::: " پروفیسر دیو: فکر کا مینارہ جو فوجی کی گولی سے ڈھیر ھوگیا۔":::
( کچھ ان کہی یادیں۔ کچھ پرانی باتیں جس پربات کرتے ھوئے لوگ گھبراتے ہیں)
جب بھی سقوط ڈھاکہ کا ذکر ہوتا ہے۔ تو میں بہت دکھی ھو جاتا ھوں کیونکہ مجھے پروفیسر دیو (1907۔1971) یاد آجاتے ہیں۔وہ جامعہ ڈھاکہ میں فلسفے کے استاد تھے۔ وہ جب بھی کراچی آتے تھے تو میرے ماموں ڈاکٹر قاضی عبد القادر مرحوم کے گھر میں قیام کرتے تھے۔ میری ان سے دو ملاقاتیں ھوئیں۔ جب وہ آخری بار کراچی آئے توان کی خدمت کرنے کی زمہ داری مجھے سونپی گئی۔ وہ خوش گفتار، دلچسپ انسان تھے۔ سفید دھوتی اور کرتا پہنتے اور چادر لیتے تھے۔وزن بھی بہت تھا۔ بہت خوش خوراک تھے۔ ان کو کھانا کھاتے دیکھ کر مجھے ناسخ لکھنوی یاد آجاتے تھے۔ بہت ھی خوش خوراک تھےایک دن میرے ساتھ ککڑی کے ٹھیلے پر کھڑے ھوکر تیں سیر ککڑیاں کھا گئے۔۔وہ میرے ساتھ کراچی کی جامع کلاتھ مارکیٹ جاتے اپنے لیے لنگی، چادر اور جوتے خریدتے تھے۔ بونس روڈ پرمٹھائی، فیرنی اور دھی بڑے اور چھولے کھاتے تھے۔ خوب " رج" کے کھاتے تھے۔ مگر وہ گوشت نہیں کھاتے تھے۔کھلےزہن کے انسان دوست سیکولر انسان تھے ۔ انھوں نے شادی نہیں کی تھی ۔انھوں نے ایک مسلمان لڑکی رقیہ سلطانہ کو گود لیا اور ان کے داماد کا نام محمدعلی تھا۔
ڈاکٹر دیو کے قتل کا دلخراش خونی واقعہ بہت اندوہناک تھا۔ 25 مارچ 19711 میں پاکستانی فوجیوں نے ڈھاکہ یونیورسٹی پر دہاوا بول دیا ۔ گھر گھر چھاپے مارے گئے تو ڈاکتر دیو کے اہل خانی نے گھر کے ایک چھوٹے کمرے میں چھپ گئے۔ یہ ایک خون آشوب رات تھی۔ 26 مارچ 1971 کی صبح چھ بجے پاکستانی فوجیوں کا ایک دستہ ان کے گھر کا دروازہ پیٹتے لگا۔ ایک فوجی نے اردو میں بلند آواز میں حکم دیا۔ " دروازہ کھولو"۔۔۔ اور بھر دروازہ توڑ کر گھر میں داخل ھوگیا۔ فوجیوں نے دیو صاحب کے داماد محمدعلی کو دیکھ کر کہا" تم کافر کی اولاد ھو ۔۔۔۔ تمہارا داماد ناجائیز ھے"۔۔۔۔۔ بھر فوجیوں نے ان کے سر پر رائفلوں کے " بٹ" سے محمدعلی کے سر پر ضربیں لگائیں۔ اور بھر ان کا سینہ گولیوں سے چھلنی کردیا۔ بھر نے پروفیسر دیو نے فوجیوں سے پوچھا " تم کیا چاہتے ھو بیٹا" ۔۔۔۔ اس سفاک فوجی نے نے ڈاکٹر دیو سے کہا "میرے پاس گولیوں کا راونڈ ھے اور یہ کہ کر دو گولیاں ان کے سر پر ماریں اور بقیہ گولیاں ان کے سینے میں اتار دیں۔ اور ان کی روح ان کے جسم کاساتھ چھوڈ گئی۔اور وہ فرش پر گر گئے۔ بھر فوجیوں نےان کی خون میں لتھڑی ھوئی لاش کوگھسیٹ کر جگنا داس ہال میں لے گئے جہان پہلے سے فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بنےوالے سینکڑوں بگالیوں کی لاشیں پڑی تھیں۔ ڈاکٹر دیو جگنا داس ھوسٹل کے " پروسٹ " بھی تھے ۔
