آج – ٨؍جولائی؍ ١٩٩٤
ماہرِ تعلیم، نقاد، اردو اور فارسی کے ممتاز شاعر” پروفیسر منظور حسین شورؔ صاحب “ کا یومِ وفات…
منظور حسین نام اور شورؔ تخلص تھا۔ ۱۵؍ دسمبر ۱۹۱۶ء کو امراوتی (ایم۔پی) بھارت میں پید اہوئے۔ میٹرک سے لے کر ایم اے اور ایل ایل بی ساری تعلیمی اسناد مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے حاصل کیں۔۱۹۳۸ء میں ناگپور کے شعبہ ادبیات فارسی او راردو میں بطور ریڈر صدر شعبہ تقرر ہوا۔ تقسیم ہند کے بعد وہ پاکستان آگئے اور پروفیسر کی حیثیت سے پہلے زمیندار کالج، گجرات پھر اسلامیہ کالج اور گورنمنٹ کالج، لائل پور(فیصل آباد) سے منسلک رہے۔ ریٹائر منٹ کے بعد شور صاحب کراچی آگئے اور جامعہ کراچی میں درس وتدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔ شور صاحب بنیادی طور پر نظم گو تھے، لیکن غزل بھی کہا کرتے تھے ، ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’نبض دوراں‘‘ کے نام سے ۱۹۵۹ء میں شائع ہوا۔ اس کے بعد کے مجموعے بالترتیب اس طرح شائع ہوئے:
’دیوار ابد‘، ’سواد نیم تناں‘، ’میرے معبود‘ ، ’صلیب انقلاب‘ ، ’ذہن وضمیر‘۔ اس کے علاوہ چار اور کتابیں ’حشر مرتب‘ ، ’انگشت نیل‘ ، ’افکار واعصار‘ ،’اندر کا آدمی‘ مرتب کرلی تھیں۔ ۸؍ جولائی ۱۹۹۴ء کو کراچی میں انتقال کرگئے۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:78
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
معروف شاعر منظور حسین شورؔ کے یومِ وفات پر منتخب کلام بطورِ خراجِ عقیدت…
مجھے اے ہم نفس اندیشۂ برق و خزاں کیوں ہو
مری پرواز محدود فضائے گلستاں کیوں ہو
جنوں کی وسعتوں پر تنگ ہے عرصہ دو عالم کا
جو سجدہ ہو تو پھر سجدہ بقید آستاں کیوں ہو
مرے کام آ گئی آخر مری کاشانہ بر دوشی
شرار و برق کی زد پر بھی میرا آشیاں کیوں ہو
غم دل بھی جو رسوائے مذاق عام ہو جائے
تو پھر ان داستانوں میں ہماری داستاں کیوں ہو
پیالوں کی کھنک سے بھی جہاں دل ٹوٹ جاتے ہیں
وہاں چھایا ہوا ہر بزم پر خواب گراں کیوں ہو
نہ میں جاندادۂ ساقی نہ میں وارفتۂ مطرب
اگر محفل سے اٹھ جاؤں تو محفل بد گماں کیوں ہو
میں جس عالم میں ہوں اپنی جگہ اے شورؔ تنہا ہوں
جدا ہو جس کی منزل وہ رہینِ کارواں کیوں ہو
***
صحبتِ میکشی سرسری رہ گئی
اور جو مینا بھری تھی بھری رہ گئی
کیا غضب ہے نشیمن سلگتا رہا
اور شاخ نشیمن ہری رہ گئی
آخرش کام آ ہی گئی خامشی
لفظ و معنی کی پردہ دری رہ گئی
ہر نظر بن گئی اپنے سینے کا تیر
اک خلش بن کے دیدہ دری رہ گئی
نسلِ آدم سے اتنے اٹھے کردگار
اپنے لب سی کے پیغمبری رہ گئی
آدمی کا خدا بن گیا آدمی
داورِ حشر کی داوری رہ گئی
میرا ہر نقشِ پا بن گیا سنگِ میل
خضر کی زحمت رہبری رہ گئی
شورؔ دامان غم ہو گیا تار تار
ہر مسرت کی بخیہ گری رہ گئی
***
مرے دل کی دھڑک اس کے تبسم پر گراں کیوں ہو
میں افسانہ ہوں اس کا وہ مرا افسانہ خواں کیوں ہو
مرے کام آ گئی آخر مری کاشانہ بر دوشی
لپکتی بجلیوں کی زد پہ میرا آشیاں کیوں ہو
کناروں سے گزر جانا ہی طوفانوں کی فطرت ہے
جہاں دنیا ٹھہر جائے قدم میرا وہاں کیوں ہو
ترا جلوہ بھی جب تیرا ہی پردہ ہوتا جاتا ہے
تو پھر میری نگاہوں پر نگاہوں کا گماں کیوں ہو
نہ میں وارفتۂ مطرب نہ میں جاندادۂ ساقی
اگر محفل سے اٹھ جاؤں تو محفل بد گماں کیوں ہو
میں جس عالم میں ہوں اپنی جگہ اے شورؔ تنہا ہوں
جدا ہو جس کی منزل وہ رہین کارواں کیوں ہو
منظور حسین شورؔ
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