یہ پوسٹ اپنے عنوان کی طرح ایک پرسرار کہانی ہے لیکن یہ کہانی اصل ہے مگر اس کو سمجھنے کے لئے آواز کو، فضا کو، سیاست کو اور نفسیات کو سمجھنا پڑے گا۔
یہ سب جون 1947 کو شروع ہوا۔ ایک طوفان کے بعد میک بریزل کے کھیت میں ملبہ گرا، پرسرار دھات اور پلاسٹک، عجیب رنگ اور نقش و نگار۔ وہ تو بس اپنا کھیت صاف کرنا چاہ رہے تھے تا کہ ان کی بھیڑیں اس کچرے پر منہ نہ ماریں لیکن ان کی صفائی ایک بڑی سازشی تھیوری کی بنیاد بن گئی۔
کئی بار موسم معلوم کرنے کے لئے غبارے گر جایا کرتے تھے، کئی بار ملٹری کے تجربات کا ملبہ لیکن یہ ملبہ فرق تھا۔ کچھ دن بعد انہوں نے اپنے ہمسائیوں کو یہ دکھایا۔ انہوں نے بتایا کہ آج کل اڑن طشتریوں کی افواہ چل رہی ہے۔ بریزل اس کو مقامی شیرف کے پاس لے گئے جس نے فضائیہ کو فون کیا۔ فضائیہ کے لوگوں نے لاعلمی کا اظہار کیا اور اس کو دیکھنے آئے۔ یہ دھات جلتی بھی نہیں تھی اور چاقو سے نشان بھی نہیں پڑتا تھا۔ فضائیہ والے اس کو لے گئے اور کہہ دیا کہ یہ واقعی کوئی نامعلوم میٹیریل ہے۔ شہر میں چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں۔ مقامی اخبارات اور ریڈیو کی شہ سرخی تھی کہ “فضائیہ کی طرف سے تصدیق ہو گئی ہے کہ اڑن طشتری کی افواہوں کے پیچھے کوئی حقیقت ہے۔”
ان افواہوں کو مقبولیت اس وقت ملی جب اگلے روز سینئیر فوجی افسروں نے ان اخبارات کو ضبط کر لیا اور پرانی پریس ریلیز واپس لینے کی کوشش کی اور اعلان کیا کہ یہ ایک موسم معلوم کرنے والے غبارے کا ملبہ تھا جو طوفان سے نیچے گر گیا تھا۔ جو دبایا جاتا ہے، وہ نہ صرف پھیلتا ہے بلکہ مزید پرسرار ہو کر بڑھتا ہے۔ آخر کس سے خوف ہے؟ کیا ہے جو چھپایا جا رہا ہے؟ ایک موسمی غبارے کے پیچھے یہ سب کچھ؟
اور اس وقت کچھ چھپانے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ کیا؟ اس کے لئے پہلے کچھ بات فزکس کی۔
آواز ہوا کے مالیکولز کا ارتعاش ہے۔ ہوا کے مالیکیول سرد جگہ پر سست رفتار جبکہ گرم جگہ پر تیزرفتار ہوتے ہیں۔ ہوا کی رفتار بھی اس وجہ سے گرم جگہوں پر تیز جبکہ سرد جگہوں پر سست ہوتی ہے۔ اسلام آباد میں یہ 772 میل جبکہ کے ٹو پر 672 میل فی گھنٹہ ہو گی۔ اس کی وجہ سے ہوا کی لہریں بھی سیدھی لکیر کی صورت میں حرکت نہیں کرتیں بلکہ سرد جگہ کی طرف مڑ جاتی ہیں۔ زمین پر آواز اوپر کی طرف زیادہ جائے گی کیونکہ اس جگہ پر درجہ حرارت کم ہوتا ہے۔ ہم جتنا بلندی کیطرف جاتے ہیں، درجہ حرارت کم ہوتا ہے۔ ساٹھ ہزار فٹ تک تو یہ ٹھیک ہے لیکن اس کے بعد اس ایک اور چیز کا سامنا ہوتا ہے۔
زمین پر زندگی سمندر سے باہر ممکن بنانے میں اہم کردار اوزون کا ہے۔ یہ آکسیجن کے تین ایٹمز پر مشتمل مالیکیول ہے اور الٹراوائلٹ شعاعوں کو جذب کر لیتی ہے۔ اس کی مقدار بہت کم ہے۔ لیکن یہ اس قدر اچھے طریقے سے سورج کی روشنی جذب کرتی ہے کہ زمین سے ڈیڑھ لاکھ فٹ بلند درجہ حرارت صفر ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ یعنی ہوا میں ایک سینڈوچ ہے۔ نیچے سے گرم، اوپر سے گرم اور درمیان سے سرد۔
اوپر بڑھتی آواز جب اس گرم تہہ سے ٹکراتی ہے تو پھر یو ٹرن کر لیتی ہے اور نیچے کا رخ کرتی ہے۔ نیچے کی طرف جا کر اس کو پھر گرم تہہ کا سامنا ہوتا ہے اور ایک اور یوٹرن۔ اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آواز ایک چینل میں پھنس جاتی ہے۔ یہ ساوٗنڈ چینل کہلاتا ہے۔ (ایسا نہیں کہ آپ کی اپنے دوست سے سرگوشیاں یہاں پر پھنسی ہوئی ہیں۔ آواز اپنی توانائی کھوتی جاتی ہے لیکن بہت اونچی آوازیں اس چینل میں بڑی دیر تک رہ جاتی ہیں اور وور تک سفر کرتی ہیں)۔
