پروفیسر حامدی کاشمیری کے شعری تجربات
نادیدہ ساحلوں کے چراغوں کو گل کرو
ہم کالے پانیوں میں گرفتار ہو گئے
حامدی کاشمیری
حامدی کشمیری برگزیدہ ناقد اورادبی نظریہ ساز بھی ہیں فکشن کے علاوہ انکے شعری تحرباب سات مجموعوں پر مشتمل ہیں … ایسے لوگ اپنے ذہنی ارتقا کے زمانہ سے پہلے پیدا علمی افق پر نمودار ہوحاتے لہزا انکے معاصر انہیں سمجھ نہیں سکتے. حامدی کی فکری بالیدگی سے پتہ چلتا ہے وہ اکیسویں صدی کے انسان ہیں اور مدبرات اجل کی فروگزاشت یا بھول چوک سے بیسوی صدی میں پیدا ہوگئے…
ھزا شئ عجیب ..
یہی وجہہ ہے کہ انکے نظریات اس کے دور کے لوگوں کی ذہنی سطح سے کچھ مافوق ہیں..
حامدی اس صدی میں انکی توجہہ کا مرکز نہ بن سکے تو کیا ہوا. ؟
میر جیسا فخر روزگار…
غالب جیسا نابغہ…
اورجان کیٹیس جیسا جینیس شاعر
اپنے اپنے دور میں یہ سبھی غریبِ شہر بن کر رہے
عوام و خوص کے ناشناسانہ رویہ حامدی کے ساتھ نیا نہیں بہر حال اس معاملہ وہ شاکی ہی رہے اور انکی شکایت حق بجانب ہے.
شاعری ہو یا تنقید انہوں نے نئے تجربے کئے نیا تنقیدی نظریہ دیا .. جسکی سرحدیں انکشاف و الہام سے جوڑ دیں.
میں کہتا ہوں کہ
اگر شعر الہامات کا سلسلہ ہے تو اسکی ترسیل اور قرائت بھی انسانی دماغوں کو
عہد بہ عہد نئے نئے الہامات سےہمکنار کرتی رہے گی…
شاعری کیا ہے..اور اسے کیسا سمجھا سکتا ہے اسکی تعینِ قدر کون کرسکتا ہے؟ چلو ان سوالوں کا جواب ہم حامدی سے لیتے ہیں.. حامدی نے تنقید پر ۲۲کتابیں لکھی ہیں وہ افسانہ نگار بھی اور شاعر بھی …پانچ اردو شعری مجموعے ہیں. کشمیری میں بھی شاعری کی ہے..تنقید کے حوالے سے اکتشافی تنقید کی شعریات آخری کتاب ہے اوریہ انکے نظریات کو سمجھنے کے لئے مکمل رہنما ہے..کارگہہ شیشہ گری.. میر کے مطالعہ پر زبردست تنقیدی کتاب ہے اسکے پہلے ابتدائی باب دریائے سخن میں شاعری اور نقاد کی اہمیت ان الفاظ میں واضح کرتے ہیں :
"شاعری بنیادی طور پر ایک طلسم کارانہ تخلیقی فن ہے. شاعر لفظ و پیکر کے علامتی برتاؤ سے تجربات کے طلسم کدوں تک عام قاری کی رسائی ممکن نہیں. اس لئے ایک صاحب نظر نقاد کی رہنمائی ناگزیر بن جاتی ہے.
چنانچہ نقاد اپنی نازک حسیت بصیرت لسانی شعور اور گہرے ادراک سے کام لے کر ان طلسم کدوں کے جادوئی دروازوں کو وا کر کے اسراری جلوں کی شناخت کرتا ہے.
اور انہیں قاری پر ارزاں کرنے کی ذمہ داری قبول کرتا ہے.چنانچہ ان جلؤں کو دیکھنا اور دکھانا اس کے فائض منصبی میں شامل ہوجاتا ہے."
اس سلسلہ وہ" شش استدلالی نکات" پیش کرتے ہیں دراصل پہلے تین نکات پس ساختیات اور رد تشکیل ہی کے زمرہ میں آتے ہیں .. میں سمجھتا ہوں وہ انکا اعادہ ہیں…یا تکرار ..باقی تین نکات جو حامدی نے ہیش کئے انکی اکتشافی تنقید کا لب لباب ہیں انکی نظریہ کے یہ سہ استدلاتی نکات اہم ہوسکتے ہیں:
١.متن کی لسانی صورت گری کا تجزیہ
۲.تجربے کی یافت وتفہیم
٣.قدر سنجی
اگر انکے بتائے ہوئے اصولوں کی روشنی میں ہم انکی پہلی کتاب کا تجزیہ کریں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے انکا پہلا شعری مجموعہ (عروس تمنا) فقط بیانیہ/ عامیانہ شاعری پر مشتمل ہے.
