پروفیسر غلام رسول شوق 21نومبر 1938ء کو موضع کوٹ رام چند، تحصیل بٹالہ ضلع گورداسپور (ہندوستان) میں چودھری عزیز الدین سوڈھی کے گھر پیدا ہوئے اور 6 فروری 2005 اتوار کے روز فجر کی نماز کے وقت بٹالہ کالونی، فیصل آباد (پاکستان) میں حرکتِ قلب بند ہو جانے کے باعث انتقال۔ کر گئے۔ محلہ شریف پورہ فیصل آباد کی زمین نے عالمی ادبیات کے اس آسمان کو اپنے دامن میں چھپا لیا ۔ اتنے بڑے ادیب کا دُنیا سے اُٹھ جانا ایک بہت بڑا سانحہ ہے۔ ان کی رحلت پر بزمِ ادب برسوں تک سوگوار رہے گی۔
زمیں لوگوں سے خالی ہو رہی ہے
یہ رنگ آسماں دیکھا نہ جائے
ان کی وفات سے پنجابی زبان و ادب کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ انھوں نے گزشتہ پانچ عشروں میں پنجابی زبان و ادب کے فروغ کے لیے جو گراں قدر خدمات انجام دیں وہ تاریخ کے اوراق میں آبِ زر سے لکھی جائیں گی۔ پروفیسر غلام رسول شوق ایک رجحان ساز تخلیق کار تھے جنھوں نے اپنے انفرادی اسلوب کے اعجاز سے اپنی تخلیقات کو قلب و روح کی گہرائیوں میں اُتر جانے والی اثر آفرینی سے مزین کیا۔ ادب اور فنونِ لطیفہ کے فروغ کے لیے اُن کی خدمات کو دُنیا بھر میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ان کی وفات سے شعر و ادب کا ایک باب بند ہو گیا۔ پنجابی شاعری کا ایک عہد ختم ہو گیا ۔ سیرت و کالم نگاری کا ایک سلسلہ اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔
پروفیسر غلام رسول شوق دس کتابوں کے مصنف تھے جن میں ’’گھر دا بوہا‘‘(شاعری)، ’’چھلتراں‘‘ (کہانیاں)، ’’دیس دا پاندھی‘‘(ہجرت نامہ)، ’’بریتے‘‘ (کہانیاں)، ’’مشال‘‘(شاعری)، ’’دُھواں دُھخے‘‘ (شاعری)، ’’سٹنٹد سولز‘‘(دیس کا پاندھی کا انگریزی ترجمہ)، ’’آدابِ رسولؐ‘‘(سیرتِ رسولؐ، سوانح حیات)، ’’حرفِ شوق‘‘(کالم نگاری) شامل ہیں۔ ان کی ان کتابوں میں سے اکثر کو انعامات مل چکے ہیں۔ ان کی پانچ کتابیں زیرِ طبع تھیں جن میں ’’فقر‘‘، ’’حبیبی یا رسول اﷲؐ‘‘(پنجابی نعتیں)، ’’دوپہرے شاماں‘‘ (افسانے)، ’’سانجھی بُکل‘‘ (تنقیدی مضامین) شامل تھیں۔
مختلف کالجز کے ’’المعاش‘‘، ’’روشنی‘‘، ’’القمر ‘‘ میگزین کے پنجابی حصوں کے انچارج بھی رہے ہیں۔ ’’کنٹھا‘‘ ان کا ڈرامہ پی ٹی وی پر نشر ہو چکا ہے۔ ڈرامہ’’ علامہ اقبال عدالت کے کٹہرے میں‘‘ تحریر کر کے سٹیج کر چکے ہیں۔ پروفیسر غلام رسول شوق مختلف النوع ہمہ جہت موصوف شخصیت تھے۔ وہ اردو اور پنجابی شاعری کالم، مضمون اور سیرت نگاری میں نابغۂ روزگار عصر کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کے افسانے ، ڈرامے ، ناول جی سی یونی ورسٹی فیصل آباد (پاکستان) کے ایم اے پنجابی کے نصاب میں شامل کیے گئے ہیں۔
