کون یہ جانے کون سے دیس میں جابستے ہیں
ڈوبنے والے یا اس پار اترنے والے
(محمد خالد )
اردو ادب کے معروف استاد ؛ شاعر 'نقاد اور دانش ور پروفیسر محمد خالد آج اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔محمد خالد (اب مرحوم )1950 کو چونڈہ (جہاں 1965 میں دنیا کی سب سے بڑی ٹینکوں کی جنگ ہوئی ) ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ۔1971 میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم۔اے اردو کا امتحان پاس کیا۔1975 میں بطور لیکچرار اردو گورنمنٹ اسلامیہ کالج آف کامرس ،لاہور سے ملازمت کا آغاز کیا۔1976 میں گورنمنٹ ایم۔اے۔او کالج لاہور آگئے ۔ ڈا کٹر سجاد باقر رضوی کی زیر نگرانی علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے1993 میں "اردو غزل کے رجحانات،قیام پاکستان کے بعد"کے عنوان سے ایم۔فل اردو کا مقالہ لکھا ۔1988 میں گورنمنٹ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ،لاہور میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر تعینات ہوئے ۔2010 میں بطور پرنسپل کالج ہذا ہی سے اپنی مدت ملازمت پوری کرکے ریٹائر ہوگئے۔
پروفیسر محمد خالد ایک بہت اچھے استاد 'بہترین شاعر اور اعلی تنقیدی ذہن کی حامل شخصیت تھے ۔"ادبی مخزن"کے نام سے ایک کتاب مرتب کی۔اپنے بہت ہی قریبی دوست ،دور حاضر کے ایک معتبر اور منفرد طرز احساس کے حامل،جدید شعری نظام،موضوعات کی انفرادیت اور ندرت خیال کے لحاظ سے بھی بے حد اہم اور لائق توجہ شاعر محترم غلام حسین ساجد صاحب(حال مقیم لاہور) کے تعاون سے 1986 میں پاکستانی غزل کا ایک اعلی اور تنقیدی انتخاب شائع کیا۔اس انتخاب کا نام "نئی پاکستانی غزل ۔نئے دستخط "ہے۔بہت عمدہ اور لاجواب انتخاب ہے۔یہ انتخاب شاہد ماہلی(انڈیا) کی فرمائش پر1981میں کیا گیا تھا۔جسے انہوں نے رسالہ "معیار"نئی دہلی ،1983 (نیا پاکستانی ادب نمبر) میں شامل کیا۔یہی انتخاب بعد ازاں 1986 میں کتابی صورت میں پاکستان سے بھی شائع ہوا۔ اس پاکستانی ایڈیشن میں بارہ شعراء بشمول محمد خالد کی پانچ پانچ غزلیں اور ہر شاعر پر ایک ایک صفحے کا جاندار تنقیدی تعارفیہ ہے۔انتخاب میں اتفاقا" میرے پسندیدہ شعراء شامل ہیں ۔جن میں شبیر شاہد ،ثروت حسین،غلام محمد قاصر،افضال احمد سید،جمال احسانی،شاہدہ حسن،سلیم کوثر،صابر ظفر،محمد اظہار الحق،ایوب خاور ،محمد خالد اور غلام حسین ساجد شامل ہیں ۔کتاب کاتعاف بھی محمد خالد ہی نے "اردو غزل ۔نئے امکانات "کے نام سے قلم بند کیا۔1970 کی دہائی کی غزل کےموضوعات،لفظیات،لہجےاور آہنگ کا ایک منفرد اور نپے تلے الفاظ میں تجزیہ محمد خالد کی اعلی تنقیدی بصیرت کا پتا دیتا ہے ۔
محمد خالد ایک باشعور نقاد کے ساتھ ساتھ تازہ لہجے کے شاعر بھی تھے۔انہوں نے اپنے شعری مجموعہ کا نام "روایت،خواب سے خاک تک"رکھا تھا لیکن تادم تحریر یہ مجموعہ ہنوز زیور طبع سے محروم ہے ۔پروفیسر محمد خالد بھی بالآخر عالمی وبا کرونا وائرس کا شکار ہو کر زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔مورخہ 14جون 2020 بروز اتوار دنیائے فانی سے عالم بقا کا سفر اختیار کیا ۔رہے نام اللہ کا۔
محمد خالد کی ایک غزل
جن میں ہم ہیں پل پل جینے مرنے والے
یہ مہ و سال ہیں آخرکار گزرنے والے
کون یہ جانے کون سے دیس میں جابستے ہیں
ڈوبنے والے یا اس پار اترنے والے
ہم پہ اے شاخ ہجر ہمیشہ سایہ فگن رہ
ہم ہیں ترے پھولوں سے دامن بھرنے والے
خاک تو ہوں گے لیکن کوئی نہ جانے کیا ہوں
رزق زمیں ہوں یا سر عرش بکھرنے والے
خالی کاسہ لےکے گزر جائیں گے لیکن
کر جائیں گے کار محبت کرنے والے