البتہ کہیں کہیں کوئی ایسا شعر مل جاتا ہے جو انکے آیندہ سالوں کے پختہ فن کا پیش خیمہ محسوس ہوتا ہے.مثلاً
تو کھونہ جائے کہیں تھک کے منزلِ شب
تری تلاش میں خود ہی سحر نکل آئی
منزلِ شب..یعنی رات کا گھر..یہاں منزل مکان کے معنی ہے…
جو راہرو آشنائے جزبِ کامل ہو نہیں سکتے
کبھی وہ فائزِدامانِ منزل ہو نہیں سکتے
شعری مجموعہ …وادی امکاں سے دو اشعار
گھر سے باہر قدم کہاں رکھیں
ہے عجب دارو گیر راہوں میں
تم نے چہروں پر نقابیں ڈال دیں
دوستو!آئینہ ساماں ہم نہ تھے
سوکھی جاتی ہیں جھیلیں ساری
یہ کوئی مسئلۂ ذات نہ تھا
واقعی بڑے آدمی اپنی ذات کے علاوہ جماعت کے لئے بھی ہوتے انکا وجود انسانوں طیور و وحوش بلکہ پورے ماحول کے لئے میٹھے پانی کی جھیل جیسا ہوتا ہے. گہرا شعر ہے.
ایک اور پر تاثیر مگر قدرے مشکل شعر:
میں شاید اس کا سراغ پاوں
ہر ایک تحریرِ سنگ دیکھوں
تحریرِ سنگ سے مراد کتبہ ہے.ضروری نہیں کہ آدمی کو ہم اسکے جیتے جی. پہچان سکیں… بعض دفعہ کتبہ پر لکھ دیا جاتا ہے کہ فلاں صاحبِ قبر فلاں حادثہ فلاں فسادات فلاں جنگ میں مارا گیا.
یہ زبردست استعارہ ہے.یہاں معنی ک نیا باب کھلتا ہے کہ انسان کو سمجھنے کاعمل اسکی موت سے نہیں رکتا بلکہ بعد میں جاری وساری رہتا ہے.
انکی شاعری کے اصلی جوہر انکے چھٹے اور ساتویں شعری مجموعے میں اوج پر ہے.علی التریب انکے نام یہ ہیں
خوابِ رواں ..اور شہرِ گماں..
حامدی کی شاعری کی پزیرائی نہ ہونے کے وجوہات یہی قرین قیاس معلوم ہوتے اسکا انہیں خود بھی اندازہ تھا.
عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ ہر نئے دور میں نقاد معاصر شعراء کا معروضی اور احتسابی مطالعہ کرنے سے اس لئے اجتناب کرتے ہیں کہ کہیں تعلقات عامہ یا شخصی عافیت معرض خطر میں نہ پڑجائے بعض صورتوں میں معاصرانہ چشمک تعصب یا کمشل مفاد کی بنا پر ان سے اغماص برتا جاتا ہے.تنقیدی طریق کار کی رسمیت Stereotyped کا ہونا بھی اسکا سبب ہوسکتا ہے.حامدی کی شاعری کی قدردانی اور ادبی قیمت و قدر کا تعین کرنا باقی ہے .وہ بلند پایہ نقاد بصیرت رکھنے والے شاعر اور اچھے فکش رائٹر بھی ہیں …
اشعار آبدار
تہہِ آب میری بصارت گئی
ہتھیلی پہ لعل و گُہَر آگئے
طائروں نے بھی خبر دی تھی سحر ہونے کی
صدیوں کے شب زَدَگاں تھے یقیں کیا کرتے
بال کھولے عورتوں میں ڈھل گئے
راہ میں ایسے شجر دیکھے نہ تھے
کیسے ممکن تھا ستارے اپنے رستہ بھول جائیں
رات بھر میں دشت گردی بے سبب کرتا رہا
استراحت کاوقت آئے گا
یہ گھڑی تو مبارزت کی ہے
کوئی تدبیر کر لو چارہ سازو
بس اک دو پل کی مہلت رہ گئی ہے.
بات یہ آبلہ پایاں کیا ہے؟
دشتِ تیرہ میں چراغاں کیا ہے؟
فضائے دل کی یخ بستہ خموشی
نزولِ شعلۂ الہام تک ہے
یخ بستگی تیرگی میں
شعلہ ہوں جل رہا ہوں
کون تاریک عزابوں میں نہ تھا
حرف رخشندہ کتابوں میں نہ تھا
مجھ سے ہی شورشیں ہوئیں منسوب
رخشندگی کا راز لہو کی صدا میں ہے.
قبیلوں کے لئے ایک آئینہ تھی
وہ نیلی جھیل پتھر ہوگئی ہے
تہزیبی باقیات شناخت گم ہونا مراد نہ
میرے سینہ میں سب پرندے چھپے
شجر در شجر برف گرتی رہی.
کیسے ڈھل جائیں کالے حرفوں میں
دل میں رخشاں ہیں صورتیں کیا کیا؟
اس کے جانےپر چمن کا حال کیسا ہوگیا ہے؟
ہیں فگندہ سر پرندے ہاتھ پتے مل رہے ہیں؟
تمام وادیاں ڈوبیں خزاں کی ظلمت میں
کہیں کہیں کوئی برگِ چنار روشن ہے.
تھی حکایت طیورِ ناطق کی
کس کو شوقِ ادائے مطلب تھا
ہاتھ لاوں کہاں سے ؟سرکاؤں
عارضوں سے نقاب انجم کا
کوہ و صحرا میں رات اتری تھی
راستہ دور تھا پرندوں کا
بلندی کا تصور واہمہ سا
سیہ کھائی میں پستی رہ گئی ہے
جاری …
قسط دوئم
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“