں پر بھی سوالیہ نشان لگاتا ہے ۔ سی آرپی ایف کی 54 ویں بٹالین سے وابستہ فوج کا قافلہ 78 چھوٹی بڑی گاڑیوں پر مشتمل تھااورجو جموں سے سری نگر آرہا تھا۔دہشت گردوں نے اس بس کو نشانہ بنایا جس پر سی آر پی اےف کے جوان تھے۔350کلو گرام بارود کے ساتھ کوئی کار وہاں کیسے آسکتی تھی۔؟ جب فوج کا اتنا بڑا قافلہ جارہا تھاتو دوسری غیرضروری گاڑیوں پر روک کیوں نہیں لگائی گئی؟ دہشت گردوں کی روک تھام کے لئے اعلی سطح کی جانچ ضروری ہے۔مگر سوال اب بھی برقرار ہے ۔ہماری اصل جنگ دہشت گردی سے ہے۔ عالمی سیاست کے نقشے پر بھی دہشت گردی اس حد تک داخل ہو چکی ہے کہ وقفے وقفے کسی نہ کسی خطے سے دھواں اٹھتا ہوا نظر آجاتا ہے۔
ابھی ہم اپنوں کا سوگ منارہے ہیں ۔ مانگ اجڑ گئی۔ کلائیاں سونی ہو گیئں ۔ ناپاک سیاست کا حاصل کچھ نہیں ..۔ ضرورت ہے اس بنیاد کو ختم کرنے کی، دہشت گردی جہاں سے عروج پاتی ہے ..یہ وقت پاکستان کے لئے بھی سوچنے کا ہے کہ دہشت گردوں کے ٹھکانے اگر ختم کردئے گئے تھے تو لشکر طیبہ اور جیش محمد جیسی تنظیمیں اب تک زندہ کیوں ہیں ؟جب تک ایسی ایک بھی تنظیم زندہ ہے تب تک امن ودوستی کے راستہ میں یہ دہشت گرد رکاوٹ پیدا کرتے رہیں گے۔
یہ وقت پہلے سے کہیں زیادہ ضبط، صبر، تحمل اور برداشت کو دعوت دیتا ہے۔ ہم اپنے جذبات پر قابو رکھیں ۔ جذباتی اور بھڑکاؤ باتیں نہ کریں .۔ اور دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لئے سوچیں ۔ہماری اشتعال انگیز فکر کا ایک راستہ بھی دہشت گردی کی طرف جاتا ہے۔نفرت اور انتقام حل نہیں ہے۔ نفرت اور انتقام کا ہر راستہ بے قصور اور معصوم لوگوں کی ہلاکت سے گزرتا ہے۔
میں اس حادثہ کی پر زور مذمت کرتا ہوں اورپلواما کے شہیدوں کوخراج عقیدت پیش کرتاہوں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...