پرومیتھیس اپنی زنجیریں توڑتا ہے:
خدا، نیچر اور تقدیر کی زنجیروں میں بندھا پرومیتھیس (انسان) شعور، آگہی، علوم اور ٹیکنالوجی پر عبور حاصل کرتا گیا۔۔ وہ ان قوانین کو جان گیا جس سے کائنات کے سارے مظاہر تشکیل پاتے ہیں۔ چنانچہ شیلے پرومیتھیس پر ایک خوبصورت ڈرامائی انسپائرنگ نظم Prometheus Unbound لکھتا ہے۔۔ انسانی ہیرو پرومتھیس آسمانی خدا کی باندھی زنجیروں کو توڑ دیتا ہے۔ پہلے ایکٹ مین بتایا جاتا ہے۔ کہ پرومیتھیس ازیت سہہ رہا ہے۔ اس گناہ پر کہ وہ انسانیت کو آزادی کا تحفہ دے چکا ہے۔ دوسرے ایکٹ کا آغاز آسیا (حوا کی علامت) سے ہوتا ہے۔ یہاں ایک پراسرار کردار Demogorgon سامنے آتا ہے، جو خدا کا تخت الٹ دیتا ہے۔۔نقادوں نے اس کو فطرت میں ہونے والے پراسس سے تعبیر کیا ہے۔ اسے وقت،، تاریخ، عمل بھی کہہ سکتے ہیں۔ ڈیموگارگن کو خود بھی پتا نہیں، اسے کون کنٹرول کرتا ہے۔ آسیا اس سے پوچھتی ہے، یہ خیرو شر کیوں پیدا ہوئے۔۔ اس کے جواب میں وہ کہتا، کہ صداقت کی گہرائی میں جایا جائے، تو کوئی صورت قائم نہیں رہتی، The deep truth is imageless لیکن ایک بات پکی ہے، پرومیتھیس (انسان) کے اٹھنے کا وقت آ گیا ہے۔ تیسرے ایکٹ میں خدا اپنی حمد وثنا کررہا ہے۔۔" میں ہی قادر مطلق ہوں، ہر چیز میرے سامنے سجدہ ریز ہے۔۔سوائے انسانی روح کے۔۔۔جو آسمانوں کی طرف شک، تحقیر، اور آہ زاری سے اٹھ رہی ہے۔۔۔ یہ دل سے عبادت نہ کرنے والا ایسی بغاوت اچھال رہا ہے۔۔جس سے اس دنیا پر ہماری قدیم حکمرانی غیر محفوظ ہوچکی ہے۔۔۔۔۔" خدائے اکبر کے خدشات یونہی نہ تھے۔۔ ڈیموگورگون اسے معزول کردیتا ہے۔ انسانی سماج اور فطرت دونوں کی از سر نو تعمیر ہوتی ہے۔ اور ان کے بیچ ایک نئی مفاہمت تشکیل پاتی ہے۔ چوتھے ایکٹ میں سب ارواح خوشی کے گیت گاتے ہیں۔ انسان کی خوبصورتی پر حمدیہ گیت گائے جاتے ہیں۔ انسان خدائی رعب، پوجا پاٹ، اور بادشاہ سے آزاد ہوکر اپنے طبقاتی، قبائلی، اور قومیتی بندھنوں کو توڑ دیتا ہے۔۔ اور اس کے پاس تہذیب، عدل اور عقل رہ جاتی ہے۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“