(Last Updated On: )
26 دسمبریوم وفات کے موقع پر خصوصی تحریر
ان کااصل نام ”عبدالغفوراحمد“ تھا،لیکن پاکستان کی سیاسی تاریخ میں وہ ”پروفیسرغفوراحمد“کے نام سے مشہور رہے۔26جون کو ہندوستانی ریاست اترپردیش(یوپی) کے مشہورشہر”بریلی“میں پیداہوئے۔آپ کے والد تاجرتھے اور ایک دکان کرتے تھے۔یہ دورغلامی تھا،اور امت مسلمہ کی کوکھ اس بدقسمت دورمیں بھی بیدارمغزقیادت سے سرسبزوشاداب رہی۔ننھے پروفیسرغفوراحمدنے ابتدائی تعلیم اپنے علاقائی مقامی تعلیمی اداروں میں ہی حاصل کی۔ایک انٹرویومیں آپ نے خود بتایاکہ آپ کی تعلیم کاآغاز مسجد سے ہواتھا۔اسلامیہ ہائی سکول بریلی سے 1942ء میں دسویں کاامتحان پاس کیا۔بی کام کی تعلیم کے لیے آگرہ تشریف لے گئے اوروہاں کی ”آگرہ یونیورسٹی“سے مذکورہ تعلیم مکمل کی۔1948ء میں لکھنؤیونیورسٹی سے تجاریات(کامرس) میں ماسٹرزکی سند حاصل کی،”لکھنؤیونیورسٹی“اس وقت کے متحدہ ہندوستان کے چندبہترین اعلی تعلیمی اداروں میں سے ایک تھی۔صنعتی حسابات(انڈسٹریل اکاؤنٹس)کی تعلیم اس پر اضافی تھی۔اسی سال اسلامیہ کالج لکھنؤمیں شعبہ تجاریات قائم ہوا تو پروفیسرغفوراحمدنے یہاں سے تدریسی خدمات کاآغازکیا۔آزادی کے بعد آپ نے اپنے خاندان کے ساتھ ہجرت کی اور کراچی جیسے زرخیزشہر میں مستقل سکونت اختیارکی۔اپنی تعلیمی استعداد کی بنیاد پر آپ نے متعدد تجارتی و کاروباری اداروں میں خدمات سرانجام دیں اوران اداروں میں اچھے مناصب پر تعینات بھی رہے۔لیکن فطری طورپرآپ کارجحان تعلیم و تدریس کی طرف تھا،چنانچہ اپنی کاروباری متعلقہ سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ آپ نے تدریس کی طرف بھی توجہ دینا شروع کی اور پھر ایک وقت آیا کہ پروفیسر غفوراحمدکلی طورپرتعلیم کے شیوہ سے ہی وابسطہ ہوکررہ گئے۔آپ نے انسیٹیوٹ آف چارٹرڈاکاؤنٹس پاکستان اوراردوکالج کراچی سے اپنی تدریسی سرگرمیوں کاباقائدہ آغاز کیا۔تعلیم سے فطری شغف بہت جلدآپ کو جامعہ جیسی بلندترین مادرعلمی کے مقام تک لے گیااورآپ پہلے سندھ یونیورسٹی اور پھر کراچی یونیورسٹی سے ایک طویل عرصہ تک وابسطہ رہے۔ان دونوں جامعات کے نصاب سازادارے بھی آپ کی تخلیقی وتحقیقی صلاحیتوں سے فیض یاب ہوئے۔
وطن عزیزمیں آپ کاتعارف میدان سیاست میں دیانتداراوربااصول سیاستدان کی حیثیت سے جاناجاتاہے۔پروفیسرغفوراحمدنے اگرچہ تئیس سال کی عمرمیں اپنے سیاسی مستقبل کاسفرباقائدہ سے شروع کیالیکن زمانہ طالب علمی میں بھی آپ بہترین مقرراور اپنے کالج میں طلبہ یونین میں بھرپور حصہ لینے والے طالب علم راہنمارہے تھے۔اسی زمانہ طالب علمی میں آپ نے مولانا مودودی کی تحریروں سے تعارف حاصل کیا۔آپ نے سب سے پہلے مولانا مودودی کی کتاب ”خطبات“پڑھی پھرخود بتاتے ہیں کہ اس کے بعد مولانا کتابیں ڈھونڈ ڈھونڈ کرپڑھاکرتاتھا۔