کُتھے پئے جُلنے او
پنڈ ملکاں محفوظ شہیدکے مزار پر
تُساں محفوظ کی کسراں جاننےاو
وہ میرا بھائی ہے
ـــ
محفوظ ناں ہکا ای بھرا اے میں اس کی سنجانناں
محفوظ میرا فوجی بھائی ہے۔ وہ جو وردی پہن کر شہادت سے سرفراز ہوا وہی خاکی وردی میں نے بھی پہنی ہے
اوتکو! بسم اللہ جی آیاں نوں! میں تساں کی ماڑهے پنڈملکاں لئی گچھناں
اس بسم اللہ میں سارا پوٹھواری رچاؤ اور گرمجوشی تھی اور ان سادہ لوح دیہاتی آنکھوں میں ایک اجنبی کے لیے شناسائی کی جھلک تھی کہ محفوظ کا ایک وردی شریک بھائی پنڈ ملکاں اس کے مزار پر فاتحہ کو جاتا تھا
اسلام آباد کے جنوب مشرق میں کہوٹہ روڈ کے اطراف بالائی پوٹھوہار کا علاقہ میرےلیے بھول بھلیّاں تھا سہالہ پولیس اکیڈمی سےکچھ آگےمیں پنڈ ملکاں کےکسی مسافرکے انتظارمیں رک گیاتھا
انتظاربارآورثابت ہوا اور مجھےاس مختصرسفرپرایک ہمسفرکی رفاقت میسرآگئی
سواں نالے کو عبورکرکےپنڈ ملکاں کےراستے پرگاڑی کچھ سست روی سے چلنےلگی تو ہمارےدرمیان جو گفتگوہوئی اسےآپ اس تحریرکے آغاز میں پڑھ چکےہیں
پنڈ ملکاں لانس نائیک محفوظ کا آبائی گاؤں ہے اور 15 پنجاب رجمنٹ کا یہ جری اوردلیرسپوت اسی گاؤں کی انمول مٹّی میں آسودۂ خاک ہے
جس پل میں نے محفوظ کو وردی شریک بھائی کہا تھا، میرے دل میں ایک تمنا سی جاگی کہ اگر محفوظ میرا سگا بھائی ہوتا تو میرے دل کا کیا عالم ہوتا!
کچھ عرصےپہلے ٹی وی پردیکھامحفوظ شہید کےبڑےبھائی محمد معروف کا انٹرویو یاد آگیا۔ وہ بچپن کےایک واقعےکا ذکر کررہےتھے جب محفوظ کی عمر کوئی گیارہ بارہ سال رہی ہوگی۔ گندم کٹائی ہورہی تھی اور دونوں بھائیوں کےساتھ ان کی والدہ بھی تھیں۔ پاس سےگزرتےگاؤں کےایک بزرگ پانی پینے ان کےپاس رُکے تو باتوں باتوں میں ان کے دادا کا ذکر آیا کہ وہ کتنا بہادر بندہ تھا، جب مقابلے پر آتا تو کوئی اس سے میدان لے نہیں سکتا تھا۔ تب محفوظ نے کہا تھا بابا جی ابھی ہم چھوٹے ہیں، وقت آئے گاتو ہم بتائیں گے کہ کتنے بہادر ہیں۔
اس دن فرح حسین @FarahSaadyaکو انٹرویو دیتے محمد معروف کی آنکھوں میں ایک چمک لہرائی جب وہ بولے کہ پھر جب وقت آیا تو میدان بھی وہیں تھا اور محفوظ بھی اور اس نے بتا دیا کہ وہ کتنا بہادر تھا۔
یہ میدان تھا پُل کنجری جہاں اٹھارہ دسمبر 1971 کی صبح 15 پنجاب نے حملہ کیا تو اس کے ہراول دستے میں محمد محفوظ بھی شامل تھا۔
ہمارے پڑھنے والوں کو یاد ہوگا کہ چند دن پہلے رنجیت سنگھ اور مائی موراں کے حوالے سے ہم نے پُل کنجری کا ذکر کیا تھا۔
واہگہ ۔ اٹاری کی چوکی سے لگ بھگ چھ کلومیٹر شمال کی سمت عین پاک بھارت سرحد کے اوپر پُل کنجری گاؤں ہے۔
