وار فِکشن ۔ 5
امریکی افسانچہ
پُل اور بوڑھا آدمی (1938)
ارنسٹ ہیمنگوئے
تحریرمُکرر ؛ قیصر نذیر خاورؔ
ایک بوڑھا آدمی سڑک کے کنارے بیٹھا تھا ۔ اس کے کپڑے گرد سے اٹے ہوئے تھے اور اس نے گول شیشوں والا آہنی چشمہ پہنا ہوا تھا ۔ وہاں دریا پر کشتیوں کا ایک پُل بنا ہوا تھا جس کے ذریعے چھکڑے ، ٹرک ، آدمی ، عورتیں اور بچے دریا پار کر رہے تھے ۔ خچروں والے چھکڑے پل کے پاس دریا کے ڈھلوانی کنارے پر مشکل سے ہی لڑکھڑاتے ہوئے چڑھ رہے تھے اور فوجی ان کے پہیوں کے ساتھ لگ کر انہیں کھینچنے میں مدد کر رہے تھے ۔ ٹرک بھی اسی سے اوپر چڑھتے اور آگے بڑھتے جن کے ساتھ ساتھ کسان بھی ایڑیوں تک گرد میں دھنسے دھپ دھپ کرتے چلتے جا رہے تھے لیکن بوڑھا بِنا ہلے جلے وہیں بیٹھا تھا ۔ وہ اتنا تھکا ہوا تھا کہ اس میں مزید آگے جانے کی سکت نہ تھی ۔
میرا کام یہ تھا کہ میں پل پار کروں اور اس سے آگے جا کر یہ اندازہ کروں کہ دشمن کس حد تک آگے بڑھ چکا ہے ۔ میں نے ایسا کیا اور پل سے واپس آ گیا ۔ اب وہاں زیادہ چھکڑے نہیں تھے اور پیدل چلنے والے لوگ بھی کم ہی رہ گئے تھے لیکن بوڑھا آدمی ابھی تک وہیں تھا ۔
” تم کہاں سے آئے ہو؟ “ ، میں نے اس سے پوچھا۔
” میں سان کارلوس سے آیا ہوں “ ، اس نے کہا اور مسکرا دیا ۔
یہ اس کا آبائی گاﺅں تھا ۔ اس لئے اس کا نام لیتے ہوئے اسے خوشی محسوس ہوئی تھی اور وہ مسکرایا بھی اسی لئے تھا ۔
” میں جانوروں کی دیکھ بھال کر رہا ہوں “ ، اس نے وضاحت کی ۔
” اوہو“، میں نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے کہا ۔
” ہاں “ ، اس نے کہا ، ” میں پیچھے رہا ، تاکہ جانوروں کی حفاظت کر سکوں ۔ میں آخری آدمی ہوں جس نے سان کارلوس کو چھوڑا تھا ۔“
وہ دیکھنے میں چرواہا یا ریوڑ چرانے والا نہیں لگتا تھا ۔ میں نے اس کے گرد آلود کالے کپڑوں، اس کے گرد سے اٹے سرمئی چہرے اور اس کے گول آہنی چشمے کو دیکھا اور پوچھا ، ” یہ کونسے اور کس طرح کے جانور تھے ؟ “
” مختلف قسم کے جانور “ ، وہ بولا اور سر ہلایا ، ” مجھے انہیں وہیں چھوڑنا پڑا ۔“
میری نظریں پل اور دیکھنے میں افریقی مضافات لگنے والے ’ ایبرو ڈیلٹا ‘ پر تھیں اور میں اس بات پر حیران تھا کہ ہمیں دشمن کب نظر آئے گا اور ہمیں ان کا پہلا شور کب سنائی دے گا جو پہلا سگنل ہو جسے ہم خفیہ طور پر ’ رابطے‘ کا نام دیتے تھے ۔ اور بوڑھا آدمی ابھی بھی وہیں تھا ۔
” یہ کتنے جانور تھے ؟ “ ، میں نے پوچھا ۔
” یہ ملا جلا کر تین تھے “ ، اس نے بتایا ، ” ان میں دو بکریاں اور ایک بلی تھی اور ہاں کبوتروں کے چار جوڑے بھی تھے ۔“
” اور تمہیں ان کو وہیں چھوڑنا پڑا ؟ “، میں نے پوچھا ۔
” ہاں ، مجھے توپ خانے ( آرٹلری ) کی وجہ سے انہیں چھوڑنا پڑا ۔ کپتان نے مجھے آرٹلری کی ہی وجہ سے وہاں سے چلے جانے کو کہا تھا ۔“
” اور کیا تمہارا کوئی کنبہ نہیں ہے ؟ “ ، میں نے پل کے دور والے سرے پر نظریں جمائے پوچھا ، جہاں سے باقی رہ جانے والے چند چھکڑے تیزی سے کنارے کے ڈھلوانی حصے کی طرف جا رہے تھے ۔
” نہیں “ ، وہ بولا ، ” صرف جانور ہی تھے جیسا میں نے بتایا ۔ بلی ، یقیناً ، ٹھیک ہی رہے گی ۔ بلیاں اپنی حفاظت کر لیتی ہیں لیکن میں یہ نہیں سوچ سکتا کہ باقیوں پر کیا بیتے گی ۔“
