یونانی دیوما لاکہانیاں حیرتناک داستانوں سے پر ہیں۔حضرت عیسیؑ کی آمد سے قبل یونان کے لوگوں کے مذہب میں ان داستانوں کا بہت عمل دخل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یونانی دیومالا میں دیویوں اور دیوتاؤں کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔
اسی طرح کی ایک دلچسپ کہانی پرومتھیس کی ملتی ہے جس نے دنیا کو شدید سردی سے بچانے کے لیئے آگ جلانے کا فن ایجاد کیا۔ دراصل زیوس دیوتا خود کچھ عرصے سے سوچ رہا تھا کہ انسان کو سردی سے بچایا جائے۔ اس کی خواہش تھی کہ آگ کا بندوبست کرے ۔ لیکن زیوس دیوتا سے پہلے ہی پرومتھیس نے انسانیت کو آگ جلانے کے فن سے روشناس کرا دیا۔ یہ بات دیوتا زیوس کو پسند نہ آئی اور اس نے پرومتھیس کو ایک چٹان سے بندھوا دیا اور اس پر ایک گدھ چھوڑ دیا۔ گدھ نے اس کے جگر کو کھانا شروع کر دیا۔ رات گزرتی ہے تو اگلے دن پرومتھیس دوبارہ ٹھیک ہو جاتا ہے اور دوبارہ اس کے جگر کو کھانا شروع کر دیتا ہے۔یہ ایک دائمی سزا تھی جو پرومتھیس کو دی گئی لیکن کئی سالوں بعد ایک اور یونانی ہیرو ہرکولیس کو پرومتھیس پر ترس آیا اور اس نے گدھ کو ذبح کر دیا اور اس طرح انسانیت کو آگ سے روشناس کرانے والے پرومتھیس کی سزا کا خاتمہ ہوا۔ اگرچہ کہ یہ سزا بہت خوفناک تھی لیکن انسانیت سے ہمدردی کی بنا پر پرومتھیس کو اپنے کیے پر فخر تھا۔
پرومتھیس کو خود بھی ایک دیوتا کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ اس کی سزا انسانیت سے ہمدردی کی وجہ سے دی گئی۔پرومتھیس ظلم اور جبر کے خلاف جرات اور بہادری کی علامت کے طور پر جانا جاتا ہے۔
پرومتھیس کا تذکرہ افلاطون کی کئی کتابوں میں ملتا ہے۔ انیسویں صدی میں مشہور فلسفی کارل مارکس نے اپنے اخبار کے پہلے صفحے پر پرومتھیس کی تصویر شائع کر کے اس کو خراج عقیدت پیش کیا ۔ معروف اردو مصنف سبط حسن نے بھی اپنی کتاب موسی سے مارکس تک کے پہلے صفحے پر پرومتھیس کی تصویر شائع کی تھی۔پانچویں صدی قبل مسیح کے عظیم یونانی المیہ ڈرامہ نگار ایسکیلس نے بھی اپنے مشہور ڈرامہ میں پرومتھیس کا تذکرہ کیا ہے۔ایسکلیس نے تو پرومتھیس کی سزا سے قبل کے اس کے دیوتا زیوس کے لیے دی گئی عظیم قربانیوں کا تذکرہ بھی کیا ہے اور اس کی آگ چرانے کی داستاں کو انتہائی دلچسپ پیرائے میں لکھا ہے۔