کہتے ہیں کہ رنجیت سنگھ اپنے لاہورسے باہرکے سفرمیں اکثر یہاں قیام کرتا اورتفریح طبع کے لیے مہاراجہ کی ہردلعزیزطوائف موراں بہ انتظام خاص لاہورسے یہاں بلوائی جاتی۔
یہیں کہیں ایک برساتی نالے پر ایک شتابی سے گزرتی موراں کے پاؤں کا جوتا پانی کے بہاؤ کی نذر ہوگیا تو مہاراجہ نے اپنی ہردلعزیز طوائف کی دلجوئی کےلیےنالےپر ایک پُل تعمیر کروا دیا۔
موراں اور مہاراجہ کا زمانہ تو بیت گیا مگر یہ جگہ آج بھی ایک طوائفانہ سہولت کےپیش نظرتعمیرکی گئی پلیا کے حوالے سے پل کنجری کہلاتی ہے۔
حال ہی میں کچھ کاوشوں سےنام کےثانی الذکرحصےکو بدل کر موراں کرنےکی کوشش کی گئی ہے
مگرصاحب آپ لاکھ پھول نگرلکھنےکےاحکامات جاری کریں لوگ بھائی پھیروکوبھائی پھیروہی کہیں گے
بات چلی توکہیں کی کہیں نکل گئی۔ آج کاپل کنجری ایک سرحدی چوکی ہے۔ پینسٹھ اوراکہترکےمعرکوں میں پاکستان اورہندوستان سےوفاداریاں بدل بدل لینےکےسبب اس کی فوجی شہرت بھی کچھ اچھی نہیں۔ یوں سمجھ لیجیے آویں ساڈےنال جاویں کسےہورنال
بلّےاوئےچلاک سجنا
والامضمون ہے۔
اکہتر کی جنگ میں تین دسمبرکی سردرات 43 پنجاب نےحملہ کرکےاس چوکی پرقبضہ کرلیاجوسترہ دسمبرکی فائربندی تک قائم رہا
سترہ اٹھارہ دسمبرکی درمیانی رات ہندوستان کی 2 سکھ رجمنٹ نےجم کرزورلگایا تو43 پنجاب کےپاؤں اکھڑگئے اسی صبح 15 پنجاب نے جوابی حملہ کرکے پل کنجری کو چھڑانے کی کوشش کی جو کامیاب نا ہوسکی
لانس نائیک محمد محفوظ کواللہ نے اس ناکام حملے میں عزت کی بلندیوں سے سرفراز کرنا تھا۔ اٹھارہ دسمبر محفوظ شہیدکا دن تھا
حملےکےشروع میں ہی دشمن کے فائرسے محفوظ کی مشین گن تباہ اورٹانگ زخمی ہوگئی زخموں سے بے نیاز محفوظ نے ساتھی شہید کی مشین گن قابوکی اورثابت قدمی سے رینگنا جاری رکھا۔ اس کی نظریں دشمن کے اس مشین گن کے مورچے پرلگی تھیں جہاں سے کارگرفائرنے حملے کو روک رکھا تھا
دشمن کی دفاعی لائن کے بالکل پاس محفوظ کو دوسرا زخم لگا ۔ چھاتی پرایک گولی یا پھردو اوردوسری مشین گن بھی ناکارہ ہوگئی۔ 15 پنجاب کے ساتھیوں نے زخمی محفوظ کواپنے قدموں پرکھڑا ہوتے اور دھوئیں اورغبارکی چادرکے پاردشمن کی طرف جاتے دیکھا۔ وہ محفوظ کوآخری دفعہ دیکھ رہے تھے
اسی دن بعد کے کسی پہرجب 15 پنجاب کے کمپنی کمانڈر اپنی پارٹی کے ساتھ 2 سکھ رجمنٹ اپنے شہدا کے جسد خاکی لینے پہنچے تو محفوظ کو شہدا کے بیچ دیکھ کر بے اختیارکہا یہ میری کمپنی کا بیسٹ باکسرتھا
