مر بھی جاؤں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے ،مرے ہونے کی گواہی دیں گے
پروفیسر ڈاکٹر عادل صدیقی بھی دار فانی سے کوچ کر گئے۔رہے نام اللہ کا۔
عادل صدیقی کا اصل نام محمد شبیر صدیقی تھا۔انھوں نے 5 دسمبر 1954 کو موضع چوہان (برہان پور) تحصیل پسرور ضلع سیالکوٹ میں عبدالعظیم صدیقی کے گھرآنکھ کھولی ۔ ایم -اے پنجابی کیا اور گولڈ میڈل کے حق دار ٹھہرے ۔گوجرانوالہ ڈویژن کے مختلف کالجز میں پنجابی کے استاد کی حیثیت سے فرائض انجام دیے ۔گورنمنٹ مرے کالج سیالکوٹ میں صدر شعبہ پنجابی ،گورنمنٹ انٹر کالج میترانوالی ڈسکہ ضلع سیالکوٹ میں پرنسپل، گورنمنٹ کالج سیٹیلائٹ ٹاون گوجرانوالہ اور گورنمنٹ ڈگری کالج پسرور ضلع سیالکوٹ میں بھی خدمات انجام دیں ۔2003 میں آپ نے ڈاکٹر عصمت اللہ زاہد کی زیر نگرانی پی۔ ایچ۔ ڈی کا مقالہ لکھا ۔جس کا عنوان تھا"مولا بخش کشتہ،شاعر تے نثرنگار"۔
عادل صدیقی اردو اور پنجابی کے کہنہ مشق شاعر تھے۔آپ کو دونوں زبانوں پر یکساں عبور حاصل تھا ۔لیکن آپ کی وجہ شہرت آپ کا پنجابی کلام ہے۔آپ کے تخلیقی سفر کا آغاز 1975 میں ہوا۔سائیں محمد حیات پسروری کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا۔
اردو اور پنجابی شاعری پر ڈیڑھ درجن سے زائد کتب لکھ کر اہل علم وادب سے داد وصول کرچکے ہیں۔بطور نقاد و محقق بھی آپ کی خدمات قابل تحسین ہیں۔ الخیریونیورسٹی میر پور سے ان کی اردو شاعری کی خدمات پر ایک طالبہ نے ایم فل کا مقالہ لکھا ہے ۔ پنجابی شاعری پر بھی ایک یونیورسٹی سے ایم فل کا مقالہ قلمبند کیا گیا ہے ۔
آپ کا کلام پاکستان اور انڈیا کے معروف اردو اور پنجابی رسائل و جرائد کی زینت بنتا رہا۔آپ کے اردو اور پنجابی کےلا تعداد تنقیدی مقالات مختلف رسائل میں اشاعت پذیر ہوئے۔گورنمنٹ مرے کالج سیالکوٹ کے مجلے "مفکر " کے پنجابی حصہ کے مدیر رہے۔رسالہ ہذا میں آپ کا کلام تواتر سے طبع ہوتا رہا۔ آپ کا پنجابی اور اردو کلام بعض معروف گلوکاروں نے اپنی خوب صورت آواز میں پیش کیا ہے ۔ ہزاروں طلبہ آپ کے علم و فن سے مستفید ہوئے۔
ڈاکٹر عادل صدیقی پچھلے کچھ سالوں سے ذیا بیطس اور فالج کی بیماری کے ہاتھوں پریشان تھے۔ ۔ ایک سال سے صاحب فراش تھے09 جنوری 2019 کو اچانک ان کی طبیعت بگڑ گئی انہیں سیالکوٹ ہسپتال لے جایا گیا ۔جہان وہ جانبر نہ ہوسکے اور اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔ وفات کے اگلے روز ان کی تدفین ان کے آبائی گاوں چوہان(برہان پور ) پسرور ضلع سیالکوٹ میں عمل میں لائی گئی ۔مرحوم نے پسماندگان میں تین بیٹے اور ایک بیٹی چھوڑی ہے۔
آپ کی بعض مطبوعات درج ذیل ہیں ۔
(1) پالے ٹھر دے پنچھی 1991
(2) برفاں ونڈا دا سورج 1991
(3) کلر وچ گلاب 1995
(4) جگنو،پھل تے تتلی 1997
(5)نوید موسم گل 2000
(6) بند اکھیاں وچ منظر 2001
(7) کچ دیاں ٹومباں 2004
(8) بھاگاں والے اکھر 2005
(9) غزل تم سے عبارت ہے 2007
(10) حرف صداواں لبھن 2007
(11) سولاں نال پریت 2009
(12) ابھی کچھ خواب باقی ہیں 2010
(13) من وچ وسدے چیتر 2015
نمونہ کلام
میں خوش ہوں اپنے سخن سے عادل
کہ میں نے دنیا کو کچھ دیا ہے
یوں تو جینے کو سبھی لوگ جیا کرتے ہیں
زیست اس کی ہے جسے اس کا ہنر آجائے
کہندے نیں تاریخ سدا اپنے نوں دہراندی اے
آج دے سادھ وی ویکھ لیو کل نوں چور اکھاون گے
ککر ورھدی سردی دے وچ ہور تے کوئی سہارا نیں
پالے ٹھر دے پنچھی ساڈا مان ودھاندے رہنے نیں
اگے وانگوں سورج وی ہن تے کرناں ونڈا دا نیں
پالے ٹھر دے پنچھیاں نے ایویں کھنب کھلارے نیں
میں وی سورج وانگوں اکدا تھکدا نیں
نت فکراں دی لو ورتاندا رہنا واں