مورس ایونگ نے اس چینل کو 1944 میں دریافت کیا۔ ابتدا میں تو یہ بس ایک دلچسپ تصور لگا لیکن ان کو اس سے فائدہ اٹھانے کا خیال آیا۔ اگر کوئی آواز اس چینل کے اندر ہی پیدا ہو اور اونچی ہو تو وہ پھر سفر کرنے کی حد بھی بہت دور تک ہو گی۔ اس کو جاسوسی کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
کیا سوویت یونین نیوکلئیر ٹیسٹ کر رہا ہے؟ نیوکلئیر دھماکے کا بادل اس چینل میں بنتا ہے اور اس قدر اونچی آواز پوری دنیا کا چکر کاٹ سکتی ہے۔ اگر امریکہ میں اس چینل میں جاسوسی غبارہ رکھے جس میں مائیکروفون ہوں تو پھر اس کا پتا لگ جائے گا۔ اس سائنس کی بنیاد پر پراجیکٹ مغل شروع کیا گیا۔
اس پراجیکٹ کو کئی مشکلات کا سامنا رہا۔ اس بلندی پر سورج کی شعاعوں کی تمازت ان کو گرم کر کے اس چینل سے نکال دیتی تھی۔ اس کو خاص بلندی پر رکھنے کے لئے نیا شفاف میٹیریل استعمال کیا گیا جس میں سے سورج کی شعاعیں گزر سکیں۔ ان کو ٹریک کیسے کیا جائے؟ اتنی بلندی پر اتنے چھوٹے آبجیکٹ کو ریڈار سے ٹریک نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس کے لئے اکتیس غباروں کا ایک سٹرکچر بنایا گیا جو ایک ڈبے کی شکل کے تھے۔ اس کو گوند اور ٹیپ سے جوڑا گیا۔ چونکہ سائنسدان خوبصورتی میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے، اس لئے یہ ٹیپ بھی رنگ برنگی تھی۔
ہوا میں جھومتے یہ سٹرکچر اڑن طشتریوں کی کئی افواہوں کی وجہ بنے۔ خاص طور پر رات کو پورے چاند کی روشنی کا انعکاس کئی بار عجیب عکس دیتا تھا۔ سانپ کی طرح لہراتے اور دنیا کے کسی دوسرے حصے کی سن گن لیتے یہ غبارے جب کبھی گرتے تھے تو ملبہ موسم کے غباروں کی نسبت زیادہ بنتا تھا۔
پراجیکٹ مغل کی کلاسیفیکیشن ڈبل الٹرا سیکرٹ تھی یعنی کہ خود فوج میں کم لوگ اس بارے میں جانتے تھے۔ اس کے ملبے کو اکٹھا کرنے کے لئے فضائیہ میں سے بھی خاص ٹیم تھی۔ اس طرح کے ایک سو دس غبارے گرے۔ (فضائیہ کی جس ٹیم کو شیرف نے فون کیا تھا، اس کو اس پراجیکٹ کا بالکل علم نہیں تھا اور ان کے لئے بھی یہ پرسرار آبجیکٹ تھا)۔ کئی غبارے تو آسانی سے مل جاتے تھے لیکن کئی کیلئے یہ ٹیم ریڈیو پر اڑن طشتری کی نئی افواہوں کی خبر رکھتی تھی اور وہاں پہنچ جاتی تھی۔
پراجیکٹ مغل خود کئی سال تک چلتا رہا۔ اس نے اگست 1949 میں ہونے والا پہلا سوویت نیوکلئیر ٹیسٹ سنا۔ لیکن بہتر طریقے آنے کی وجہ سے اس کو مارچ 1950 میں بند کر دیا گیا۔ اس کا نیا طریقہ ہوائی جہاز کی مدد سے تابکار دھول کی پیمائش تھا۔
امریکی فضائیہ اس کو ظاہر کر سکتی تھی لیکن سرد جنگ میں سوویت یونین کو اپنی جاسوسی کے طریقوں کا بتانے سے بہتر یہ تھا کہ لوگ ان اڑن طشتریوں اور خلائی مخلوق کی کہانیوں پر ہی یقین رکھیں۔ اس سے پچاس سال بعد اس کو ڈی کلاسیفائی کیا گیا۔
لیکن اس وقت تک یہ مقام، روزویل، ایک اپنی ہی نئی زندگی لے چکا تھا اور سازشی نظریات کا زرخیز گڑھ بن چکا تھا۔ ایریا 51، خلائی مخلوق، ٹائم ٹریول، ٹیلی پورٹیشن، موسمی کنٹرول، ون ورلڈ آرڈر، ارورا پروگرام، میجسٹک 12 اور یو ایف او کی کہانیاں اور لوک داستانوں، فلموں، ناولوں اور افسانوں میں اس علاقے کا اور اس واقعے کا ایک اپنا ہی مقام ہے۔
ان نامعلوم اڑن طشتریوں کے پیچھے مریخ کے سبز لوگ نہیں بلکہ سرد جنگ میں جاسوسی کی کوشش کرنے والے مورس ایونگ تھے۔