1941ء میں جماعت اسلامی قائم ہوئی اور 1944ء تک آپ اس جماعت سے مکمل تعارف حاصل کرچکے تھے۔آپ نے 1950ء میں جماعت اسلامی کراچی میں رکن کی حیثیت سے شمولیت اختیارکی۔یہ جماعت اسلامی کا شعبہ نوجوانان تھا۔اپنی خداداصلاحیتوں کی بدولت آپ نے جماعت اسلامی میں بہت جلد اعلی مقام حاصل کرلیا۔جماعت اسلامی کے بانی امیرمولاناموددیؒکے آپ کے ساتھ بہت برادرانہ ودوستانہ تعلقات رہے،ان سے پہلی ملاقات لاہورمیں ہوئی۔کراچی میں مولانا مودودی ؒکا قیام آپ ہی گھرمیں ہواکرتاتھا۔تنظیمی و سیاسی معاملات میں پروفیسرغفوراحمد کا مشورہ جماعت اسلامی اسلامی کے لیے قندیل راہبانی کی حیثیت رکھاکرتاتھا۔کراچی سمیت کل ملکی منصوبہ بندی میں جماعت اسلامی کی راہنمائی فرمایاکرتے تھے۔کراچی سے باہر جب دوسرے شہروں کادورہ کرتے تو جماعت اسلامی کے کارکنان سمیت عوام کاایک جم غفیر آپ کے دائیں بائیں متحرک ہواکرتاتھا۔ایک طویل عرصے تک سندھ کی مجلس عاملہ اور پاکستان کی مرکزی مجلس شوری کے رکن رہے۔تین سال تک جماعت اسلامی کراچی کے امیر بھی رہے بعد میں انہیں کل پاکستان کانائب امیر بنالیاگیا۔
1958ء میں آپ کراچی کے مقامی بلدیاتی انتخابات میں عوام کی تائید سے رکن بلدیہ منتخب ہوئے۔بہترین کارکردگی کی بنیادوں پر کراچی کی باشعورعوام نے آپ کو 1970اور 1977کے عام انتخابات میں پاکستان کی قومی اسمبلی کارکن بھی منتخب کیا۔1973ء کے پاکستانی آئین کی منظوری پر آپ کے ہاتھوں سے کیے ہوئے دستخط بھی موجود ہیں۔پاکستان کے دولخت ہونے پرپارلیمان کے اندراور پارلیمان کے باہر بھی آپ کاکردار سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔اس وقت پوری پاکستانی قوم ایک بہت بڑے سانحے سے دوچارہوچکی تھی اور پروفیسرغفوراحمدان چند راہنماؤں میں سے تھے جنہوں نے اس کڑے وقت میں قوم کو حوصلہ دیا۔اس وقت تک آپ صرف جماعت اسلامی کے راہنماؤں میں شمارہوتے تھے لیکن 28جنوری1973کو انہوں نے پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک مایہ ناز انٹرویودیا،اس کے بعد سے پاکستان کے سیاسی حلقوں میں ان کی پزیرائی میں بے حد اضافہ ہوگیااور عوام کی عدالت میں ان کو بے پناہ قدرومنزلت اورقبول عام حاصل ہوا جس کے نتیجے میں انہیں پورے ملک میں ایک سیاسی جماعت کی بجائے قومی راہنماکامقام حاصل ہوگیا۔
دوسری بار یعنی1977ء کے انتخابات میں آپ نے ”پاکستان قومی اتحاد“کے مشترکہ اتحادسے کامیابی حاصل کی تھی۔اس سیاسی اتحاد نے جب تحریک چلائی تو 1977ء تا1978ء تک اس اتحاد کے سیکریڑی جنرل بھی رہے،اور اس وقت کی تحریک نظام مصطفی کے روح رواں رہے۔بعد میں جب اس اتحادنے وقت کے حکمرانوں سے مزاکرات کافیصلہ کیاتو مزاکراتی ٹیم کااہم حصہ ہونے کے ناطے پوری قوم کی نظریں آپ پر جمی رہتی تھیں۔1978تا1979 وفاقی وزارت صنعت وپیداوارکاقلمدان بھی آپ کے پاس رہا۔”