پروفیسر صاحب کا پورا نام"گوندا چندرا دیو پرکنتھا"تھا۔ وہ فلسفی اور ماہر تعلم تھے۔ ان کو 19677 میں انکو "درشن ساگر" کا خطاب دیا، وہ یکم فروری 1907 میں سلہٹ ( بنگلہ دیش) کے ایک چھوڑے سے گاؤں " لوٹا" بیانی بازر میں پیدا ھوئے۔۔ پروفیسر دیو کا تعلق ہندو برھمن خاندان سے تھا۔ ان کا آبائی تعلق گجرات ( ہندوستان) تھا ۔جہان ان کے آباؤ اجداد وہاں کے سیاسی، معیشت معاشرتی حالات مذھب کے بھران اور بدحالی کے سبب پانچیوں صدی میں سلہٹ آگئے۔ انھوں نے خاندان کی روایت پر چلتے ہوئے،وید، ویدنتا، اینڈس کا مطالعہ گہرائی سے کیا۔انھون نے 1929 میں سنسکرت کالج کولکتہ سے فلسفے میں باے امتیازی کی اور 1931 میں ایم اے کی ڈگری لی۔ 1944 میں انھوں ننے۔۔ " جواز، وجدان اور حقیقت "۔۔ کے موضوع پر مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی۔ کچھ دن انھون نے سندر ناتھ کالج ریناج پور میں پڑھایا۔ بھر 1953 میں ڈھاکہ یونیورسٹی فلسفے کی تدریس و تحقیق سے منسلک ھوگئے۔ وہ ارسطو کے فلسفیانہ خیالات سے متاثر تھے۔ انھوں نے فلسفے کے حوالے سے کئی متنازعہ مسائل کو چھیڑا۔ جو معاشرتی زندگی، ثقافت، اقتصادیت اور مذھبیات سے متعلق تھے۔ وہ بنیاد پرستی، واہمات اورانتہا درجے کی مادیت پسندی کے سخت خلاف تھے۔ جو معاشرے کی ترقی اور فلاح کے لیے ذہر ہیں۔ پروفیسر دیو سیکولر فلسفی اور بشریت پر یقین رکھتے تھے۔ انھوں نے ہنو ازم ، عسیائت اور اسلام کے اجزائے ترکیبی پر غور خوض، تقابل اور تجزیہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ۔مہ رام کرشنا، وویک کنڈا کے تصور کو جدید ہندو یت کا تصور کہا ھے۔ جو اصل میں گوتم بدہ کا " انسانی محبت" کا پیغام ھے۔ اسی طرح اسلام میں مساوات خوشی کی خواہشات اور عسیائیت میں محبت کا پیغام ملتا ھے۔ ڈاکٹر دیو نے فلسفے کے اکزائے ترکیبی کو کھنگالتے ھوئے اس کی اقسامیت کو بیان کرتے ھوئے ترقی کی مناجہیات پر بحث کی ۔ جو بنیادی فلسفے کا جدید "مخاطبہ" (ڈسکورس) تھا۔ جو اس فلسفے کا " ضد مقالہ" کی بنیاد کا اطلاقی پہلو تھاپروفیسر دیو نے سینکڑوں فلسفیانہ مقالات قومی اور عالمی جرائد میں بزبان بنگالی اور انگریزی میں لکھے۔ وہ اپنی موت تک پاکستان فلاسیفیکل کانفرس کے جنرل سیکریٹری رھے۔۔ وہ امریکہ کی یونیورسٹی آف مشی گن میں " عمومی مذھبیات" پڑھاتے رھے۔ بھر ستمبر 1966 میں امریکہ، پینسلوانیہ کے ویکس برا کالج میں تعلیم دیتے رہے۔ اور انسانی فلسفے میں ان کی دھوم مچ گئی۔ ان کے نام سے 1967 میں "THE GOVINDA DEV FOUDATION" " چیرز"کی بنیاد پڑی۔ انھوں نے قدیم ہندوستانی فلسفے سے اپنی فکریات کو سنوارہ ۔ بچپن میں انھوں نے عسیائی مشنیریوں کو بہت قریب سے دیکھا اور پڑھا۔ جس سے ان کے ذہن میں " ترکیبی" / SYNYHESIZE فلسفہ خلق ھوا۔ جو روحانیت اور مادیت کے بین بین چلتا ھے۔ ان کا کہنا تھا کہ میرے ایمان میں مادیت " غربت زدہ " ھے۔ ان کی چند کتابیں یہ ہیں: کاش ان کی کسی کتاب کو کوئی اردو میں ترجمہ کردے۔ تو یہ ایک بڑی علمی خدمت ھوگی۔ :
Idealism and Progress (1952)
Idealism: A New Defence and A New Application (1958)
Amar Jibandarshan (The Philosophy of My Life) (1960)
Aspiration of the Common Man (1963)
The Philosophy of Vivekananda and the Future of Man (1963)
Tattvavidya-sara (1966)
Buddha: the Humanist (1969).
https://www.facebook.com/ahmed.sohail.73/posts/10211757464111167