وہ گجرات شہر کا باسی تھا، نام اعجاز بٹ اور عین بٹ ھونے کا ثبوت فربہی جسم.. عمر تیس سے اوپر.. ایک اوسط سے کم درجے کا خاندان..باپ رنگ روغن کا کام کرتا تھا مگر کام سے زیادہ بیمار رھتا تھا.. تین بہنیں اور دو بھائی.. اعجاز سب سے بڑا اور فیصل آباد میں ایک کپڑے کی فیکٹری میں ملازم.. تنخواہ سے گھر چلتا تھا، چلتا کیا رینگتا تھا
اعجاز تنگ تھا، گھر کے حلات سے،تین بہنوں کی شادیاں.. باپ کی بیماری.. چھوٹا بھائی ابھی ھر لحاظ سے چھوٹا.. فیکٹری کی تنخواہ سے زندگی نہ بدل سکتی تھی.. تمام عمر رینگنا، زندگی گھسیٹ گھسیٹ کے آگے بڑھانا کب تک… آخر کب تک؟؟
اس کی جان پہچان کے دو دوست ایجنٹ کے ذریعے یورپ جا رھے تھے.. اعجاز بٹ نے بھی ادھر ادھر سے پیسے اٹھائے اور ایجنٹ کے ھاتھ پہ رکھ دئیے..
گجرات سے کوئٹہ کا سفر.. کوئٹہ سے دس لوگوں کا قافلہ "زندگی بنانے" چل پڑا.. آگے ایران کا بارڈر پار کرنا آسان قطعی نہیں تھا.. مگر جیسے تیسے ایران کی سرحد پار کی، سبزیوں کے ٹرک میں گھُس کے وہ چار دنوں میں ترکی کے بارڈر پہ جا پہنچے…
ترک کی سرحدی پولیس گولی چلانے کے علاوہ کچھ نہیں جانتی.. اور ترکی بارڈر پہ اس قافلے کو تین دن تک چھپ چھپا کے رھنا پڑا… بٹ کی حالت غیر تھی.. بھوک بہت لگتی تھی اور بھوک برداشت نہیں ھوتی تھی.. اللّہ اللّہ کر کے ترک بارڈر کراس کیا تو سارے قافلے نے شکرانے کے سجدے کیـے…
مختلف شہروں سے گزرتے، ٹھہرتے، بلغاریہ کے بارڈر پہ پہنچے..
دسمبر کا مہینہ.. برف کی سفید چادر نے سارے میں سفیدی بھر دی تھی.. اور یہ گجرات سے آئے بٹ سمیت تینوں لوگوں کی پہلی برف یاترا تھی.. سردی ہڈیاں چیر رھی تھی اور ان لوگوں کے پاس اتنے گرم کپڑے نہ تھے.. ایک چھوٹے سے کمرے میں دس بندوں کو ٹھونس کے ایجنٹ تین دن بعد ھی لوٹا..
ایجنٹ نے بلغاریہ کا بارڈر پار کرنے کا ایسا نقشہ کھینچا کہ بٹ دھاڑیں مار مار کے رو پڑا… بقول ایجنٹ، آگے برف ھی برف ھے اور پہاڑ ھی پہاڑ.. سارا راستہ چڑھائی کا ھے.. اور عین بلندی پہ چیک پوسٹ جہاں سے پولیس والےوقفے وقفے سے سرچ لائٹس ڈالتے ھیں اور جہاں ھلکی سی بھی ھلچل دکھائی دے، گولیاں چلا دیتے ھیں… جان کی گارنٹی نہیں…
قافلہ چل پڑا.. برف گھٹنوں تک تھی اور برف میں چلنا انتہائی مشکل… ایجنٹ سب سے آگے تھا اور بٹ سب سے پیچھے… پہلی بار برف میں چلنا وہ بھی چڑھائی، اوپر سے موٹاپا.. بٹ ھر دو منٹ بعد چار منٹ سانس لینے کو رکتا تو پورا قافلے کو رکنا پڑتا..
سرد ھوا کی آندھی.. سانس لینے میں دقت کا سامنا سب کو تھا اور سب سے زیادہ بٹ متاثر ھو رھا تھا.. قدم اٹھانا مشکل سے مشکل تر ھوتا گیا اور بٹ گر پڑا… سانس رکنے لگی.. ساتھیوں نے منہ سے سانس دے کے سانس بحال کرنے کی کوشش کی… بٹ کے ھاتھ اور منہ نیلے پڑ چکے تھے جیسے خون جم چکا ھو.. سب کی منزل بلغاریہ کا بارڈر کراس کر کے زندگی بنانا، پیسے کمانا تھا… اور بٹ ایک قدم چل نہ پارھا تھا.. ساتھیوں نے مختلف شفٹوں میں اسے کندھوں پہ اٹھا کے آگے بڑھنے کی کوشش کی مگر بٹ کا وزن اور اوپر سے برفیلی ھوا اور نیچے سے گھٹنوں تک برف… بٹ برف کی طرح سفید پڑ چکا تھا… سامنے ھی سرچ لائٹس وقفے وقفے سے جاگتی تھیں پھر سفید اندھیرا… سب یورپ کے مسافر سپاہیوں کی شفٹ بدلی ھونے کا انتظار کر رھے تھے اور اعجاز بٹ موت کے دھانے پہ… ایجنٹ نے آگے بڑھنے کااشارہ دیا اور بٹ نے ھاتھ اٹھا کے ساتھیوں کو شاید جانے کا اشارہ دیا یا الوداع کہا.. ساتھی منزل کی چاہ میں آگے بڑھ گئے اور گجرات شہر کے باسی نے ترکی اور بلغاریہ کی سرحد پہ موت کی سفید چادر اوڑھ لی…
(یہ فسانہ نہیں، حقیقی واقعہ ھے، جو اعجاز بٹ کے کوئٹہ سے ھم سفر علی ھزارہ نے سنایا جو آج ناروے میں مقیم ھے)