پروفیسر غلام رسول شوق کا اولین پنجابی شعری مجموعہ ہے جو 15دسمبر1979ء کو منصہ شہود پر آیا۔ ’’مڈھلی گل‘‘ میں شوق صاحب رقم طراز ہیں:
’’گھر دا بوہا‘‘ میرا پہلا شعری مجموعہ ہے۔ جس میں پچھلے پندراں سالوں کی منتخب غزلیں شامل ہیں۔‘‘(۴)
’’گھر دا بوہا‘‘ میں اپنی شاعری کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’میری شاعری میں سے کوئی ایک منظر کسی ایک سوچ پر پڑھنے والے غور کر لیں تو میں سمجھوں گا کہ میری سوچ کارگر ثابت ہوئی۔ میری محنت بار آور ہوئی۔‘‘(۵)
’’گھر دا بوہا‘‘ ایک علامتی نظم ہے جس کی تشبیہ انھوں نے "باپ" سے دی ہے۔ اپنے باپ سے ، کسی بھی باپ سے ، کسی بھی سرپرست سے، ہر اس باپ پر یہ نظم صادق آتی ہے جو ساری حیاتی زمانے کی تند و تیز تلخیوں اور دُھوپ بھری زندگی میں محنت اور مشقت کر کے اپنے بچوں کو پالتا ہے ۔ ان کی نگہداشت کرتا ہے۔ اُن کو پروان چڑھاتا ہے۔ ان کے دُکھ سُکھ کا خیال اپنی جان سے زیادہ کرتا ہے۔ جیسے دروازہ ساری زندگی گھر کی حفاظت ، چوکیداری اور نگہداشت کرتا کرتا آخر ایک دن تمام قبضے، کیل ڈھیلے اور لکڑی میں تریڑیں پڑ جانے سے اپنی طاقت کھو بیٹھتا ہے اور پھر کسی روز اچانک دھڑام سے زمین پر آ گرتا ہے ۔۔۔۔بعین ہی گھر کا سرپرست ، گھر کا نگہبان باپ بھی حالات کی تلخ اور سخت دوپہروں اور سرد راتوں کا مقابلہ کرتے کرتے تھک کر زندگی سے ایک دن ہار مان جاتا ہے۔ یہ نظم غلام رسول شوق کی شہکار نظموں میں شمار ہوتی ہے۔
پروفیسر غلام رسول شوق 1985ء میں جب اُستاد کی حیثیت سے جی سی یونیورسٹی پہلی بار ہماری کلاس میں آئے تھے تو اُن کے ساتھ پروفیسر ڈاکٹر شوکت علی قمر بھی تھے جو ان کا تعارف کروانے کے لیے ہماری کلاس میں تشریف لائے تھے۔ رسمی تعارف کے بعد شوق صاحب سے اُن کا کلام سننے کی فرمائش کی گئی تو محترم غلام رسول شوق صاحب نے یہ نظم بڑے خوب صورت انداز میں ترجمہ اور شرح کے ساتھ سنائی تھی۔۔۔۔پھر اگرچہ ہم کالج سے فارغ التحصیل ہو کر اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات میں اُلجھ گئے۔پروفیسر غلام رسول شوق سے جب بھی اور جہاں بھی ملاقات ہوتی تو میرے کئی دوست فرمائش کر کے اسی نظم کو سننا پسند کرتے ۔ موصوف کا اندازِ بیان بڑا مؤثر اور دل کش ہوتا تھا۔ بسا اوقات وہ یہی نظم پڑھتے پڑھتے آبدیدہ ہو جاتے اور آنسو ان کی آنکھوں میں چمکنے لگتے۔ یہ نظم ہر اس نیک طینت فرمانبردار اولاد کے لیے ہے جو اپنے والد سے ٹوٹ کر پیار کرتا ہے۔ ان کے مقام اور مرتبے کو پہچانتا اور سمجھتا ہے۔
راقم (اظہار احمد گلزار) نے ریڈیو پر بطور براڈ کاسٹر اپنے متعدد پروگراموں میں یہ نظم متعدد بار پوری پوری پڑھ کر سنائی ہے۔ میں جب بھی یہ نظم سناتا تو سامعین بذریعہ فیس بک پیچ SMS کر کے دوبارہ سننے کی فرمائش کرتے۔ کبھی کبھار ان کا کوئی شاگرد بھی Online آ کر بتاتا کہ میں بھی پروفیسر شوق صاحب کے حلقہ تلامذہ میں شامل ہوں۔