2 سکھ رجمنٹ کے کمانڈنگ آفیسرکرنل پوری بولے یہ جوان ایک باکسرکی سی دلیری اور بے جگری سے لڑا کرنل پوری نےبتایاکہ کس طرح ان کےجوانوں نےزخموں سےچورمحفوظ کوبغیرکسی ہتھیاردھوئیں کی چادرسےبرآمد ہوتےدیکھا
محفوظ نےایک ہی جست میں مشین گن کےمورچےپرفائررکی گردن کواپنےہاتھوں کےآہنی شکنجےمیں کس لیا ۔ مورچےمیں دوسرے سپاہی کےجیسےہی اوسان بحال ہوئےاس نےمحفوظ کوسنگین کی نوک میں پرو دیا
محفوظ سنگین کے ان گنت وارسے رتبۂ شہادت پرسرفراز ہوا لیکن اس کی گرفت دشمن کےسپاہی کی گردن پرڈھیلی نہ پڑی ۔ محفوظ کے جسد خاکی کو اٹھایا گیا تواسکی آہنی گرفت مشین گن فائرر کی گردن پر اسی مضبوطی سے موجود تھی جسکی تاب نہ لاتے ہوئے اس کا بھی دم نکل چکا تھا 2 سکھ رجمنٹ کے کرنل پوری نے کھلے دل سے محفوظ کی دلیری کی تعریف کی . لانس نائیک محمد محفوظ شہید کو بہادری کے سب سے بڑے اعزاز نشان حیدر سےسرفرازکیا گیا
محفوظ کے بڑے بھائی محمد معروف جن کا اوپر بھی ذکر آیا ہے وہ بھی فوج میں تھے اور اکہتر کی جنگ انہوں نے کارگل کے محاذ پر لڑی۔
وہ محفوظ کی تدفین پر نہیں آسکے تھے۔ لگ بھگ چھ ماہ کے بعد جبکہ محفوظ کےنشانِ حیدر کےاعزاز کااعلان ہوچکاتھا ان کی بٹالین ہرسال سلامی کےلیےمحفوظ کامزار تعمیرکرنا چاہتی تھی جو پنڈ ملکاں کے گنجان آباد قبرستان میں ممکن نہ تھا۔ نتیجتاً قبرستان سےمزارکی منتخب کردہ جگہ شہید کا جسدِ خاکی منتقل کرنا پڑا اور یہ تب ہوا کہ بڑے بھائی نے محفوظ کا دیدار کیا۔ معروف بتاتے ہیں کہ ان پر تب یہ عقدہ کُھلا کہ شہید کی ایک ٹانگ محاذ پر ہی کٹ گئی تھی جو مل نہیں سکی تھی۔
تو کچھ یوں ہے کہ جو ہم نےاوپر اٹھارہ دسمبر کی صبح زخمی ٹانگ پر گھسٹ کر دشمن کے مورچے تک پہنچنے کا ذکرکیا ہے دلیری کا وہ بے نظیر کارنامہ محفوظ نے دراصل ایک ٹانگ گنوانے کے بعد انجام دیا تھا!
شہید کے جسدِ خاکی کی مزار میں منتقلی کے وقت چارپائی کے اوپر رکھے ان کے تابوت سے خون کے قطرے رواں ہونے کے منظر کا تو پورا پنڈ ملکاں شاہد ہے۔ یہ سُن کر ایمان مزید تازہ ہوجاتا ہے کہ شہید مرتا نہیں بلکہ اپنے رب کے ہاں زندہ ہے، مگر صاحبو یہ سب کچھ بھی ماں کے دل کو قرار تو نہیں دے سکتا۔ معروف ہی بتاتے ہیں کہ شہید کی مزار میں منتقلی کے وقت جس چارپائی پر محفوظ کا تابوت رکھا ہوا تھا اس پر تمام عمر ان کی والدہ نے کسی کو سونے نہیں دیا۔
محفوظ کی شہادت کے بعد اپنی باقی عمر انکی والدہ چارپائی پر نہیں سوئیں۔ محفوظ کا غم انہیں بہت جلد اپنے شہید بیٹے کے پاس لے گیا۔
پنڈ ملکاں کے ایک سادہ طرز کے مقبرے میں محفوظ شہید اور ان کے پہلو میں انکی والدہ آرام کررہے ہیں .
