پی ٹی آئی اور جمہوری مزاج
۔۔۔۔۔
میرے گھرانے میں پی ٹی آئی کے حمایتی موجود ہیں۔ پی ٹی آئی پر میری سخت تنقید کے باوجود میرے ان کے ساتھ قلبی اور عملی تعلق میں رتی برابر کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ یہ وہ جمہوری مزاج ہے، جس کے لیے جمہوریت برپا کی گئی ہے۔ پی ٹی آئی پر میری تنقید کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ عمران خان کی قیادت اور سیاسی تربیت میں اس کے حامیوں کا مزاج جمہوری نہیں ہے یہ آمرانہ بلکہ فاشسٹ مزاج کے حامل ہیں ۔اس بات کا اندازہ آپ اس سے لگائیے کہ پی ٹی آئی پر تنقید کرنے کے دوران عام لوگ تو چھوڑیے، میرے بہت سے دیرینہ دوست بلکہ غامدی صاحب کے بعض فالوورز بھی، جو کل تک میری مذھب سے متعلق تحریروں پر تحسین کیا کرتے تھے،ناراض ہوگے ہیں۔ صرف ناراض نہیں ہوئے، بلکہ ان کے لب و لہجے کی تلخی، مجھے تنقید سے باز رکھنے پر پرزور اصرار عجیب منطق سے سمجھایا جاتا ہے۔ کچھ ٹائیگرز نے تو خرابی دماغ، بد نیتی، گمراہی اور لفافہ وصولنے کی تہمت لگانے میں بھی زیادہ دیر نہیں لگائی۔ تعلقات برقرار رکھنے کی قیمت عمران پر تنقید سے دست برداری رکھی گئی ہے۔ یعنی اختلاف راے اور پی ٹی آئی کے ناقد کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنا ان کے لیے ممکن نہیں رہا یا بڑے مجاہدےکا کام ہے۔ان میں سے کچھ حضرات کی عمرانی حمیت کی وجہ سے مجھے انفرینڈ کرنا پڑا، کچھ مجھے انفرینڈ اور ان فالو کر گے ہوں گے۔ نو بالغوں کا حال کا اندازہ آپ خود کر سکتے ہیں ۔ یہ کافی افسوس ناک صورت حال ہے۔
یہ سب یہ باور کرانے کے لیے کافی ہے کہ پی ٹی آئی میں تشکیل پانے والا یہ مزاج اختلاف کا حق دینے کو تیار نہیں، لیکن ان کا بس نہیں چل رہا کہ مجھے روک سکیں۔ کل جب ان کے ہاتھ میں اخیتار آئے گا تو یہ کس حد تک تنقید اور اختلاف کو برداشت کر پائیں گے، مجھے کوئی خوش گمانی نہیں ہے۔ اس مزاج کے تشکیل پانے کی وجہ یہی ہے کہ ان کی تربیت دھرنوں اور الزامات کی ہیجان خیزی میں کی گئی ہے۔ اس میں ایسے ہی مزاج تیار ہوتے ہیں۔
ان کے لیےعمران ایک سیاسی لیڈر نہیں ، مسیحا ہے، جس پر تنقید، مذھبی اصطلاح میں کہیں تو، گستاخی کے زمرے میں آتی ہے۔ یہ وہی مزاج ہے جو مولوی خادم رضوی کے پیروکاروں میں پایا جاتا ہے ۔ عمران کا لیکن کارنامہ یہ ہے کہ اس نے یہ مزاج نسبتا پڑھے لکھے نوجوانوں میں بھی پیدا کر دیا۔چنانچہ وہ اس کی ہر الٹی کو سیدھی کرنے میں لگے رہتے ہیں۔اس مزاج کا ایک اور نقصان یہ ہے کہ اب عمران کچھ بھی کرے، اسے ہر خطا معاف ہے۔حکومت ملنے کے بعد یہ اگر پرفارم بھی کر نہ کر پائے، تب بھی تاویلات کا سامان موجود ملے گا۔
اسی اندھیرے میں البتہ سب کوربین نہیں ہوئے۔ کچھ اہل دماغ ہیں جن کا زیادہ نقصان نہیں ہوا اور وہ حسن وقبح میں فرق کرنے کی صلاحیت سے محروم نہیں ہوئے۔ ایسے لوگ لیکن بہت کم ہیں اور زیادہ دیر اس جماعت کے ساتھ رہ نہیں پائیں گے۔
جس تبدیلی کی چاہ میں حصول اقتدار کے لیے ایسی بے صبری اور کم ظرفی کا مظاہرہ پی ٹی آئی کر رہی ہے، مجھے وہ تبدیلی اگلے سو سال میں کہیں ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ اس لیے مجھے کوئی جلدی نہیں۔ میری بلا سے جو بھی جماعت اقتدار میں آئے، میرٹ پر اس پر تنقید کا سلسلہ جاری رہے گا، یہی جمہوریت کا حسن ہے اور یہی سماج اور سیاست میں بہتری لانے کا طریقہ ہے۔
میری نظر میں جو نقصان عمران نے اس قوم کا کیا ہے وہ یہ مزاج ہے جو اپنی بنیاد میں ایک فاشسٹ مزاج ہے۔ یہ جمہوری مزاج نہیں ہے۔مالی کرپشن ہی سب کچھ نہیں ہوتی۔ اخلاقی کرپشن بھی کوئی چھوٹی کرپشن نہیں جس کا سہرا پی ٹی آئی کے سرہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“