پی ٹی وی۔ آزادی سے زیادہ تشکیلِ نو کا تقاضا
وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں نئی حکومت کے قیام اور پھر کابینہ کے حلف کے بعد پاکستان کے عوام نئی امیدوں کے ساتھ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی طرف خوش گوار منتظر نظروں سے دیکھ رہے ہیں کہ وہ خواب جو جناب عمران خان نے پچھلے سات سالوں میں دیکھے اور دکھائے، اب ایک ایک کرکے اُن کی تعبیر وتکمیل کا وقت شروع ہوگیا ہے۔ ایسے میں نئے وزیر اطلاعات ونشریات جناب فواد چودھری کے اس اعلان نے پورے ملک میں خوشی کی لہر دوڑا دی کہ پی ٹی وی حکومتی سینسر سے آزاد ہوگیا اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ اب سرکاری ٹیلی ویژن پر اپوزیشن جماعتوں کے لیڈروں اور تنقیدی نقطہ نظر رکھنے والے تجزیہ نگار بھی دکھائی دینے لگے ہیں۔ یہ تازہ ہوا کا ایک خوش گوار جھونکا ہے۔ جناب فواد چودھری نے خوب صورت آغاز کیا ہے۔ اُن کے ساتھ فکری تعلق کے علاوہ ایک تعلق یہ بھی ہے کہ وہ حکومتی ذمہ داریاں سنبھالنے سے پہلے جس ادارے سے منسلک رہے، راقم اس ادارے سے آغاز سے وابستہ ہے۔ روزنامہ نئی بات کے اجرا اور روزِاوّل سے اور بعد میں نیو نیوز کے آغاز کے پہلے روز سے۔ انہوں نے پچھلے تین سال اسی سکرین پر اپنی صحافتی سرگرمیاں عمل میں رکھیں جہاں راقم چینل کے آغاز کے ساتھ اپنا حصہ ڈالتا رہا۔ وزیراطلاعات جناب فواد چودھری نے پاکستان ٹیلی ویژن کو جس آزادی سے ہمکنار کیا، اس پر ہم ان کے شکرگزار بھی ہیں اور اُن کو مبارک باد بھی دیتے ہیں۔ راقم اس ادارے پی ٹی وی کو پاکستان کا جھومر تصور کرتا ہے، جو ایک عرصۂ دراز سے بری طرح مسخ ہوچکا ہے۔ پاکستان ٹیلی ویژن اُن چند اداروں میں سے ایک ہے جو قیامِ پاکستان کے بعد معرضِ وجود میں آئے۔ ان اداروں نے صرف اور صرف اپنی کارکردگی کی بنیاد پرخوب نام کمایا۔ ایک وقت تھا جب پی ٹی وی کو بھارت کے لوگ حسرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ پی ٹی وی نے بھارت سے بہت پہلے رنگین نشریات کا آغاز کیا۔ بھارت کے اسّی کی دہائی کے سفروں میں مَیں نے عام سے اعلیٰ شخص کو اس جدید ادارے کی کارکردگی پر اسے حسرت ہی نہیں بلکہ حسد کی نگاہوںسے دیکھتے پایا۔ ایک وقت تھا کہ پی ٹی وی چند عرب ریاستوں میں بھی اپنا مقام رکھتا تھا۔ اس کے قیام اور بعد میں اس کو مزید شان دار کارکردگی کے قابل بنانے میں اسلم اظہر اور آغا ناصر کی سرپرستی کرتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو نے سے جنوبی ایشیا کا ایک کامیاب ادارہ بنا ڈالا۔ جنرل ضیاالحق نے تباہی کے جو بیج بوئے، اس کے نتائج سماج کے دیگر اداروں کی طرح ہم اس قومی ادارے میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ ضیاالحق نے اس کی کارکردگی کو مسخ اور تباہ کرنے کا آغاز اس کا ’’قبلہ درست‘‘ کرنے کے عمل سے کیا۔ بعد میں آنے والی ساری سول حکومتوں اور جنرل پرویز مشرف کی فوجی حکومت نے اعلانات تو کیے کہ ہم اس ادارے کو یہاں سے وہاں پہنچا دیں گے، لیکن افسوس یہ سب محض اعلانات ہی ثابت ہوئے۔ اس لیے کہ اس ادارے کو کوئی بھی بہتر کیا اپنی اصلی حالت میں بحال کرنے میں ناکام ثابت ہوا۔ اس لیے کہ اس ادارے کو سیاسی رشوت کے طور پر کسی نہ کسی درباری کے ہاتھوں میں دے دیا گیا۔