15 پنجاب مزارکی دیکھ ریکھ کرتی ہے اور ہرسال 6 ستمبر اور 18 دسمبر کو محفوٖٖظ کو اعزازی سلیوٹ دیا جاتا ہے اور اسکی قبرپراعزازی پھولوں کا تحفہ رکھا جاتا ہے
___
شجاعت کی یہ داستان پنڈ ملکاں میں ختم نہیں ہوتی کہ پل کنجری کے معرکے کے اور بھی حصے دار ہیں۔
محفوظ کوہندوستانی مورچوں پرپل پڑتےدیکھ اس کی پلاٹون کے سپاہی ثناء اللہ اورمحمد شفیع ایک بےخودی کےعالم میں اپنے سامنےکےدشمن پرٹوٹ پڑے۔ ان کی سنگین کےزخموں سےاٹی لاشیں ہندوستانی مورچوں سےتھوڑا پہلےاٹھائی گئیں۔ سرگودھاکے نزدیک ٹھٹھی ملازم کارہائشی محمدشفیع پچیس برس کاگھبرو جوان تھا ثناء اللہ کی سروس دو سال اور عمر 21 سال تھی۔
سپاہی منظور حسین اور سپاہی بشیر تھےجو گھیرےمیں آنےکے باوجوداسوقت تک لڑےجب تک ان کاایمونیشن ختم نہیں ہوگیا۔ آخری حربےمیں اپناگرینیڈ ہوا میں اُچھال وہ سنگین لڑائی میں شہید ہوئے۔ ساہیوال کے نزدیک قطب شاہانہ کا بشیر ابھی رنگروٹ ہی تو تھا جو جنگ سے تین مہینے قبل بھرتی ہوا تھا۔ اسے بہادری کا اعزاز تمغۂ جرأت عطا ہوا۔
یہاں سے ایک مرتبہ پھرہم پل کنجری کو پلٹتے ہیں جہاں ایک فوجی یادگار2 سکھ کے ان بہادر سپوتوں کو خراج تحسین پیش کرتی ہے جو 43 پنجاب کی گرفت سے پل کنجری کو چھڑانے میں کام آئے
اسی یادگارپرایک کونے میں ایک منظرعکسبند کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ ایک سکھ سپاہی ایک مورچے تک پہنچ چکا ہے اورہتھیارباہرکھینچنے کی کوشش میں واقعتاً چھینا جھپٹی کرتا دکھایا گیا ہے ۔ یہ لانس نائیک شنگھاراسنگھ ہے
17/18 دسمبر کی رات 2 سکھ کے حملے میں شنگھارا سنگھ کا کارنامہ
اگلی صبح کے محمد محفوظ کے ایکشن سے حیرت انگیز مماثلت رکھتا ہے
حملے کی گرما گرمی میں شنگھارا سنگھ دلیری کی اعلیٰ مثال قائم کرتےہوئے مشین گن مورچے کی ناک کے نیچے پہنچتا ہے اور مورچے کے لوپ ھول میں جست بھرتے ہوئے مشین گن کو ایک جھٹکے سے باہرنکال پھینکتا ہے۔
انتہائی نزدیک سے فائرکی گئی گولیاں دلیرشنگھارا سنگھ کا سینہ چھلنی کردیتی ہیں ۔ لانس نائیک شنگھارا سنگھ کو بہادری کے اعتراف میں انڈین آرمی کا دوسرا بڑا اعزاز مہاویر چکر دیا گیا۔
معرکۂِ پل کنجری کے جوانمردوں میں سے محفوظ شہید خطۂِ پوٹھوہارکی جفاکش زمینوں میں محوِ استراحت ہے تو دوسری طرف پل کنجری میں 2 سکھ کی یادگارپر ایک کونے میں شنگھارا سنگھ کا نام بھی جگمگا رہا ہے
___