آخر استاد اتنے یقین کے ساتھ کیسے پیش گوئی کر دیتا ہے کہ اُس کا فلاں شاگرد بُری طرح فیل ہوگا اور فلاں طالب علم امتیازی پوزیشن کے ساتھ کامیاب ہوگا ! باپ ان پڑھ بھی ہو تو اُسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا کون سا بیٹا کس پیشے کیلئے موزوں ہے اور کس کو کون سا شعبہ اختیار نہیں کرنا چاہئے۔ آخر کیوں ؟
اس لئے کہ شاگرد یا بیٹے کا ماضی سامنے ہوتا ہے۔ اُس کی عادات‘ خصائل‘ ذہانت‘ مستقل مزاجی‘ … سب کچھ معلوم ہوتا ہے۔ ذہن میں اُس کی شخصیت کے سارے اجزا موجود ہوتے ہیں۔ ان اجزا کی مدد سے اُس کا آئندہ کا رویہ اور مستقبل کی کارکردگی کے بارے میں ٹھوس پیشگوئی کر دی جاتی ہے !
امریکیوں نے اس عمل کو باقاعدہ سائنس بنا دیا ہے اور اس کا نام پروفائلنگ (Profiling) رکھا ہے یعنی کسی شخص کے طرز عمل کا مطالعہ کرنا اس کے نفسیاتی رجحانات کا تجزیہ کرنا اور پھر اس کی بنیاد پر پیشگوئی کرنا کہ مستقبل میں اس کا رویہ کیا ہوگا یا کسی خاص حوالے سے یہ کیا کچھ کر سکے گا۔ یوں تو اس ضمن میں طویل عرصہ سے تحقیقی اور تجرباتی کام ہو رہا تھا لیکن جان ڈگلس (John Douglas) وہ شخص ہے جس نے اس میدان میں انقلاب برپا کیا۔ اُس نے 1970ء میں ایف بی آئی میں ملازمت شروع کی۔ اُس نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے پورے امریکہ میں سیریل قاتلوں کے انٹرویو کئے اور جیلوں میں جا کر عادی مجرموں کے حالات زندگی مرتب کئے۔
ایک وقت ایسا آیا کہ قتل کی وارداتوں میں جب پولیس تھک ہار کر بیٹھ جاتی اور قاتل کا سراغ نہ ملتا تو جان ڈگلس کو بلایا جاتا‘ وہ موقعۂ واردات کا غور سے جائزہ لیتا اور مجرم کا پروفائل بنانا۔ یعنی اُس کی شخصیت کی تصویر کھینچتا۔ وہ یہاں تک بتاتا کہ مجرم حبشی ہے یا سفید فام‘ عمر کے کس حصے میں ہے‘ شادی شدہ ہے یا مجرد‘ فوج سے بھاگا ہوا ہے یا کچھ اور کرتا ہے‘ بسا اوقات وہ یہ بھی بتاتا کہ اس کے پاس کس قسم کی گاڑی ہوگی اور وہ اخبار کون سا پڑھتا ہوگا۔ وہ اس کا آئندہ کا لائحہ عمل بھی بتاتا۔ پولیس اس پروفائل کی مدد سے مجرم تلاش کرتی اور تلاش کرنے میں کامیاب ہو جاتی۔ اُس نے کئی مشہور مجرم پروفائلنگ کی مدد سے پکڑے اور پکڑوائے۔
پروفائل بنانے کیلئے مختلف مراحل طے کرنے ہوتے ہیں۔ پہلے مرحلے میں جائے واردات سے جو کچھ میسر آتا ہے اس کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ مقتول کی شخصیت اور مشاغل دیکھے جاتے ہیں اور گواہوں کو سنا جاتا ہے۔ دوسرے مرحلے میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ مجرم ’’منظم‘‘ تھا یا ’’غیر منظم‘‘۔ منظم مجرم‘ جرم کی باقاعدہ منصوبہ بندی کرتا ہے۔ مقتول سے تعلقات یا واقفیت قائم کرتا ہے اور جائے وقوعہ پر کم ہی نشان چھوڑتا ہے۔ غیر منظم مجرم اچانک مشتعل ہو کر کارروائی کرتا ہے۔ اگلے مرحلے میں جرم واقع ہونے کی تفصیل طے کی جاتی ہے۔ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ مجرم نے اپنی تسکین کس طرح کی اور ’’فتح‘‘ کی خوشی کیسے منائی۔ ان سارے مراحل کے بعد یہ سوچا جاتا ہے کہ مجرم … جو چھپا ہوا ہے لیکن حالات سے باخبر ہے … اب کیا کر رہا ہے۔ اخبار پڑھ کر اور ٹی وی دیکھ کر اُس کا ردعمل کیا ہو سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے وہ پولیس کو دھوکہ دے رہا ہو اور رابطہ کر کے تفتیش کرنے والوں کو غلط سمت لے جانے کی کوشش کر رہا ہو۔ جان ڈگلس کی پروفائل تکنیک ساری دنیا میں مشہور ہوئی۔ ریٹائر ہونے کے بعد ترقی یافتہ ملکوں نے اسے بلا کر اپنی افرادی قوت کو تربیت دلوائی۔ اس نے بے شمار لیکچر دئیے اور کئی کتابیں لکھیں۔
مجرموں اور قاتلوں کو پکڑنے کے لئے جان ڈگلس کا وضع کردہ ’’نظریہ پروفائل‘‘ (یا پروفائلنگ) عام زندگی میں ایک تعلیم یافتہ فرد کے بہت سے مسائل حل کر سکتا ہے۔ ہم ایک ہی شخص سے بار بار دھوکے کھاتے ہیں یا زخم سہتے ہیں اور سہتے چلے جاتے ہیں لیکن ہم یہ نہیں سوچتے کہ اس شخص کے ماضی کو سامنے رکھ کر اس کا پروفائل بنایا جائے اس کی شخصیت کی تصویر کھینچی جائے اور پھر اندازہ لگایا جائے کہ اس کا آئندہ کا رویہ کیا ہوگا۔ پروفائل کی مدد سے ہم طے کر سکتے ہیں کہ ہمارا اپنا طرزِ عمل اس شخص کیساتھ کیسا ہو۔ ہم اس سے کس حد تک امیدیں باندھیں اور کس حد تک مایوس ہو جائیں۔ پروفائل کی مدد سے ہم ٹھیک ٹھیک تعین کر سکتے ہیں کہ فلاں کی شخصیت میں فیصلہ کن کردار حسد کا ہے یا نیکی کا ہے۔ بے غرضی کا ہے یا تجارتی رویے کا ہے۔ حسد نے یا نیکی نے یا بے غرضی نے یا تجارتی رویے نے ماضی میں اس سے کیا کچھ سرزد کرایا ہے؟ ظاہر ہے کہ کل طلوع ہونے والی صبح اس شخص کو یکسر تبدیل نہیں کر سکتی۔ شخصیت کے یہ اجزا‘ شخصیت سے باہر نہیں نکالے جا سکتے۔ ہم اپنے دوستوں عزیزوں ماتحتوں‘ ساتھ کام کرنیوالوں‘ دشمنوں حریفوں سب کیساتھ پروفائلنگ کی مدد سے ایسا برتائو اختیار کر سکتے ہیں کہ ہمیں صدمے نہ اٹھانا پڑیں۔ دھوکے نہ کھاتے رہیں‘ شرمندہ نہ ہوتے رہیں اور کف افسوس نہ ملتے رہیں۔ ہم فیصلہ کر سکتے ہیں کہ تعلقات کی نوعیت کیا ہو اور کس کے کتنا قریب اور کس سے کتنا دور رہیں۔
آخر ہم سیاست دانوں سے بار بار کیوں دھوکے کھاتے ہیں؟ کیا اُن کا ماضی ہمارے سامنے نہیں ہوتا؟ ہم انہیں بیس بیس سال سے جانتے ہیں پھر بھی ہم اُن کے بیانات پر یقین کر لیتے ہیں ! اُن کے پروفائل اخبارات سے لے کر ہماری یادداشت تک ‘ ہر جگہ بنے ہوئے ہیں اور ہمارے سامنے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان نے اب تک کیا کیا‘ قاضی حسین احمد کا طرزِ عمل کیا تھا؟ چودھری پرویزالٰہی کا رویہ کیسا تھا؟
ہم ان سب کے پروفائل بنا سکتے ہیں۔ ہم تھوڑی سی محنت کریں تو جان سکتے ہیں کہ اعجازالحق اور گوہر ایوب کی مستقبل کی تصویر کیا ہے‘ ظفراللہ جمالی کیا کریں گے۔ جان ڈگلس‘ میر تقی میرؔ کے زمانے میں موجود ہوتا تو میرؔ یقینا اُس کی پروفائل تھیوری سے فائدہ اٹھاتے اور اُسی عطار کے ’’لونڈے‘‘ سے دوسری بار دوا نہ لیتے جس نے انہیں بیمار کیا تھا!
http://columns.izharulhaq.net/2008_12_01_archive.html
“