جعلی ویڈیوز، غلط خبروں اور مِس انفارمیشن کے اس دور میں سوڈوسائنس کو کیسے پہچانیں؟ یہ آسان سوال نہیں۔ فلاسفی آف سائنس میں یہ ڈی مارکیشن پرابلم کہلاتی ہے۔ یعنی کہ سائنس کو نان سائنس سے اور سائنس کو سوڈو سائنس سے الگ کرنے کی لکیر کیسے لگائی جائے۔
آسٹرونومی سائنس ہے، آسٹرولوجی سائنس نہیں۔ یہ پہچان تو آسان ہے لیکن ان کے بیچ میں بھی بہت کچھ ہے۔ یہ واضح سیاہ اور سفید کی لکیر نہیں۔
سب سے پہلے سوال ۔ اس کی پرواہ ہی کیوں کی جائے؟ کیا اس کی کوئی عملی اہمیت بھی ہے؟ اس کی ایک وجہ جہاں پر یہ ہے اس پہچان کے ذریعے اپنے علم حاصل کرنے کے لئے وقت اور سرمایہ ٹھیک جگہ پر صرف کیا جائے، وہاں پر دوسری وجہ یہ کہ سوڈوسائنس ہمیشہ بے ضرر نہیں ہوتی۔ صبح ایک نظر ہوروسکوپ پر ڈال لینا الگ چیز ہے لیکن اگر کسی کو قابلِ اعتراض مرض ہے اور وہ اس کا علاج کروانے کی اہلیت رکھتا بھی ہے لیکن کسی غلط تصور کی وجہ سے ایسا کرنے سے انکار کر دیتا ہے تو یہ یقین اس کی موت کا موجب بن سکتا ہے۔ یا پھر یہ کہ میڈیکل سائنس کی بیسویں صدی ینں سب سے بڑی کامیابی ویکسین تھی۔ ویکسین دینے کے انکار کی وجہ سے وہ پرانی بیماریاں واپس آ رہی ہیں جن کو ختم ہو چکے ہونا چاہیے تھا۔ امریکہ اور یورپ میں خسرہ کی واپسی اس کی مثال ہے۔ سائنس کو سوڈوسائنس سے جدا نہ کر سکنا مہلک ہو سکتا ہے
کسی بھی چیز کے لئے دو الگ ڈائمنشنز پر دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک یہ کہ اس کی تھیوریٹیکل بنیاد کیسی ہے۔ دوسرا یہ کہ اس کے لئے ایمپیریکل شواہد کتنے ہیں۔ اچھی سائنس کی پہچان ان کی مدد سے کی جا سکتی ہے۔ اچھی سائنس وہ ہے جس میں تھیوریٹیکل سمجھ بھی زیادہ ہو اور ایمپیریکل نالج بھی۔ اس سے سولڈ سائنس کو اور صاف سوڈوسائنس کو تو فورا پہچانا جا سکتا ہے۔ کوئی اس سے اختلاف نہیں کرتا کہ پارٹیکل فزکس سولڈ سائنس نہیں۔ کوانٹم مکینکس تاریخ کی سب سے نفیس تھیوری ہے اور اس پر تجربات اس تھیوری کے عین مطابق نتائج دیتے ہیں۔ اس سے دوسری طرف کی انتہا پر آسٹرولوجی، یو ایف اوز، وٹامن بی کی کمی کو کینسر کی وجہ قرار دینا، کری ایشن ازم وغیرہ جیسی چیزیں ہیں۔ یعنی اس کے پیچھے کوئی تھیوریٹکل بنیاد نہیں پائی جاتی۔ مثال کے طور پر انٹیلیجنٹ ڈیزائن تھیوری کے نام سے تھیوری صرف ایک جملے پر مشتمل ہے۔ “یہ سب کچھ بس ہو گیا” اور ساتھ ساتھ یہ کہ ان سب کو سپورٹ کرنے کے لئے کوئی ایمپریکل شواہد بھی موجود نہیں۔
