اگر دولت یا طاقت سے خوشی خریدی جا سکتی تو یروشلم کے بادشاہ قوہولیط بہت خوش ہوتے۔ وہ لکھتے ہیں۔
“میں نے عظیم کام کئے ہیں۔ اپنے لئے گھر بنائے ہیں۔ باغ لگائے ہیں، پارک بنائے ہیں، بیلوں کے میلے بنائے ہیں۔ ان میں ہر طرح کے پھلدار درخت لگائے ہیں۔ میرے پاس بڑے مویشیوں اور جانوروں کے بڑے ریوڑ ہیں جو کسی اور کے پاس نہیں۔ میں نے چاندی اور سونا حاصل کیا ہے، میرے پاس سلطنتوں اور ریاستوں کے خزانے ہیں۔ گانے والے اور گانے والیاں ہیں، قربت کی لذت ہے۔ میں عظیم بن گیا اور میں نے وہ حاصل کر لیا جو مجھ سے پہلے کوئی حاصل نہیں کر سکا۔ اور میں نے ہوش کا دامن بھی کبھی نہیں چھوڑا۔ میری دانائی میرے ساتھ رہی۔ جو میری آنکھ نے خواہش کی، اس کو مل گیا”
اور پھر اس سے آگے وہ ایک مایوسی کا ذکر کرتے ہیں۔
“میں سوچتا ہوں کہ میرے ہاتھ کیا کیا کچھ کر چکے ہیں۔ انہوں نے ایسا کرنے کے لئے محنت کی ہے۔ مگر پھر ۔۔۔ سب ایسا لگتا ہے جیسے ہوا کے جھونکے کا پیچھا کرنا۔ اس سورج کے نیچے کچھ رہ ہی نہیں گیا جس کو مزید حاصل کیا جا سکے”۔
محنت، علم، جسمانی لذتیں۔ قوہولیط کہتے ہیں کہ کسی سے اطمینان نہیں ملا۔ ان کا مسئلہ کیا ہے؟ سٹوائک فلسفی ایپکٹیٹس یا بدھا کی نظر سے دیکھا جائے تو جواب واضح ہے۔ یہ مسئلہ خوشی کا پیچھا کرنا ہے۔ خوشی باہر سے نہیں، اندر سے آتی ہے۔ بیرونی تعلقات توڑ کر، توکل اور تسلیم کا رویہ اپنا کر حاصل کی جا سکتی ہے۔ رشتے، تعلقات، روزگار، مال و دولت رکھا جا سکتا ہے، ان سے جذباتی تعلقات بنانا ناخوشی کی جڑ ہے۔ سائیکلولوجی پر ہونے والی حالیہ تحقیق یہ کہتی ہے کہ یہ والا نکتہ نظر کچھ زیادہ ہی دوسری طرف لے گیا ہے۔ کئی چیزیں اس قابل ہیں کہ ان کے لئے محنت اور کوشش کی جائے۔ خوشی کا کچھ حصہ باہر سے بھی آتا ہے ۔۔۔ اگر آپ کو پتا ہو کہ دیکھنا کہاں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قوہولیط جس مسئلے کا شکار تھے، وہ صرف بے معنی ہونے کا خوف نہیں تھا بلکہ کامیابی کی مایوسی تھی۔ کسی چیز سے جو خوشی ملتی ہے، وہ اکثر بڑی مختصر مدت کی ہوتی ہے۔ آپ خواب دیکھتے ہیں، کسی پروموشن کے، کسی بہترین یونیورسٹی میں داخلے کے، کوئی بڑا پراجیکٹ کامیابی سے ختم کر لینے کے۔ اس کے لئے نیندیں اڑا دیتے ہیں، اس تصور میں کہ جب یہ حاصل ہو جائے گا تو کس قدر خوشی ہو گی۔ اور پھر کامیابی کا وہ وقت آ جاتا ہے۔ اگر آپ خوش قسمت ہیں تو کچھ دیر کے لئے ایک والہانہ مسرت ملے گی۔ شاید ایک گھنٹہ یا بہت ہو گیا تو ایک دن۔ خاص طور پر اس وقت اگر یہ کامیابی غیرمتوقع تھی اور اس کی خبر اچانک ملی۔ زیادہ تر یہ احساس بھی نیہں ہو گا۔ آہستہ آہستہ کامیابی کا امکان زیادہ ہوتا جائے گا اور اس کے قریب پہنچ جائیں گے۔ جب آخری ایونٹ ہو گا، اس وقت تک پہلے ہی اس کی توقع ہو گی۔ سفر ختم ہونے پر سکھ کا احساس، جیسے بوجھ ہٹ گیا ہو اور پھر ختم۔ کچھ دیر بعد اگلا سوال، “اچھا، اب آگے کیا کرنا ہے؟”