نظم ’’گھر دا بوہا‘‘ نذرِ قارئین:
اِک سی میرے گھر دا بُوہ
چِٹے پٹ تے متھا سُوہا
ڈُھکدا کھُلدا چیں چیں کردا
دُھپے کھاندا سِی نہ کردا
مہینہ پھانڈے وچ پجھدا رہندا
شِکر دوپہرے رِجھدا رہندا
لوآں دُھپاں نُوں اوہ روکے
اگل واہنڈی سب توں ہو کے
چور اُچکے توں نہ ٹٹ دا
چوتھی پکی سکے رُکھ دا
قبضے کُنڈے سنے چوگاٹھے
بھخدا وانگر گبھرو کاٹھے
ہر کوئی اوتھوں نیوں کے لنگھدا
نیویاں اکھیاں سنگ دا سنگ دا
کجھ ورھیاں توں بعد میں تکیا
-تکیا تے پر جَر نہ سکیا
لکڑ سُک تریڑاں پئیاں
-ہر ریشہ کر وکھرا گئیاں
اِک اِک پیچ ہویا فِر ڈِھلا
+ہلنا جُلنا ہویا جھِلا
;جھُکھڑاں دی اوہ مار کی سیہندا
ہر پَٹ اُس دا ہِلدا رہندا
واج سی اُس دی کھڑ کھڑ کر دی
فِر وی راکھی گھر دی کر دی
اِک دِن کُنڈا ہویا نِکّا
سنے چوگاٹھے ویڑے ڈِگّا
چھڈ گیا سب کندھاں کولے
مُک مکا گیا سبھ رولے
کر گیا لُگا سارے گھر نوں
سارے گھر دے اِک اِک در نوں
شوقؔ سبھے ہُن کڑیاں ڈولن
کِڑ کِڑ کِڑ کِڑ کِڑ کِڑ بولن
اِس نظم کے بارے میں اُن کے اُستاد اور مرشد پروفیسر یوسف زاہد علیم اﷲ صفی کتاب کے ابتدا میں ’’تعارف اور وچار‘‘ کے عنوان میں رقم طراز ہیں:
’’غلام رسول شوق کی نظم ’’گھر دا بوہا‘‘ سننے کا موقع بھی ملا اور پڑھنے کا بھی ۔ سچی بات ہے کہ اس نظم کے عنوان اور علامتی انداز نے مجھے بہت متاثر کیا ہے۔ یہ نظم سن کر شوق صاحب کے اندر سے مجھے ایک گہرے دُکھ دردوں کی خوشبو آئی۔ وہ دُکھ جو لوہے کو کُندن بنا دیتے ہیں ۔جب میں اس کے قہقہوں کے اندر جھانکا تو مجھے اُس کے دل اور زندگی پر غموں کے آرے چلتے دکھائی دیے ۔ وہ عشق کا نور جو آدمی کو انسان بنا دیتا ہے ۔ اس نظم میں علامت کے اندر بہت ہی وسعت اور گہرائی ہے۔‘‘(۷)
’’گھر دا بوہا‘‘ ان کی طویل نظموں کا شعری مجموعہ ہے ۔ ہر نظم کی اپنی تاثیر اور جاذبیت ہے۔ اگر ایک نظم پڑھنا شروع کر دیں تو پوری کیے بغیر آپ آگے نہیں بڑھ سکتے ۔ ’’گھر دا بوہا‘‘ سمیت دیگر نظمیں ’’پنجابی زبان‘‘ ،’’مرشد‘‘، ’’سچے اکھر‘‘، ’’سپ دی اکھ‘‘، ’’شکوہ‘‘، ’’ماٹی نال کیہ کرنا پیار‘‘، ’’گُجھے دُکھ‘‘ ،’’پریت‘‘، ’’وچھوڑا‘‘، ’’پورنے‘‘، ’’ممتا‘‘،’’میری جنت‘‘، گُڈی‘‘، ’’عشق اولڑا‘‘،’’ہاڑے‘‘،’’پینگ‘‘، ’’اُڈیک‘‘،’’مُکھڑا‘‘،’’پھُٹی‘‘،’’بڑھاپا‘‘،’’نوکر مُنڈا‘‘،’’اج دے سجن‘‘، ’’ڈکو ڈولے‘‘،’’حُقے دی نڑی‘‘،’’اِک جوان‘‘،’’قائد اعظم‘‘،’’سانجھی کندھ‘‘،’’علامہ اقبال تے مینارِ پاکستان‘‘،’’پوِتر رُکھ۔۔۔پاکستان‘‘،’’راکھے‘‘، ’’انقلاب‘‘، ’’دیس میرے دا حال‘‘، ’’وساکھی دا میلہ‘‘وغیرہ ان تمام نظموں میں شوق صاحب کا قلم منہ چڑھ کر بولتا دکھائی دے رہا ہے۔