ایک اہم بات یہ کہ پی ٹی وی میں ایسے لوگ بھی Induct کیے گئے جن کا مارکیٹنگ کا شان دار تجربہ تھا، ان لوگوں نے اپنی سربراہی میں کچھ نہ کچھ مالی معاملات کے مسائل سے تو اسے نکالا مگر وہ ادارے کو بحال کرنے سے قاصر رہے۔ چوںکہ پی ٹی وی کا بحران مالیاتی نہیں بلکہ اس کی جدید تقاضوں کے مطابق کارکردگی کا ہے۔ مالی معاملات تو ازخود درست ہوجاتے ہیں جب کوئی ادارہ کارکردگی میں آگے نکل جائے۔ اسی لیے جب مارکیٹنگ کی صلاحیتیں رکھنے والے سربراہان پی ٹی وی سے گئے، یہ ادارہ یکایک پھر مالی بحران کا شکار ہوا۔ سابق حکومت نے جس بری طرح اس ادارے کو برباد کیا، اس کی مثال پچھلے پندرہ سالوں میں نہیں ملتی۔ وزیراطلاعات سے لے کر ایک معمولی اینکر تک نے اس ادارے کو مسلم لیگ (ن) کا بغل بچہ بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
2002ء میں جب حکومت پاکستان نے پرائیویٹ چینلز کو لائسنس دینے شروع کیے، انہی دنوں پی ٹی وی نے ایک علیحدہ نیوز چینل بنانے کا اعلان کیا۔ انہی دنوں مرحوم عمر اصغر خان جو جنرل مشرف کے قریبی ساتھی اور وزیر تھے، انہوں نے جب اپنی پارٹی بنانے کا آغاز کیا تو راقم سے بھی رابطے ہوئے۔ یہ وہ دن تھے جب 9/11 کے سبب پاکستان عالمی سیاست کا ایک اہم موضوع تھا۔ راقم نے ان دنوں مرحوم عمر اصغر خان سے متعدد بار عرض کی کہ کسی طرح پی ٹی وی کو جدید عالمی تقاضوں کے مطابق بحال کریں، اس طرح پاکستان کا مقدمہ لڑنے میں آسانی ہوگی۔ مگر اسلام آباد میں اقتدار میں بیٹھے حکمران قوم وملک کے مسائل کو کچھ عجیب نگاہوں سے دیکھتے ہیں کہ اُن کے لیے یہ معاملات بڑے معمولی ہوتے ہیں، جس سے ان کی لیڈرشپ کی گہرائی جانی جاسکتی ہے۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد اکنامک وار اور میڈیا وار ہی دو اہم جنگی محاذ ہیں جہاں آپ کچھ کرسکنے کی صلاحیت پیدا کرکے منوا سکتے ہیں۔ 1988ء میں جب محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت قائم ہوئی تو انہی دنوں پی ٹی وی لاہور سٹیشن میں اس حوالے سے ایک میٹنگ ہوئی۔ میں اس میٹنگ میں شامل تھا اور جو باتیں میں آج یہاں عرض کررہا ہوں، یہی نکات میں نے آج سے تیس سال قبل اُس میٹنگ میں عرض کیے۔ چند دن بعد اس میٹنگ کے تناظر میں روزنامہ جنگ میں آدھے صفحے پر راقم کا یک آرٹیکل شائع ہوا جس میں اسی سسکتے، مرتے اور دم گھٹتے ادارے کی تباہی اور اس کی تشکیلِ نو کے حوالے سے میں نے لکھا۔ مگر افسوس اُس وقت بھی حکومت حاصل کرنے والی سیاسی قیادت اس شعور سے نابلد پائی، خصوصاً وزارتِ اطلاعات کا قلم دان سنبھالنے والے وزیر اور مشیران۔ 2007ء میں جب بے نظیر بھٹو اور جنرل پرویز مشرف کے رابطوں کی خبریں منظرعام پر آئیں تو راقم نے محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ سے رابطہ کرکے ان سے اس اہم معاملے پر قدم اٹھانے کی درخواست کی کہ آپ کے پاکستان تشریف لانے کے بعد آپ پاکستان کو ان دس سالوں میں بہت بدلا ہوا پائیں گی، ایسے میں نیا ابھرا پرائیویٹ الیکٹرانک میڈیا اور اس کی بے لگام آزادی ، تو ایسے میں پی ٹی وی کو سرکاری سے ریاستی (عوامی) چینل بنانے میں آپ سنجیدگی سے غور کریں۔ انہوں نے میری باتوں سے اتفاق کیا، لیکن افسوس وہ حکومت میں آنے سے پہلے ہی قتل کردی گئیں اور پھر پاکستان ٹیلی ویژن پی پی پی کی حکومت میں کم اہمیت والا شعبہ نہیں بلکہ سیاسی رشوت کے طور پر استعمال ہوتا رہا۔
