پراپیگنڈہ تو شاید انسانی تاریخ کی شروعات سے چلا آ رہا ہے ۔۔لیکن جدید دنیا میں اسکو ایک آرٹ کی شکل میں ڈھالنے کا سرا ہٹلر کے وزیر گوئبلز کو جاتا ہے۔ گوئبلز کا کہنا تھا کہ جھوٹ کو اتنی بار اور مہارت سے بولا جائے کہ عوام کو سچ لگنے لگے۔ ہماری اشرافیہ نے یہ بات پلے سے باندھ لی اور ستر سال سے لٹ گئے، برباد ہو گئے، خزانہ خالی ہے جیسے پراپیگنڈا کو مسلسل عوام کے زہنوں میں ڈالتے ڈالتے اس قدر راسخ کر دیا کہ اب ایک مفلوک الحال پاکستانی اپنی جیب پر پڑنے والا ڈاکہ آسانی سے برداشت کر لیتا ہے۔
ہم ستر سال سے نازک دور سے گزر رہے ہیں۔۔ ہر آنیوالا پچھلوں کی دہائی دیتا اور آپکی جیبیں مزید خالی کر دیتا ہے اور تن سے مزید کپڑے نوچ لیتا ہے۔ کبھی آج تک اعلی بیوروکریسی نے اس وجہ سے اپنی ٹھاٹ بھاٹھ، الاؤنسز، ہاؤسنگ میں کوئی کمی کی ہو؟ ہمارے سفارتی مشن پوری دنیا میں موجود ہیں کبھی انکے اخراجات میں کٹوتی کی گئی ہو؟ کبھی نان کومبیٹ دفاعی اخراجات میں کمی ہوتی ہو؟
غضب خدا کا آپکا ملک ان چند خطوں میں شمار ہوتا ہے جہاں زیر زمین میٹھا پانی دستیاب ہے، چاروں موسم مو د ہیں، کراچی سے ٹھٹھہ تک دنیا کا بہترین wind corridor موجود ہے۔۔ایک لمبی ساحلی پٹی دستیاب ہے۔ آپ گندم، کپاس، چاول، گنے کی فصلوں میں خود کفیل ہیں بلکہ ایکسپورٹ کرتے ہیں۔۔پھر کاہے کا رونا؟ ابھی کی انکوائری رپورٹ میں بھی یہی سامنے آیا کہ ملی بھگت اور نااہلی سے گندم، چینی ایکسپورٹ کرنے کی اجازت دی گئی جس سے مصنوعی بحران پیدا کیا گیا اور اس سے بھی حکومتی مقتدر حلقوں بشمول اپوزیشن نے فائدہ اٹھایا۔ پھر یہ منگتے ہونے کا شرمناک ٹیگ کیوں؟ ہر وقت بھیک کی دہائی کیوں؟
اس حکومت نے تو اس پراپیگنڈا کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہے۔۔عید ہو یا شب برات، کرسمس یا دیوالی وزیراعظم آتے اور ملک، بیرون ملک، انٹرنیشنل اداروں سے بھیک مانگنا شروع کر دیتے ہیں. ہر ملک کی اکانومی کو کسی وقت بیل آؤٹ پیکج کی ضرروت رہی ہے اسکا مقصد اکانومی میں جان ڈالنا اور مسائل سے چھٹکارہ ہوتا ہے ناکہ آپ عادی بھکاریوں کی طرح ہر فورم پر مانگنا شروع ہو جائیں ۔
اپنے اردگرد نظر دوڑائیں، پی ایم ریلیف فنڈ کی فارمیلٹی ہر ملک میں کی جاتی ہے اس کے علاوہ کسی غریب ترین ملک کے سربراہ نے بھی اس طرح ہر دوسرے دن پورے قوم کی شرمندگی کا سامان کیا ہو۔
کیا آنیوالا امدادی سامان اور کٹس ڈاکٹروں تک پہنچ چکیں؟ بجائے انتظامی نااہلیوں کو دور کرنے کے وہ نئے سرے سے مانگنا شروع کر دیتے ہیں۔۔بیرون ملک مقیم افراد شدید مشکلات کا شکار ہے لیکن ان س دوبارہ مانگنے کا سلسلہ شروع کیا جا چکا ہے۔ کیا ملک اس سے پہلے چندے اور بھیک پر چلتا تھا؟ کیا اس حکومت نے سول وار لڑ کر یہ حکومت حاصل کی تھی جو انکو ورثے میں کچھ نہیں ملا؟
قوم کی ستر سالہ زلالت ایک طرف اور دو سال میں جو یہ شرمندگی کا باب رقم ہو رہا ہے وہ ایک طرف۔۔ہمارے پاس اب بھی وسائل موجود ہیں لیکن اگر صرف انتظامی نااہلیوں کو دور کر لیا جائے اور حکومت میں دہاڑیاں لگانے والے افراد سے جان چھڑا لی جائے تو ہم کامیاب ہو سکتے ہیں۔