پروفیسر حسن عسکری- خوش قسمت پنجاب
پاکستان میں نگران حکومت کا قیام پنجاب میں تقریباً ایک ہفتہ تعطل کا شکاررہا۔ اس کی وجہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نگران وزیراعلیٰ کے نام پر اتفاق نہ ہونا تھی۔ ناصر کھوسہ کی طرف سے نگران وزارتِ اعلیٰ کا قلم دان مسترد کرنے کے بعد اس تعطل نے افواہوں کے بازار کو ایک مرتبہ پھر گرم کردیا۔ وہ لوگ جو کسی غیبی علم کی بنیاد پر طویل مدتی غیرمنتخب حکومت قائم ہونے کی پیش گوئیاں کررہے تھے، اس تعطل کے بعد ان نام نہاد تجزیہ نگاروں نے ایک مرتبہ پھر کہنا شروع کردیا کہ دیکھا ہم نہ کہتے تھے ، الیکشن نہیں ہوں گے۔ یہ لوگ علم موجود سے زیادہ علم غیب کے دعوے دار ہیں، درحقیقت یہ کسی بھی علم سے آشنا نہیں۔ ٹیلی ویژن کے اینکرز سے لے کر اخباروں میں لکھنے والوں کالم نگاروں تک ایک بڑی تعداد ہے ان لوگوں کی۔ وہ درحقیقت سیاست کے رموز، ریاست کے نظام، سماج، ریاست اور سیاست کے اندر موجزن جدلیاتی عمل اور حقائق سے مکمل طور پر ناآشنا ہیں۔ داتا دربار لاہور کے باہر بیٹھے طوطا فال نکالنے والوں یا کالا جادو کرنے والوں جیسا حال ہے ان کا۔ راقم نے ایک ہفتہ قبل اس تعطل کے دوران بھی سوشل میڈیا پر اپنے ویڈیو کلپ میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ الیکشن ہوں گے، وزیراعلیٰ بھی نامزد ہوگا بلکہ وزیراعلیٰ کی نامزدگی پر برسوں سے پنجاب کے حکمران شدید تکلیف کا شکار ہوں گے۔جب دونوں جماعتیں نگران وزیراعلیٰ کا معاملہ طے نہ کرپائیں تو الیکشن کمیشن نے پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کی ذمہ داری پروفیسر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کے کندھوں پر ڈال دی۔
پروفیسر ڈاکٹر حسن عسکری، پنجاب کے پہلے اعلیٰ ترین تعلیم یافتہ وزیراعلیٰ ہیں۔ انہوں نے پاکستان اور بیرون ملک سے پولیٹکل سائنس میں اعلیٰ تعلیم حاصل کررکھی ہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ سیاسیات میں تعلیم کے دوران وہ میرے استاد تھے۔ جب میں نے پولیٹکل سائنس میں داخلہ لیا تو جنرل ضیا الحق کے آمرانہ دور میں اسلامی جمعیت طلبا کا پنجاب یونیورسٹی میں آمرانہ راج تھا۔ یونیورسٹی جانے تک میں سیاسی، صحافتی اور علمی حلقوں میں نام اور شناخت بنا چکا تھا۔ لہٰذا خدشہ تھا کہ اسلامی جمعیت طلبا میرے یونیورسٹی میں داخلے میں رکاوٹ ڈالے گی، اس لیے میں نے داخلے کے لیے دو ڈیپارٹمنٹس میں درخواست دی، جرنلزم اور پولیٹکل سائنس۔ پروفیسر وارث میر اپنے جرأت مندانہ کالموں کی بنیاد پر ہم جیسے جدوجہد کرنے والے راہی کے دل میں بھی گھر کرچکے تھے اور میں اُن کے حلقہ احباب میں بھی شامل ہوچکا تھا۔ انہی کے مشورے سے میں نے دو ڈیپارٹمنٹس میں داخلے کے فارم جمع کروائے اور پھر تاثر دیا کہ میں جرنلزم میں داخلہ لینا چاہ رہا ہوں۔ اور ہم یوں اسلامی جمعیت طلبا کی توجہ بٹانے میں کامیاب ہوگئے اور داخلہ پولیٹکل سائنس میں لے لیا۔ مجھے ابھی تک یاد ہے کہ پروفیسر وارث میر نے اس موقع پر کہا کہ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ جات میں یہ ایسا شعبہ ہے جہاں پر تمام کے تمام استاد اپنے مضمون پر دسترس رکھتے ہیں جن میں سرفہرست حامد حسن قزلباش، حسن عسکری، سجاد نصیر اور رشید احمد خان تھے۔ میرا Passion تھا کہ میں پولیٹکل سائنس کو بحیثیت مضمون پڑھوں۔ اور میری خوش قسمتی کہ مجھے سجادنصیر، حامد حسن قزلباش جیسے نہایت قابل استاد ملے۔ اُن کا علم کا معیار مغربی دنیا کے استادوں کے برابر تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ میں یونیورسٹی ’’سٹوڈنٹ‘‘ بننے کے لیے نہیںبلکہ طالب علم بننے کے لیے گیا، یہی وجہ ہے کہ یونیورسٹی میں دورانِ طالب علمی میرے اساتذہ میرے دوست بن گئے۔ بریک کے دوران بھرپور محفل جمتی جس میں پروفیسر وارث میر مرحوم خصوصی طور پر چل کر پولیٹکل سائنس ڈیپارٹمنٹ آتے اور میں کلاس روم میں جن سے تعلیم حاصل کرتا، ان استادوں کے دفتر میں بیٹھ کر ملکی اور عالمی سیاسیات پر گفتگو، بحث اور اختلاف کرتا جن میں حسن عسکری رضوی سرفہرست ہوتے۔
پروفیسر حسن عسکری رضوی کا خصوصی موضوع ’’فوج اور سیاست‘‘ ہے۔ اس حوالے سے ان کو ملک اور بیرون ملک سند مانا جاتا ہے۔ اُن کی اپروچ نہایت سائنٹفک اور بڑی Concised ہوتی ہے۔ وہ درس وتدریس کے سلسلے میں دنیا کی بڑی یونیورسٹیوں میں شامل کولمبیا یونیورسٹی تک گئے۔ جب وہ کولمبیا یونیورسٹی میں پڑھا رہے تھے، اُن دنوں ایک ہفتہ مجھے اُن کا مہمان بننے کا بھی موقع ملا۔ پروفیسر حسن عسکری رضوی، پاکستان کے سیاسی، ریاستی اور سماجی ڈھانچے پر اتھارٹی ہیں۔ اُن کا تعلق نہایت Urban Middle Classسے ہے۔ اپنے علمی تجربات کی بنیاد پر وہ جدید فکر رکھنے والے محقق ہیں۔ ایک محقق کی پہلی اور آخری خوبی یہی ہوتی ہے کہ وہ معاملات، موضوعات اور چیزوں کو غیرجانب دار ہوکر دیکھتا ہے۔ اس حوالے سے ایسے محقق درحقیقت Ruthlessly غیر جانب دار اور غیر متعصب ہوتے ہیں۔ مثلاً اگر ایک شخص اورنگزیب عالمگیر پر کتاب لکھ کر اس میں ساری کی ساری خوبیاں ثابت کردے تو وہ محقق نہیں کہلا سکتا۔ افسوس ہمارے ہاں لکھنے والوں کی غالب اکثریت ایسے ہی لوگوں کی ہے، تاریخ لکھنے والے، سیاسیات پر لکھنے والے، کالم لکھنے والے اور ٹیلی ویژن سکرینوں پر اونچی آواز میں بے ہودہ تجزیہ کرنے والے ۔ اس لیے کہ وہ محقق نہیں، بلکہ کسی نہ کسی طرح سیاسی جماعت یا شخص کے ترجمان ہیں۔ جبکہ ڈاکٹر حسن عسکری رضوی ایک مکمل محقق ہیں، وہ موضوعات پر لکھتے یا بولتے ہوئے کسی کے عشق یا نفرت کا شکا رنہیں ہوتے۔ اس کی وجہ اُن کا سائنٹفک ریسرچر ہونا ہے۔
یونیورسٹی کے بعد تین دہائیوں سے ہم علمی اور فکری دنیا میں کئی جگہ اکٹھے رہے ہیں۔ متعدد بار ٹیلی ویژن کے پروگرام میں اکٹھے بیٹھے اور بھرپور انداز میں ایک دوسرے سے اختلاف کیا۔ اُن کو یہ بھی معلوم ہے کہ کہاں کیا بات کرنی ہے۔ وہ عالمی نشریاتی ادارے سی این این کے تبصرہ نگار بھی رہے ہیں۔ جب میں پولیٹکل سائنس ڈیپارٹمنٹ سے فارغ ہورہا تھا تو انہوں نے مجھے تین نصیحتیں کیں، جو مجھے ابھی تک یاد ہیں اور میں ان پر ممکن حد تک عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتا ہوں۔ انہوں نے مجھے کلاس روم میں کہا، ’’گوئندی اپنا ایک موضوع (Specialization) ضرور بنانا۔ تم خوب لکھتے ہو۔ میرا جواب تھا، میں پہلے ہی کوشاں ہوں، ترکی میرا Specialized موضوع ہوگا۔ دوسری بات انہوں نے کہی کہ پورا امکان ہے کہ تمہیں عالمی فورمز پر بولنے کا موقع ملے گا، جب بھی بولو، موضوع پر اور مختصربولو۔ ہمارے ہاں کی طرح نہیں کہ فلاں فلاں کا شکریہ وغیرہ۔ تیسری نصیحت کی کہ کبھی بھی بھارت جاکر کسی سٹیج پر پاکستان کے خلاف بول کر شہرت لینے کی کوشش نہ کرنا۔ میں یونیورسٹی میں داخلے سے پہلے چار پانچ مرتبہ بھارت جا چکا تھا اور اب تک شاید پندرہ بیس مرتبہ اور میرے کانوں میں اُن کی نصیحت سنہری زیور کی طرح جڑی رہی۔ میں نے بھارت میں مختلف سفروں کے دوران کانفرنسوں میں اپنے مندوبین ساتھیوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے پاکستان پر تنقید کرتے اکثر دیکھا۔ لیکن میں نے اپنے استاد کی نصیحت پر عمل کرنا اپنا فرض جانا۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ 2003ء میں امریکی کانگرس کہ جہاں دنیا کے بڑے بڑے دانشور اور لیڈر خطاب کرنے کا خواب دیکھتے ہیں، راقم کو ایک ایسے ہی مذاکرے کی دعوت ملی۔ جس کا موضوع تھا، Causes of Fundamentalism in Pakistan and Afghanistan۔
وہاں امریکی صدر کے مشیر اور لاتعداد کانگرس اراکین موجود تھے۔ میرے خطاب کے بعد ہال تو تالیوں سے گونجا ہی مگر ہال سے باہر متعدد مقامی ٹی وی میرا کمنٹ لینا چاہتے تھے۔ ایک خاتون صحافی نے سوال کرتے ہوئے کہا، ’’مشرف ایک لبرل حکمران ہے۔ آپ اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟‘‘ میرا جواب تھا، ’’ہاں وہ ایک لبرل ڈکٹیٹر ہے۔‘‘ میرے اس اور دیگر جوابات کے بعد اس نے کہا، ’’آپ یقینا کسی اعلیٰ یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ ہیں۔‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، ہاں پولیٹکل سائنس ڈیپارٹمنٹ پنجاب یونیورسٹی سے۔
حسن عسکری صاحب اور میں، خورشید قصوری صاحب کے قائم کردہ ایک تھنک ٹینک کے پانچ برسوں سے رکن ہیں جس کی میٹنگ ہر ماہ ہوتی ہے۔ اس میں مہناز رفیع، فاروق حمید، افتخار احمد، مجیب الرحمن شامی، سلمان عابد، ارشاد عارف اور دیگر احباب شامل ہیں۔ ہم کھل کر ملکی سیاست، ریاستی اداروں اور دیگر معاملات پر بحث کرتے ہیں، جہاں حسن عسکری صاحب کا نقطہ نظر ہمیشہ کی طرح سائنٹفک اور غیر جانب دار ہوتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چند ایک صحافی جن کو غیر جانب دار ہونا چاہیے، وہ ہر بحث میں کسی ایک سیاسی جماعت کا موقف یا موقف کی حمایت میں تجزیہ کرتے ہیں جبکہ حسن عسکری مکمل غیر جانب داری کے ساتھ تجزیہ کرتے ہیں۔ اپنے تیس سالہ مشاہدات اور تجربات کی بنیاد پر میں یہ دعویٰ کرسکتا ہوں کہ پروفیسر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی بحیثیت وزیر اعلیٰ اس لیے کامیاب ترین نگران وزیراعلیٰ ہوں گے کہ وہ سیاست اور ریاست کے ڈھانچے کو جس گہرائی سے جانتے ہیں، اس قدر 1985ء کے غیرسیاسی انتخابات کے بطن سے جنم لینے والی قیادت نہیں جان سکی۔ وہ اپنے اس علم، مطالعے اور ادراک کی بنیاد پر معاملات کو ڈیل کرنے کی صلاحیت رکھنے والے اور غیر جانب دار نگران وزیراعلیٰ ثابت ہوں گے۔ ذاتی زندگی میں اُن کے معاملات بالکل درویشانہ ہیں۔ اس لیے اقربا پروری اور چمک سے متاثر ہونا تو ممکن ہی نہیں۔ پنجاب کے سابق حکمران ایسے شفاف وزیراعلیٰ کے اس لیے مخالف ہیں کہ اُن کے ادھورے خواب چکنا چور ہوتے نظر آرہے ہیں جو انہوں نے آئندہ انتخابات کے لیے دیکھ رکھے تھے۔ احسن اقبال جیسے نیم دانشور جو خود اور اُن کی والدہ آپا نثار فاطمہ جو آمریت کی سفارش پر سیاست میں میدان میں وارد ہوئیں، ایسے لوگوں کی طرف سے مخالفت درحقیقت جہالت کا مقدمہ لڑنا ہے اور شاہ سے بڑھ کر شاہ کی وفاداری دکھانا ہے۔ حنیف رامے کے بعد پنجاب ایک حقیقی تعلیم یافتہ وزیراعلیٰ سے آشنا ہوا۔ پنجاب تجھے مبارک۔
“