” تم سیاست میں کس کے حامی ہو؟ “ ، میں نے پوچھا ۔
” میں سیاست میں کسی کے ساتھ نہیں ہوں “ ، وہ بولا ، ” میں ۷۶ برس کا ہوں اور میں بارہ کلو میٹر چل کر یہاں تک پہنچا ہوں ۔ اور اب میرا خیال ہے کہ میں مزید آگے نہیں جا سکتا ۔“
” رُکنے کے لئے یہ کوئی مناسب اور اچھی جگہ نہیں ہے “ ، میں نے کہا ، ” اگر تم ہمت کرو تو سڑک پر ، جہاں سے یہ’ ٹورٹوسا ‘ کی طرف مڑتی ہے، وہاں ٹرک ہیں ۔“
” میں کچھ دیر اور انتظار کروں گا “ ، وہ بولا ، ” اور پھر چلا جاﺅں گا ، یہ ٹرک کہاں جاتے ہیں ؟ “
” بارسلونا کی طرف “ ، میں نے بتایا ۔
” میں تو اس طرف کسی کو نہیں جانتا “ ، اس نے جواب دیا ، ” لیکن تمہارا بہت شکریہ ، تمہاری بہت مہربانی ۔ “
اس نے میری طرف تھکی تھکی اور خالی نظروں سے دیکھا اور پھر ایسے بولا جیسے وہ اپنی فکر مندی کسی کے ساتھ بانٹنا چاہتا ہو ۔ ” مجھے یقین ہے کہ بلی تو ٹھیک رہے گی ، اس لئے اس پر بات کرنے کی ضرورت نہیں لیکن باقیوں کا کیا ہو گا ۔ باقیوں کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟ “
” فکر مت کرو، وہ بھی اِس سب سے ٹھیک ٹھاک نکل آئیں گے ۔“
” کیا تم ایسا ہی سوچتے ہو؟ “
” کیوں نہیں “، میں نے دوسرے کنارے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔ وہاں اب کوئی چھکڑا نہ تھا ۔
” لیکن وہ آرٹلری کے نیچے کیا کریں گے ، جبکہ مجھے بھی تو آرٹلری کی وجہ سے جانے کو کہا گیا تھا ؟ “
کیا تم نے کبوتروں کے پنجرے کھول دئیے تھے؟ “ ، میں نے پوچھا ۔
” ہاں“
”تو پھر وہ اڑ جائیں گے ۔ “
” ہاں ، یقیناً وہ اڑ جائیں گے ، لیکن دوسرے ؟ بہتر ہو گا کہ میں دوسروں کے بارے میں نہ سوچوں “ ، اس نے کہا ۔
” اگر تم نے آرام کر لیا ہو تو میں جاﺅں “ ، میں نے کہا ، ” تم بھی اب اٹھو اور چلنے کی کوشش کرو ۔ “
” شکریہ“ ، اس نے کہا اور اپنے پیروں پر کھڑا ہو گیا ۔ وہ ایک طرف سے دوسری طرف اور پھر اس کے الٹ جھولا اور پھر دوبارہ گرد میں بیٹھ گیا ۔
” میں جانوروں کی حفاظت کر رہا ہوں “ ، اس نے دھیمے سے کہا ، لیکن وہ مجھ سے مخاطب نہیں تھا ۔ ” میں تو صرف اپنے جانوروں کی دیکھ بھال کر رہا ہوں ۔ “
میں اس کے حوالے سے کچھ نہیں کرسکتا تھا ۔ یہ ایسٹر والا اتوار تھا اور فاشسٹ ایبرو کی طرف بڑھ رہے تھے ۔ یہ گہرے اور گھنے بادلوں والا دن بھی تھا اس لئے ان کے جہاز ہوا میں نہیں تھے اور یہ بھی کہ بلیوں کو پتہ ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی حفاظت کیسے کرنی ہے ، یہی وہ خوش قسمتی کی بات تھی جو اس بوڑھے آدمی کواس وقت تک زندہ رکھے ہوئے تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارنسٹ ہیمنگوئے کی یہ کہانی ’ Old Man at the Bridge ‘ پہلی بار ’ کین میگزین ‘ کے شمارہ نمبر 4 ، 19 مئی 1938 ء میں پہلی بار شائع ہوئی تھی ۔ بعد ازاں یہ اسی سال اس کی کتاب ’ The Fifth Column and the First Forty-Nine Stories‘ میں بھی شامل ہوئی ۔
یہ اس کی مختصر، مختصر کہانیوں میں سے ایک ہے جو اس کے ان مشاہدات میں سے ایک پر مبنی ہے جو اس نے ہسپانوی خانہ جنگی ( جولائی1936ء تا اپریل 1939ء) کے دوران اپریل 1938 ء میں بطور صحافی کئے تھے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