پاکستان ٹیلی ویژن اب ’’تبدیلی کی حکومت‘‘ کے تحت آزادی سے جس طرح سرشار ہونے جارہا ہے، ایسے میں ہمیں اس کے اصل بحران کی طرف غور کرنا ہوگا۔ پی ٹی وی نیوز میں حکومت مخالف نکتہ نظر کو پیش کرنا خوش آئند بات ہے، لیکن پی ٹی وی صرف اس آزادی سے اپنا مقام آج کے جدید تقاضوں کے مطابق قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ پی ٹی وی کا بحران اس آزادی سے حل ہونے کا نہیں۔ پی ٹی وی ایک مکمل تشکیل ِ نو یعنی Restructuring کا تقاضا کررہا ہے۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد مشرقی یورپ اور میری دلچسپی رکھنے والے ملک ترکی سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں کہ وہاں ریاستی ٹیلی ویژن کس طرح اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہوئے۔ پی ٹی وی کے اندر ایسی ایسی جونکیں بیٹھی ہیں جو ہر بدلتی حکومت کے ساتھ ہی گرگٹ کی طرح رنگ بدل لیتی ہیں۔ اُن کو سیاسی اور فوجی حکمرانوں کو اپنے گھیرے میں لینے میں کمالِ فن حاصل ہے۔ پی ٹی وی کا بحران درج ذیل نکات کے گرد ہے۔
-1 Intellect
-2 Management
-3 Creativity
-4 Merit
-5 Modern State Television Performance
-6 New Technology
اس حوالے سے اگر پی ٹی وی کی تشکیل ِ نو کی جائے تو پی ٹی وی میں فراہم کردہ آزادی اور مالی بحران ازخود Resolve ہو جائیں گے۔ ہمارے بڑے صحافی جو کسی نہ کسی سیاسی قیادت کے درباروں سے مستفید ہونے کے علاوہ کچھ نہیں جانتے، میں یقین سے کہتا ہوں کہ ایسے تمام صحافی جنہوں نے ماضی میں اس ادارے کو نہ صرف لوٹا، وہ ایک رپورٹر کے طور پر تو کامیاب صحافی کہلا سکتے ہیں مگر اُن کا علم اور مشاہدہ صفر ہے کہ جدید دنیا میں ریاستی ٹی وی کس طرح پنپ رہے ہیں۔ آج پاکستان ٹیلی ویژن کو جن چیلنجز کا سامنا ہے، اُن میں ملک کے اندر موجود پرائیویٹ چینلز، عالمی نشریاتی ادارے، انٹرنیٹ کے ذریعے عام لوگوں کی یوٹیوب اور دیگر ڈیجیٹل ٹولز تک رسائی اور اب ملک کے اندر سوشل میڈیا۔ کیا پی ٹی وی نیوز پر صرف آزادیٔ اظہار سے ان چیلنجز کا سامنا کیا جا سکتا ہے؟ ہرگزنہیں۔ اسی لیے میں اس شعبے کے ایک طالب علم کی حیثیت سے اور دوسرے ممالک کے ریاستی چینلز کے مشاہدے کے بعد بار بار عرض کررہا ہوں کہ پی ٹی وی ایک مکمل تشکیل ِ نو کا تقاضا کررہا ہے۔ اگر وزیراعظم عمران خان اس قومی ادارے کو جدید تقاضوں کے مطابق بحال کرنے میں کامیاب ہوگئے تو یہ وہ تبدیلی ہوگی جو کسی بھی دوسرے شعبوں سے زیادہ نمایاں اور اثرپذیر ہوگی۔ اور یہ ممکن ہے۔ پی ٹی وی کی جدید تقاضوں کے مطابق کارکردگی کے حوالے سے بحالی یقینا بدلتے پاکستان کی امیدوں کا ہراول دستہ ثابت ہوسکتی ہے۔ مگر یہ کام ممکن ہے، مشکل اور ناممکن نہیں۔ خصوصاً اس وقت جب سوشل میڈیا، مین سٹریم میڈیا سے کہیں زیادہ لوگوں کے معلومات اور تفریح کا ذریعہ بنتا جارہا ہے۔ راقم نے پچھلے ایک سال میں سوشل میڈیا کی اس اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے جو تجربہ پروفیشنل تقاضوں کے مطابق رکھ کر کیا اور اس میں راقم کی لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں لوگوں تک رسائی ممکن ہوگئی۔ اس تجربے کے پیچھے راقم کا ایک چند لفظوں پر مشتمل موٹو تھا، ’’کیمرے کے لینز سے زیادہ اہم کیمرے کے پیچھے خیال کی طاقت ہے۔‘‘ پی ٹی وی بھی اسی خیال کے بحران کا شکار ہے جس کا ذکر درج بالا سطور میں کیا ہے۔ آزادی کے ساتھ ساتھ پروفیشنل ازم کی بحالی، مگر مکمل تشکیل ِ نو کے ساتھ۔