اور یہ نارمل ہے۔ جانوروں کو ڈوپامین، جو کہ خوشی کا نیوروٹرانسمیٹر ہے، کا ایک رش آتا ہے، جب وہ خوراک یا کوئی جسمانی لذت حاصل کر لیں۔ یہ ان کو بار بار اس چکر میں ڈالے رکھتا ہے اور یہ احساس اس کے لئے ضروری ہے۔ انسانوں کی زندگی کی کھیل زیادہ پیچیدہ ہے۔ زندگی کی کھیل میں اچھا سٹیٹس، اچھی شہرت، دوست اور رفاقتیں، دولت، اولاد کی کامیابی، یہ سب اس کی جیت کا حصہ ہیں۔ بہت سے مقصد، خوشی کے بہت سے ذرائع۔ زندگی کے کسی بھی اہم مقصد کو حاصل کر کے ڈوپامین کا لمبا سا شاٹ بے کار ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے موثر ہونے کے لئے ایسا فیڈ بیک فوری چاہیے۔ اس کی مثال: اگر آپ کتے کو سدھا رہے ہیں تو اس کو اچھے کام کا انعام اسی وقت دیں گے، دس منٹ بعد دینے سے کوئی فائدہ نہیں۔ اسی طرح تکلیف یا خوشی کا فیڈبیک فوری نہ ملے تو اس کا فائدہ نہیں ہوتا۔
رچرڈ ڈیوڈسن، جنہوں نے ہمیں فرنٹ لیفٹ کارٹیکس کے اپروچ سرکٹس سے متعارف کروایا، ہمیں دو طرح کے مثبت اثرات سے آگاہ کرتے ہیں۔ پہلے کو وہ مقصد حاصل کرنے سے قبل کا مثبت اثر کہتے ہیں۔ یہ وہ خوشی کا احساس ہے، جو اس وقت حاصل ہوتا ہے جب ہم مقصد حاصل کرنے کی طرف پیشرفت کرتے ہیں۔ دوسرے کو وہ مقصد حاصل کرنے کے بعد کا مثبت اثر کہتے ہیں۔ یہ وہ سکھ کا احساس ہے جو مقصد حاصل کر لینے کے بعد مختصر مدت کے لئے رہتا ہے جب بایاں پری فرنٹل کورٹیکس اپنی ایکٹیویٹی کم کر دیتا ہے۔ یہ احساس زیادہ لمبی مدت کے لئے نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خوشی میں منزل کی اہمیت نہیں، سفر کی ہے۔ اپنے آپ کے لئے جو بھی مقصد سیٹ کریں، اس کی تمام تر خوشی اس کے سفر میں ہو گی، جو اس منزل سے قریب لے کر جا رہا ہے۔ آخری قدم بس ویسا ہی ہو گا جیسے کوہ پیما ایک پہاڑ کو سر کر کے اپنا بیگ اتار کر رکھ دیتا ہے۔ اگر یہ ہائکنگ صرف اس آخری منزل کے لئے کی گئی تھی تو آپ کہیں گے کہ ایسا کوہ پیما خاصا بے وقوف ہے۔ لیکن اپنی زندگی میں ایسا رویہ عام دیکھنے کو ملے گا۔ کسی چیز کے لئے محنت، اس امید میں کہ یہ حاصل ہو جائے تو پھر ہم خوش ہو لیں گے۔ اس کے آخر میں کچھ خاص ہے۔ اور جب پھر کامیابی حاصل کر لیتے ہیں تو ایک مایوسی کہ بس یہی تھا۔ پھر یہ ہوا کے جھونکے کو پکڑنے جیسی کیفیت لگتی ہے۔
اس کو پروگریس کا اصول کہا جا سکتا ہے۔ خوشی مقاصد حاصل کرنے کی طرف پیش رفت سے ملتی ہے۔ جیسا کہ شیکسپئیر نے کہا تھا،
“جو جیت لیا، وہ ہو گیا۔ خوشی کی روح ہونے میں نہیں، کرنے میں ہے”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بچپن میں پڑھی کہانیاں جہاں شہزادہ ایک مشکل سفر کے بعد شہزادی کو پا لیتا ہے اور پھر دونوں ہنسی خوشی کی زندگی بسر کرتے ہیں، ٹھیک نہیں ہوتیں۔ زندگی میں خوشی، کسی منزل کا نام نہیں، ایک اچھے راستے پر سفر کرنے اور اس سفر سے لطف اندوز ہونے کا نام ہے، خواہ وہ کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو۔