پروگرام نمبر ۲ توازن اردو ادب ۱۵ جولائی ۲۰۱۹ء
بعنوان:
نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم
رپورٹ:
احمدمنیبؔ
نعت:
حضرت اقدس محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدحت، تعریف و توصیف، شمائل و خصائص کے نظمی اندازِ بیاں کو نعت یا نعت خوانی یا نعت گوئی کہا جاتا ہے۔عربی زبان میں نعت کے لیے لفظ ”مدحِ رسول“ استعمال ہوتا ہے۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ میں بہت سے صحابہ کرام نے نعتیں لکھیں اور یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے۔ نعت لکھنے والے کو نعت گو شاعر جبکہ نعت پڑھنے والے کو نعت خواں یا ثنا خواں کہا جاتا ہے۔
نعت گوئی کی تاریخ:
گوکہ یہ کہنا مشکل ہے کہ نعت خوانی کا آغاز کب ہوا تھا لیکن روایات سے پتا چلتا ہے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا ابوطالب نے پہلے پہل نعت کہی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش سے پہلے تبان اسعد ابو کلی کرب اور بعد ازاں ورقہ بن نوفل بھی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی شان میں نعت کہی۔
اردو کے مشہور نعت گو شاعر فصیح الدین سہروردی کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا ابوطالب اور اصحاب میں حضرت حسان بن ثابتؓ پہلے نعت گو شاعر اور نعت خواں تھے۔اسی بنا پر اُنہیں شاعرِ دربارِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی کہا جاتا ہے۔ نمونہ ٔکلام ملاحظہ فرمائیں:
یابکر آمنة المبارک بکرھا ولدتہ محصنة بسعد الاسع
نوراً ضاء علی البریة کلھا من یھد للنور المبارک یھتدی
متی يبد في الداجي البهيم جبينه
يلح مثل مصباح الدجي المتوقد
از دیوان حضرت حسان بن ثابت 153
ترجمہ:”اے آمنہ کے مبارک بیٹے! جس کی پیدائش انتہائی پاکیزہ اور سعد ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ نور ہیں جس نے سب مخلوقات کو منور کر دیا اور اس مبارک نور کی پیروی کرنے والا ہدایت پا گیا۔
شبِ تاریک میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جبینِ اقدس اس طرح چمکتی دکھائی دیتی ہے جیسے گھپ اندھیرے میں روشن چراغ ۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خود کئی مرتبہ حسان بن ثابت سے نعت سماعت فرمائی۔ حسان بن ثابت کے علاوہ بھی ان اصحاب کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں نعتیں لکھیں اور پڑھیں۔ کعب بن زہیر اورعبداللہ ابن رواحہ نے ترنم سے نعتیں پڑھیں۔
جب حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مکے سے ہجرت فرما کر مدینے تشریف لائے تو آپ کے استقبال میں انصار کی بچیوں نے دف پر جو نعت پڑھی اس کا مطلع شہرتِ دوام پاگیا:
طلع البدر علینا من ثنیات الوداع
و جب الشکر علینا ما دعا للہ داع
نعت گو اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم:
مندرجہ ذیل صحابہ کرام کو نہ صرف حضورپاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نعت پڑھنے کا شرف حاصل ہوا بلکہ کئی روایات سے ثابت ہے کہ حضورپاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خود کئی بار ان اصحاب سے نعت سماعت فرمائی:
حسان بن ثابت، اسود بن سریع، عبد اللہ بن رواحہ، عامر بن اکوع، عباس بن عبد المطلب، کعب بن زہیر اور نابغہ جعدی۔ رضی اللہ عنہم۔
نعت گو علماءِ اُمَّت :
امام ابوحنیفہ، مولانا روم، شیخ سعدی، مولانا جامی، امام بوصیری، احمد رضا خان، علامہ ریاض الد ین سہروردی، محمد قاسم نانوتوی، حکیم الاسلام طیب قاسمی اور سید نفیس الحسینی شاہ۔ وغیرہ
اولیاء اللہ اور نعت خوانی:
اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک سے لے کرعہدِ حاضر تک جہاں صحابہ کرام اور علما نے حضورپاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نعتوں کی روایت کو فروغ دیا وہیں اولیاء اللہ نے بھی اسلام کی ترویج و اشاعت کے ساتھ حضورپاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عشق کو ایمان کی تکمیل کے لیے ناگزیر قرار دیا اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اظہار کے لیے نعت خوانی کوایک بہترین ذریعہ قرار دیا۔ تمام تر سلاسلِ تصوف میں محافلِ نعت خوانی کو خصوصی مقام حاصل ہے۔ ایسی برگزیدہ ہستیوں کے نام ذیل میں درج ہیں جنہوں نے نہ صرف نعت خوانی کو فروغ دیا بلکہ خود بھی نعت گوئی کی:
شیخ سیدنا عبدالقادر جیلانی، بابا فرید الدین گنج شکر، سلطان باہو، بابا بلھے شاہ، میاں محمد بخش،خواجہ نظام الدین اولیا، خواجہ غلام فرید، امیر خسرو،خواجہ عثمان ہارونی اور مخدوم علاؤ الدین علی احمد صابر کلیری وغیرہ۔
مسلم نعت گو شعرا:
حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ثنا خوانی کرنے والے ہر دور میں پیدا ہوئے اور آج بھی ہر شاعر نعت لکھنا اپنے لئے اعزاز خیال کرتا ہے۔ یہ بھی سمجھتا ہے کہ حمد و نعت لکھنے کی توفیق ہر ایک کو نہیں ملتی بلکہ یہ رضائے باری تعالیٰ کی ایک نشانی ہے کہ حمد ومناجات اور نعت لکھنے کی توفیق عطاہو۔بعض شعرا نے اپنے اس فن اور ہنر کے طفیل ابدی شہرت پائی۔ ذیل میں ایسے حضرات کی فہرست دی جا رہی ہے:
احمد رضا خان۔ آپ کا مشہور سلام :مصطفیٰ جان رحمت پہ لاکھوں سلام۔ عوام و خواص میں بے پناہ مقبول ہے،حسن رضا خان، امیر مینائی، الطاف حسین حالی، صائم چشتی، ادیب رائے پوری، علامہ اقبال،خواجہ بیدم وارثی، محمد علی ظہوری، حافظ مظہر الدین مظہر، حفیظ تائب، حامد یزدانی، کوثر نیازی، بہزاد لکھنوی، عبدالستار نیازی، ریاض حسین چودھری، ضیا نیر، حسین محی الدین، قمر الدین انجم، قمر اجنالوی، پروفیسر اقبال عظیم، خالد محمود نقش بندی، مولانا ظفر علی خان، ماہرالقادری، علیم ناصری،یزدانی جالندھری، منصور آفاق، مقصود احمد تبسّم، خالد علیم، تنویرپھول، اعجاز رحمانی، پیر نصیر الدین نصیر گیلانی، الیاس قادری، شاکرالقادری، عباس عدیم قریشی، ندیم رضا فارق، مرزا حفیظ اوج، آصف قادری، نذر صابری، صبا اکبرآبادی، مظفر وارثی، صبیح رحمانی، صہبا اختر اور شعیب جاذب وغیرھم۔
غیر مسلم نعت گو شعرا:
اللہ تعالیٰ نے آنحضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو رحمۃ للعالمین قرار دیاہے، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تمام جہانوں کے لیے رحمت بن کر تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدحت و ثنا خوانی جہاں مسلمانوں کا شعار رہی ہے، وہیں کچھ ایسے غیر مسلم شعرا بھی ہیں جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت پاک کا مطالعہ کیا اور آپ کے اوصافِ حمیدہ ان پر کھلے انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بہت عمدہ نعتیہ کلام لکھے۔ خصوصاً بھارتی شاعر کنور مہندر سنگھ بیدی سحر نے اس سلسلے میں لافانی اشعار حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں کہے، جو بہت پسند کیے گئے اور اکثر ان کے ان اشعار کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ:
ہم کسی دین سے ہوں صاحبِ کردار تو ہیں
ہم ثنا خوانِ شہِ حیدرِ کرّار تو ہیں
نام لیوا ہیں محمدؐ کے پرستار تو ہیں
یعنی مجبور پئے احمدِ مختارؐ تو ہیں
اور یہ شہرہ آفاق شعر کہ:
عشق ہو جائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں
صرف مسلم کا محمدؐ پہ اِجارہ تو نہیں
پاکستان کے مشہور جسٹس رانا بھگوان داس بھی نعت گو ہیں۔ ان کی ایک نعت کے کچھ اشعار درج ہیں:
نبیٔ مکرم شنہشاہ عالی
بہ اوصافِ ذاتی و شانِ کمالی
جمالِ دو عالم تری ذاتِ عالی
دو عالم کی رونق تری خوش جمالی
خدا کا جو نائب ہوا ہے یہ انساں
یہ سب کچھ ہے تیری ستودہ خصالی
ان کے علاوہ جرمنی کے قومی شاعر جناب گوئٹے نے نعت نبیؐ پر ایک پوری کتاب لکھی اور پاکستان میں ایک مشہور معروف عیسائی شاعر جناب نذیر قیصر کا مجموعۂ نعت شائع ہوا جسے پاکستان کے ایک بڑے ادبی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ گویا ہر ایک کو نعت گوئی کی توفیق کہاں؟
نعت خواں:
یہ بھی ایک سعادت ہے کہ کسی کی لکھی ہوئی یا خود لکھ کر نعت کو خوش الحانی کے ساتھ ترنم اور سوز و گداز دل کے ساتھ پڑھنا اور لوگوں میں پذیرائی حاصل کرنا۔ بعض لوگ اس میدان میں بھی کمال حاصل کر لیتے ہیں اور زندہ و جاوید ہو جاتے ہیں۔ چند مشہور نعت خواں حضرات کا ذکر خیر بھی یہاں ضروری ہے:
محمد علی ظہوری، اعظم چشتی، اختر قریشی، نصراللہ خاں نوری، قاری زبیدرسول، محمد شکیل قادری، الحاج عمران شیخ قادری، اویس رضا قادری، عبد الرؤف روفی، خورشید احمد، صبیح رحمانی، مشتاق قادری، محمد افضل نوشاہی، عبدالستار نیازی، مرغوب احمد ہمدانی، محبوب احمد ہمدانی، طاہر قادری، سید منظور الکونین، سید بلال منظور، سید باغ علی شاہ، سید امین گیلانی، قاری حنیف شاہد رامپوری، سید سلمان گیلانی، شاہد عمران عادفی اور حافظ ابوبکر مدنی۔ وغیرہ
توازن اردو ادب کے تحت پروگرام:
توازن اردو ادب کا دوسرا پروگرام نعت رسول مقبول پر محترم ذوالفقار نقوی صاحب کشمیر بھارت کی صدارت میں منعقد ہوا۔اس پروگرام کا وقت بھی شام پان بجے تک تھا۔ احباب نے بڑے ذوق و شوق سے اس میں حصہ لیا اور سارا دن نعت پر مشتمل پوسٹس لگاتے رہے۔
محترم رضا الحسن رضا نے امروہہ بھارت سے کلام عطا کیا کہ:
سکون چاہو اگر عالمِ بقا کے لیے
پڑھو درود محمّد پہ تم خدا کے لیے
محترم کامل جنیٹوی صاحب نے ضلع سنبھل (یو۔پی۔) بھارت سے بہت ہی خوب صورت ایک سے زائد نعتیں پیش کرنے کی سعادت پائی۔
سختیوں سے راہ کی کامل میں گھبرائوں تو کیوں
ہے مرے دامن میں جب رخت سفر نعت رسول
۔۔۔۔۔
گھٹائیں چھا جائیں رحمتوں کی فضا میں بارش ہو خوشبوؤں کی
جب اپنی نوک قلم پہ کامل شہِ مدینہ کا نام آئے
خاکسار احمد منیبؔ نے بھی ایک سے زائد نعتیں پیش کرنے کی سعادت پائی نمونۂ کلام ملاحظہ ہو:
ڈوبا ہی رہوں وصل خیالوں میں ہمہ تن
میں کرتا رہوں یارِ طرح دار کی باتیں
۔۔۔۔
مناجات کا ایک شعر ملاحظہ فرمایئے:
جس پہ تازہ گلاب کھلتے ہوں
ایسی شاخِ نہال دے یا رب
جس میں حصہ ہو سب غریبوں کا
ایسے مال منال دے یا رب
راجوری کشمیر بھارت سے محترمہ روبینہ میر نے کلام عطا فرمایا:
میری نظروں میں عیاں ہر چیز ہے
دور تک اک روشنی ہے آپ ﷺ سے
۔۔۔۔۔۔
دل میں خواہش ہے روبینہ کی بڑی شِدّت سے
پھر سے آئے یہ تیرے دربار رسولِ عربیﷺ
محترم شیخ نور الحسن حفیظیؔ ، سری نگر ۔ جموں کشمیر نے بہت ہی خوب صورت کیف آور کلام عطا فرمایا:
پاک ہے تیرا قبیلہ نُور ہے کُنبہ ترا
بات اس کی بن گئی جس نے پڑھا شَجرہ ترا
سائلِ خستہ حفیظیؔ بھی ہے اک بندہ ترا
دونوں عالم میں اسے بس چاہیے صدقہ ترا
محترم محمد زبیر صاحب نے گجرات پاکستان سے بہت پیاری نعت عطا فرمائی کہ:
حصارِ نور میں رہتا ہوں نعت کہتا ہوں
عجب سُرُور میں رہتا ہوں نعت کہتا ہوں
ضیائے عشق میں ڈوبی سطر سطر روشن
میں ان سطور میں رہتا ہوں نعت کہتا ہوں
محترم عامرؔحسنی ملائشیا نے ہدیۂ نعت پیش فرمایا:
آپ نور علیٰ نور شمس و قمر