ان دو انتہاوٗں کے درمیان بھی بہت کچھ ہے۔ اگر ہم SETI پروگرام کی مثال دیکھ لیں جو موصول شدہ سگنلز کے تجزیے کی مدد سے ذہین خلائی مخلوق کی تلاش کا کام ہے۔ اس کو نصف صدی ہو چکی ہے۔ کیا یہ کام کرتا ہے؟ ابھی تک اس کے لئے ایمپیریکل شواہد صفر ہیں۔ اور تھیوری؟ انٹلیجنٹ ڈیزائن سے بہتر ہے لیکن بہت زیادہ نہیں۔ اس کو ایک لائن میں بیان کیا جائے تو وہ یہ ہو گی۔ “شاید کائنات میں کوئی مخلوق ہے جو ہمارے جیسی نفسیات رکھتی ہے”۔ یعنی کہ دوسری جگہوں پر ٹیکنالوجی رکھنے والی مخلوقات ہیں جو رابطہ کرنا چاہتی ہیں (وجہ یہ کہ چونکہ ہم رابطہ کرنا چاہتے ہیں)۔ یعنی ہم اپنی نفسیات کی نظر سے کاسموس کو دیکھ رہے ہیں۔ ہماری اس بہت بڑی اناپسندی پر مبنی مفروضے سے بھی زیادہ برا یہ ہے کہ اگر یہ تھیوریٹیکل بنیاد ٹھیک بھی ہو تو بھی ہم مشکل میں ہیں۔ پچھلی نصف صدی میں اگرچہ ہم کان لگا کر سن تو رہے ہیں لیکن خود صرف ایک مرتبہ سگنل بھیجا ہے۔ کارل ساگان نے اس کو آرگنائز کیا تھا۔ آریسیبو سے یہ چند منٹ کے لئے اوکولس کانسٹیلیشن کی طرف بھیجا گیا تھا، جو دس ہزار نوری سال دور ہے۔ صرف ایک مرتبہ ہی کیوں؟ اس لئے کہ یہ بہت مہنگا کام ہے اور توانائی لیتا ہے۔ جب آریسیبو سے یہ بھیجا گیا تھا تو اس نے کئی کلومیٹر کے دائرے میں کھڑکیاں توڑ دی تھیں۔ دوسرا یہ کہ اگر اس کو سنتے ہی جواب بھی دیا جائے تو بیس ہزار سال بعد جواب موصول ہو گا۔ تو پھر کیا یہ سوڈوسائنس ہے؟ نہیں۔ کیا یہ پارٹیکل فزکس کے قریب بھی پھٹکتی ہے؟ بالکل بھی نہیں۔
ایک اور مثال سٹرنگ فزکس کی دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ خیال کہ ہر چیز کی بنیاد وائبریٹ کرنے والے سٹرنگ ہیں۔ کیا اس کے پیچھے اچھی تھیوریٹکل بیک گراونڈ ہے؟ بہت اچھی بنیاد ہے اور بہت تفصیلی ریاضی ہے۔ کیا اس کے لئے کوئی ایمپریکل شواہد ہیں؟ بالکل بھی نہیں۔ اگرچہ یہ موجودہ کسی معلوم مظہر سے تضاد نہیں رکھتی لیکن کیا یہ اس کے سائنس ہونے کے لئے کافی ہے؟ اس پر پچھلے بیس سال سے تھیوریٹکل فزسٹ لڑ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ ٹوئٹر پر بھی۔ (اس کے مخالفین اس کو سوڈوسائنس اور میٹافزکس بھی کہتے ہیں)۔ سٹرنگ تھیوری کی سائنسی حیثیت ایک چیلنج ہے، جس کا تعلق سائنس سے نہیں بلکہ سائنس کے فلسفے سے ہے۔ امید ہے کہ اس پر اچھی بحث سائنس کے فلسفے کو اگلے بیس سال میں بہتر کرے گی۔ لیکن اس وقت سٹرنگ فزکس سائنس مانی جاتی ہے، لیکن اس پر ہونے والی بحث ایک یاددہانی ہے کہ سائنس کے فلسفے کی تمام اصطلاحات ہماری اپنی بنائے ہوئے کنسٹرکٹ ہیں۔ کسی بھی فلسفے کی طرح یہ بحث اور دلائل کی بنیاد پر قائم کئے گئے تصورات، جو خود میں کوئی حرفِ آخر نہیں۔
اس تصویر میں ایک اور تیسری ڈائمنشن میں وقت کا اضافہ کیا جا سکتا تھا۔ اپنے وقت میں دستیاب ٹولز کی مدد سے ارسطو بھی سائنس کر رہے تھے۔ ایک وقت میں الکیمیا بھی سائنس تھی۔ نیوٹن نے جتنا وقت فزکس پر لگایا، اس سے زیادہ وقت الکیمیا پر۔ فزکس کام کر گئی اور آج ہم نیوٹن کو اس حوالے سے جانتے ہیں۔
(جاری ہے)
اس پر تفصیل سے پڑھنے کے لئے یہ مضمون۔