اسلامی جمہوری اتحاد“کاسیکریٹری جنرل رہناآپ کی اتحادی سیاست کاآخری سنگ میل ثابت ہوا۔جب آپ کی سیاسی جماعت اس اتحاد سے الگ ہوئی تواس وقت آپ اپنی سیاسی جماعت،جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر تھے۔یہی منصب تاحیات آپ کے پاس رہا۔2002تا2005پاکستان کے ایوان بالا کے رکن بھی رہے۔آخری عمر میں کراچی کے حالات پر سخت پریشان رہتے تھے۔کراچی کاغم ہی آپ کی وفات کاباعث بنااور کم و بیش پچاسی برس کی عمر میں دس دن ہسپتا ل میں گزارنے کے بعد 26دسمبر2012ء کو خالق حقیقی سے جاملے۔
پروفیسرغفوراحمد نے بانی جماعت اسلامی مولانا مودودی ؒ کے شانہ بشانہ کام کیا۔پھر میاں طفیل محمدکی قیادت آئی تو بھی جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت میں آپ کاشمارہوتاتھا۔قاضی حسین احمد آپ سے چھوٹے تھے لیکن جب وہ امیر جماعت اسلامی منتخب ہوئے توپروفیسرغفوراحمدان کے ساتھ بھی بطورنائب امیر کے کام کرتے رہے۔جب ان کاانتقال ہواتو سید منور حسن امیرجماعت اسلامی پاکستان تھے۔پاکستان کی دیگرسیاسی جماعتوں میں ایسانہیں ہواکرتا،یہ پروفیسرغفوراحمدکی سادگی اور اطاعت نظم کی عمدہ مثال ہے کہ انہوں نے چھوٹوں کی قیادت کوتسلیم کیااور کوئی الگ سے گروہ بندی نہیں کی۔گزشتہ صدی میں اسی(۰۸) کی دہائی کے اواخر میں ملتان تشریف لائے تو راقم الحروف نے بھی ان سے شرف ملاقات حاصل کیا،لیکن یہ زمانہ طالب علمی تھااور ملاقات صرف علیک سلیک اور ان کے خطاب کی سماعت تک محدود رہی۔البتہ ایک نماز کی ادائگی کے لیے ان کی معیت میں مسجد جانایادہے،جب گنتی کے چندافرادہی ہمراہ تھے۔ جماعت اسلامی ملتان کے بزرگوں سے ان کی تفصیلی ملاقات کے مناظر اب بھی اس یادداشت میں محفوظ ہیں۔
انتہائی سادہ طبیعت،پروقار شخصیت اور بااصول کردارپروفیسرغفوراحمدکی زندگی کاخاصہ رہاہے۔انہیں اسمبلی سے اٹھاکر باہر سڑک پر پھینکاگیا،قیدوبندکی صعوبتیں ان کے راستے میں آئیں،انتخابات میں ناکامیوں کاایک تسلسل جوان کی جماعت کامقدربنارہااورعمربھرکی سیاست سے صرف نیک نامی کی کمائی،ان سب کے باوجود ثابت قدمی سے اقامت دین کی جدوجہدمیں جتے رہنااور اپنی تمام کاوشوں کا بدلہ صرف اپنے رب سے ہی چاہناوہ خواص ہیں جو ایک دینی جماعت کی نسبت سے پروفیسرغفوراحمدکو میسر آئے۔پاکستان کی کون سی سیاسی جماعت ہے جس کے راہنماکے اجدادیااولادسے قوم واقف نہیں ہے؟؟؟لیکن پروفیسرغفوراحمدکی شخصیت کے علاوہ سب کچھ پردہ اخفامیں ہی ہے۔یہ ایک حقیقی راہنماکی نشانی ہے کہ اس کاسب کچھ اس کی قوم کے لیے ہی ہوتاہے،حتی کہ اس کے مناصب ومقامات بھی اس کے بعد اہل تر لوگوں کے حصے میں آتے ہیں بجائے اقرباوخواص کے۔یہ لوگ ہیں جن کے لیے ان کے رب کے سچے وعدے موجود ہیں وہ لوگوں سے اپنے کیے کابدلہ نہیں مانگتے اور نہ ہی اپنی خدمات کاکوئی صلہ چاہتے ہیں بلکہ ان کا بدلہ ان کے رب کے ہاں محفوظ ہوتاہے۔