صبح روشن بھی ہیں چاندنی آپﷺ ہیں
آج عامرؔ کا دل جس میں ڈوبا ہوا
اس کا مقصود بھی ہر خوشی آپﷺ ہیں
محترم ریاض انور بلڈانوی بھارت سے یوں گویا ہوئے:
بیش قیمت ہے جواہر سے بھی گفتارِرسول ﷺِ
سچ ہے قرآن كا آئینہ ہے كردارِ رسولﷺِ
نور ہیں،خير سراپا ہيں جہاں كے سرور
سب سے ممتاز بھی ہے دہر میں معیارِ رسولﷺِ
۔۔۔۔۔۔
فلك بیتاب تھا منظر بدلتا دیكھنے كو
جہاں سے كفركو، باطل كو مٹتا دیكھنے كو
محترم مصطفیٰ دلکش ممبئی مہاراشٹر الہند سے اپنا کلام لے کر پہنچے :
سیرتِ مصطفیٰ پر نظر پڑ گئی
ہو گئی زندگی زندگی کی طرح
میں نے دیکھا زمیں آسماں چار سو
کوئی دلکش نہیں ہے نبی کی طرح
محترم ملک سکندرچنیوٹ پاکستان نے اس طرح نبی امی ﷺ سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا:
اذاں سنی جس کی عرش پر، وہ
غلام میرے حضوؐر کا ہے
ادب سے چومیں جو لب سکندرؔ
وہ نام میرے حضوؐر کا ہے
محترم امین اوڈیرائی صاحب نے ہدیۂ نعت پیش کرتے ہوئے کہا:
موسمِ گل میں نہ وصلِ یار میں
جو مزا ہے مدحتِ سرکار میں
نعت کہنے کی سعادت جو ملی
تازگی سی آ گئی اشعار میں
خاکسار نے محترم صدر محفل کا کلام ترنم سے پیش کرنے کی سعادت پائی وہ کلام کچھ یوں ہے:
چاند، سورج، آسماں، تارے، زمیں کچھ بھی نہ تھا
نورِ احمدﷺ تھا فقط ذاتِ خدا کے سامنے
شام تک احباب اپنی طرف سے ہدیۂ نعت پیش فرماتے رہے اور شام کو محترم صدر محفل کی خدمت میں خاکسار نے درخواست کی کہ خطبۂ صدارت عنایت فرما کر پروگرام کے اختتام کا اعلان فرما دیں۔ خاکسار کی درخواست پر محترم صدر محفل نے خطبۂ صدارت عطا فرمایا اور پروگرام کے اکتتام کا اعلان فرمایا:
خطبۂ صدارت:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا..
میں سب سے پہلے برادرم احمد منیبؔ اور ان کی ٹیم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے اُردو کی بقا کی تحریک میں اپنا کردار ادا کرنے کے لئے ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کرایا ہے جس پر بغیر کسی بھید بھاؤ کے ہر وہ شخص اپنی کاوش پیش کر سکتا ہے جس کو اُردو کے تئیں ہمدردی ہے… ابھی اس گروپ کو معرض وجود میں آئے ہوئے صرف تین ہی روز ہوئے ہیں لیکن ان محض دو تین ایام میں دو عمدہ اور قابلِ رشک پروگرام کامیابی کے ساتھ منعقد کروا لینا اس گروپ کے ذمہ داران کی فعالیت کا منہ بولتا ثبوت ہے…
گزشتہ روز ایک عمدہ حمدیہ مشاعرہ اور آج یہ نعتیہ مشاعرہ اس آب و تاب کے ساتھ رواں دواں رہا اور ایک سے بڑھ کر ایک عمدہ نعتیہ کلام پڑھنے کو میسر آئے… یہ صرف اردو ادب کی بے لوث خدمت ہی نہیں بلکہ ایک ایسی عظیم عبادت ہے کہ جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں حکم دیا ہے اور کہا کہ نبی مکرم صل اللہ علیہ و آلہ و سلم پر اللہ اور اس کے مقرب فرشتے درود و سلام بھیجتے ہیں اور ایمان والوں سے تقاضا کیا ہے کہ وہ بھی اس کے پیارے محبوب پر درود بھیجیں… اور نعت کہنا در اصل درود بر حبیبِ خدا بھیجنے کے مترادف ہی ہے اور عین عبادت ہے… میں دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیارے حبیب صلعم اور ان کی آل اطہار علیھم السلام کے تصدق میں ہماری اس قلیل سی عبادت کو شرف قبولیت بخشے آمین ثم آمین..
میں آخیر میں تمام شریکِ مشاعرہ شعراء کرام کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اور انتظامیہ کا متشکر و ممنون بھی ہوں کہ انہوں نے مجھ جیسے کم علم کو اس سعید اور پاک محفل کی صدارت سونپی.. اس امید کے ساتھ کہ آپ اس طرح کی محافل ہمیشہ سجاتے رہیں گے اجازت چاہتا ہوں…
ذوالفقارنقوی، جموں کشمیر بھارت
۱۵جولائی۲۰۱۹ء